"RBC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں استحکام کے امکانات

افغانستان کو مستحکم دیکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ افغانستان کا استحکام پاکستان کی قومی سلامتی کے مفاد کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ عملی استدلال کا ہرخوشہ اور قد یم یا جدید دور میں لڑی جانے والی افغان جنگوں کے باب میں ملنے والی تاریخ کی ہر گواہی اس معروضے پر مہر ِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ عالمی طاقتوں کی لڑی جانے والی دوطویل جنگوں کے گرنے والے ملبے نے پاکستانی معاشرے اور قومی سلامتی کو بری طرح متاثر کیا۔ ستم یہ کہ ہم ان دونوں جنگوں کا حصہ بن گئے، پہلی میں مجاہدین کا ساتھ دیتے ہوئے سوویت یونین کے خلاف اور دوسری ، جو چودہ سال بعد ہنوز ختم نہیںہوپائی، میں ہم انہی مجاہدین کے خلاف کھڑے پائے گئے۔ درا صل ہم مقامی اور قومی پیچیدگیوں اور عالمی کھلاڑیوں کے پھیلائے ہوئے جال میںالجھے بغیرنہ رہ سکے۔
افغانستان پاکستان کے لیے ایک سٹریٹیجک ضرورت ہے، اس سے نظریں چرانے کا آپشن موجود نہیں۔اس کی وجہ انتہائی طویل عرصے سے کثیر تعداد میں افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی،انتہاپسند گروہوں کی پاک افغان سرحد کے آر پار حرکت اور سرحدوں سے قطع نظر اس خطے میں طویل عرصہ تک دو عالمی طاقتوں کا کھیلا جانے والی خونی کھیل ہے۔اس کشمکش کے پاکستان پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے افغانستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ بات البتہ قابل ِ بحث ہے کہ افغانستان میں ہونے والی کشمکش میں پاکستان کیسی حکمت ِعملی اپناتا کہ ان کا جوبھی انجام ہوتاتو ان سے پاکستان کا زیادہ نقصان نہ ہوتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف ذی فہم سیاست کاری کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ا س کی بجائے تعصبات ، عدم اعتماد اورذاتی مفادکی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں ابھرنے والی قیادت خطے کی تاریخ،عوام کے رجحانات اور حالیہ واقعات کو عالمی طاقتوں کے محرکات کے آئینے میں دیکھنے کی اہل نہیں ہوتی۔ 
پاکستان اور افغانستان جغرافیائی قربت کے باوجود دو مختلف سیاسی، معاشی اور سماجی رجحانات رکھنے والے ممالک ہیں، لیکن تاریخ کے دھارے، قبائلی اور نسلی آبادیاں اور کشمکش اور کشیدگی کی بساط ہمارے درمیان کسی قدر''ہم آہنگی‘‘ پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ریاستوں کے درمیان طویل کھلا بارڈ بھی ایک حقیقت ہے۔ تاہم اگر سرحد کے دونوں طرف کے کلچر اور اس کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ ہم قریب ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ ہم گزشتہ کئی عشروںسے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سرحد کے دونوں رہنے والے محنت کش عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے لیے پریشانیوں اور مسائل کے انبار کھڑے کرتے رہے ہیں۔ اس طرح رہنمائوں کی حماقت کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 
معاملات کی خرابی کی دووجوہ ہیں۔ ایک کا تعلق پاکستان سے اور دوسری کا افغانستان سے ہے۔ گزشتہ چھ عشروںسے جاری دوطرفہ الزام تراشیوں پر اگرچہ سینکڑوں صفحے سیاہ کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل کا تعلق فریقین سے ہے۔ گزشتہ پنتیس برسوںسے افغانستان پاکستان پر الزام لگارہا ہے کہ وہ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہا ہے ، لیکن اس الزام تراشی کا مقصد کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کسی سٹریٹیجک گہرائی کا متلاشی ہے ، لیکن یہ محض ایک فکری دیوالیہ پن کا شاخسانہ ہے ۔ سرحد پار ، افغانستان، جنگوں سے ستائے ہوئے افغانوں کا ملک ہے، کسی کی سٹریٹیجک گہرائی نہیں۔ یہ ایک لغو خیال کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں یہ ضرورہے کہ پاکستان افغانستان کو توانا دیکھا چاہتا ہے
کیونکہ کمزور اورداخلی انتشار کا شکار افغانستان پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کی داخلی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ سرحد کے دونوں طرف ریاستوں کے اپنے مسائل بھی ہیں اور شکایات بھی۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی بہت حد تک ''یکسانیت ‘‘پائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حل تو پھر اور بھی آسان ہونا چاہیے ۔ موجودہ حالات میں جب کہ خطے میں سردمہری کی برف پگھل رہی ہے، دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے ٹھنڈے دل سے مسائل پر غورکریں تو کوئی وجہ نہیں کہ حل نہ مل سکے۔ 
اس وقت پاکستان اور عالمی طاقتیں افغانستان سے جنگ کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ فی الحال یہ مقصدحل ہوتا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں اپنی توانا موجودگی رکھنے والے مختلف دھڑوں کے درمیان مفاہمت کرانا ہی اصل مقصد ہونا چاہیے۔ چار ملکی فریم ورک، افغانستان، چین، پاکستان اور امریکہ مل کر اس مقصد کوحاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ کسی ایک فریق نہیں بلکہ سب کی مجموعی ذمہ داری ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں