اگرچہ ہم شہروں کے باسی بن چکے ‘ ہماری نسل نے زندگی کا ایک بڑا حصہ دیہاتوں میں بسر کیا ہے ۔ سادہ اور جدید الجھنوں سے پاک‘ آسودہ زندگی تھی۔ ارد گرد رہنے والوں کا معیارِ زندگی مختلف نہ تھا۔ اُن میں زمیندار بھی تھے اور مزدور ‘ دکاندار ‘ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین بھی ۔ خصوصاً کھانے پینے میں کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ دیہاتوں کا تعلق شہروں سے اس طرح جڑا ہوا نہ تھا‘ جیسا آج ہے ‘ پھر گائوں اور اس سے ملحق دیہات خود کفیل تھے ۔ زیادہ تر وہی سامان استعمال میں لاتے جو پیدا کرتے ۔ کپڑا اور استعمال کی دیگر اشیا مہینوں کے وقفوں کے بعد بڑے شہروں سے لائی جاتیں‘ مگر اشیائے خور ونوش مقامی طور پر ہی پیدا ہوتیں اور استعمال میں لائی جاتیں۔ سبزیاں‘ پھل‘ چاول ‘ گندم اور موسم کے لحاظ سے علاقے کی مقامی پیداوار تمام علاقے میں فروخت ہوتی۔ مقامی منڈیاں ایک دوسرے سے لین دین کرکے مقامی معیشت کو ہموار رکھتیں۔
ہر گائوں میں ہر فن کے کاریگر ہوتے تھے ۔ ہر کوئی اپنے مخصوص پیشے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ اُن کی شہرت دور دراز کے علاقوںتک ہوتی تھی ۔ لوہار‘ ترکھان‘ درزی‘ موچی ‘ کمہار اور دیگر دستکار دیہات کی ثقافت میں رنگ بھرتے تھے ۔ وہ استعمال کی عام اشیا ہاتھ سے بناتے اور مقامی طور پر فروخت کرتے۔ لوگ سادہ‘ صحت مند‘ خوش اور مناسب حد تک خوشحال تھے ۔ اس فطری زندگی کا خاکہ میرے ذہن میں ابھی تک نقش ہے۔ وہ معاشرہ روایت اور اجتماعیت کی اساس پر قائم تھا۔ سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے۔ بانٹ کر کھانا‘ ہمسایوں کا خیال رکھنا‘ باہمی عزت ‘ احترام اور رواداری کی فضا اُس ماحول میں رچی بسی تھی ‘ پھر عالمی نظام کے جبر نے آہستہ آہستہ ہمارے دیہات کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔ وہ فطری اورسادہ زندگی‘ اور'' جو کچھ اگائو‘ وہی کھائو‘‘ کی سادہ معیشت ترقی کے سیلاب میں بہہ گئی ۔ آہستہ آہستہ روز مرہ استعمال کی ا شیا بڑے شہروں میں لگی صنعتوں سے آنا شروع ہوگئیں۔ کھڈیوں کی بجائے بڑی ملوں میں تیار ہونے والے چمکدار کپڑے کے تھان آنے لگے ۔ مقامی طور پر تیار ہونے والا کپڑا اپنی اہمیت اور مقام کھوبیٹھا۔ ساٹھ کی دہائی میں بناسپتی گھی اور چینی کی پیدوار اتنی نہیں تھی کہ انہیں دیہاتوں میں سپلائی کیا جاسکے ۔ مجھے یادہے کہ دیسی گھی اور مکھن کھانے والے بناسپتی گھی سے نفرت کرتے تھے۔ غریب خاندان بھی بناسپتی گھی نہیں استعمال کرتے تھے ‘ لیکن پھر ترقی کا دور آیا۔ آج دیسی گھی اور مکھن دیہاتوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آتا ۔ اگر ملے توکسی شہر سے ہی منگوایا گیا ہوگا۔
جدید صنعتوں نے دیہاتوں کو نوآبادیات میں تبدیل کردیا ہے ۔ یہی فارمولہ برطانوی راج نے اس خطے میں آزمایا تھا۔ خام مال ہمارے علاقوں سے حاصل کریں‘ مگر صنعتی پیداوار برطانیہ کے بڑے شہروں میں ہو۔ وہاں سے اشیا درآمد کی جائیں۔ یہی کچھ ہمارے دیہات کے ساتھ شہروں کے صنعتکار ‘ اور ان کی پشت پر موجود سیاسی جماعتوں اور نوکر شاہی نے کیا ہے ۔پاکستان کے دیہاتوں میں تبدیلی کا عمل بہت وسیع اور گہرا ہے ۔ دیہات شہروں کی ثقافت کے رنگ میں ڈھل رہے ہیں۔ یہاں بھی دکانوں‘ بیکریوں ‘ ریستورانوں اور اُن کے اردگرد کا ماحول وہی ہے جو شہروں میں ہے ۔ فرق صرف محل ِوقوع ‘ زبان وکلام اور کچھ مقامی ثقافت کا ہے ۔ یہ اتنا بڑا انقلاب ہماری آنکھوں کے سامنے برپا ہو اہے ۔ طرز ِزندگی‘ سوچ کے زاویے ‘ مقامی ثقافت‘ سب تبدیلی کے مختلف مراحل میں ہیں‘ لیکن اس انقلاب کا عملی نتیجہ کیا نکلا؟ یقینا کچھ لوگ دولت مند ہوگئے ہیں‘ لیکن زیادہ تر غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران ان گنت ایسے نودولیتے پیدا ہوئے ‘جن کا تعلق جدید معیشت‘ تجارت اور کاروبار سے ہے ۔ اس ''معاشی ترقی ‘‘ کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے ۔
ہماری معیشت‘ سرمایہ دارانہ کاشت کاری اور صنعت ‘ سب کچھ زراعت کی بدولت ہے ۔ اب مسلۂ یہ ہے کہ آپ زراعت پر جتنی بھی سرمایہ کاری کرلیں‘ موسموں کی تبدیلی آپ کے سب منصوبے برباد کرکے رکھ دیتی ہے ۔ اس لیے چھوٹا کاشت کار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔ جس نے ایک مرتبہ کسی سود خور کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ وہ وہیں کا غلام ہوکے رہ گیا۔ زمین گئی‘ مویشی گئے ‘ آخر کار خاندان اجڑ گئے۔ کاشت کاروں کی خود کشیاں ہندوستان میں مشہور ہیں‘ لیکن پاکستان میں بھی ان کی تعداد کچھ کم نہیں۔ کتنے خاندانی کاریگر ‘ جو استعمال کی ہر شے ہاتھ سے بناتے تھے‘ نام نہاد ترقی کے اس عفریت نے نگل لیے ۔ اب اُن کی اولاد معمولی محنت مزدوری پر گزربسرکرتی ہے ۔ سماج میں اضطراب اور افراتفری بڑھ رہی ہے ۔ یہ جدیدیت اور ترقی کا وہ منفی پہلو ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ دوسری طرف دلیل یہ ہے کہ دنیا بدل گئی‘ ہمیں بھی بدلنا ہے ۔ مغرب کی صنعتی ترقی کی مثال دی جاتی ہے ۔ پیرس‘لندن‘ نیویارک کا جلوہ دکھایا جاتا ہے ۔ ہماری نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ اسی چکاچوند کا مطلب تہذیب ہے ۔
لیکن شاید ابھی بھی وقت ہے جب ہمیں لمحہ بھر رک کر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ترقی کے خواب ہم نے دیکھے ہیں‘ وہ محض سراب تو نہیں؟ صنعتی ترقی کا عالمی طوفان‘ عالمگیریت‘ گلوبلائزیشن‘ جدید ٹیکنالوجی اور آئے روز نت نئی ایجادات نے زندگی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ اس ترقی کے خلاف کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ میرا تعلق اُن اساتذہ سے ہے‘ جو موجودہ ترقی کے جدید نظریے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے پس ِ منظر میں کارفرما فلسفے اور نظریات کو نہیں مانتے کہ اس بے لگام اور بے ہنگم صنعتی ترقی سے معاشرہ‘ فرد اور ریاست‘ سب خوشحال ہوتے جائیں گے ۔ میں ترقی کو ایک کثیر جہتی عمل سمجھتا ہوں۔ صنعت ا س کا صرف ایک جزو ہے ۔ یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی صنعت‘ کہاں اور کس مقصد کے لیے ؟ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ تاکہ صنعت ایسی ہو جو مقامی وسائل پر دارومدار رکھتی ہو اور اس سے ماحولیات کو نقصان نہ پہنچے۔ اس سے زمین‘ ہوا‘ دریا‘ نہریں ‘ جھلیں آلودہ نہ ہوں۔ ہوس ِ زر فطرت کو برباد نہ کردے ۔ اب تو مغرب نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ہوس ِزر کی وجہ سے ہونے والی مادر پدر آزاد صنعتی ترقی نے قدرتی ماحول کو تباہ کردیا ہے ۔ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ضروری نہیں کہ اس نام نہاد ترقی کی ہم بھی وہی قیمت ادا کریں جو دیگر معاشرے کرچکے ہیں‘ یا کررہے ہیں۔
میرے نزدیک ترقی ضروری ہے۔ سائنسی ایجادات اور نئی ٹیکنالوجی کا استعمال زندگی میں بہتری لاتا اور مسائل کم کرتا ہے ‘ بشرطیکہ وہ ماحول سے ہم آہنگ ہو اور قدرتی طور پر پیدا ہونے والے مقامی وسائل کو استعمال میں لائے ۔ ریت کے ٹیلوں پر برج بنانے کی ضرورت نہیں۔ نیویارک اور لندن کا تصور مثالی نہیں۔ آسودگی یکساں خوشحالی اور سادگی میں مضمر ہے ۔ مغرب میں فطرت اور اس کی رعنائیوں کا ذوق رکھنے والے افراد نے ترقی کی بے لگام دوڑ کو مسترد کردیا تھا۔
ہمار ا کیس قدرے مختلف ہے ۔ ہمارا صنعت کاراور سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے خواب ہی اس زندگی کے رکھتی ہیں۔ یہ خواب ہمارے قدرتی وسائل اور فطری ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ پھیلتے ہوئے شہروں‘ بڑے بڑے شاپنگ مالز‘ شہریوں کو خریداری کی طرف مائل کرنے اور اس سے لطف اٹھانے کی ترغیب نے ہماری سوچ‘ طرز ِزندگی اور معمولات کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ترقی ہم نے کیا کرنی تھی‘ ہم نے اپنی سادہ زندگی‘ طمانیت اور آسودگی کو تباہ کرلیا۔ قہر یہ کہ سادہ زندگی کو پسماندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مغربی ترقی کی اندھی پیروی سب نئی ریاستوں کا شعار بن چکاہے ۔ بہت کم دانشور اس کے خطرات کو بھانپتے اور اس کے خلا ف قلم اٹھاتے ہیں۔ ثروت یافتہ طبقہ ا س بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہا ہے ۔ مغرب اس بے ہنگم ترقی کے نقصانات سے آگاہ ہو کر واپسی کی تدبیر کررہا ہے ۔ گرین انرجی کی طرف جارہے ہیں۔ دوسری طرف ہم کوئلے سے بجلی پیدا کرکے ‘ ائیرکنڈیشن آن کر کے ٹھنڈے کمرے میں سوجائیں گے۔ ہمارے نزدیک یہی آسودگی ہے ۔ لیکن فضا آلودگی‘ اضطراب اور بے چینی سے بوجھل ہوتی جارہی ہے ۔