نیا سال آ گیا‘ پرانا ماضی کا حصہ بن چکا۔ کہیں بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا تھا تو خبرپر نظر پڑی کہ نگران حکومت کے وزیراعظم صاحب نے نئے سال کا جشن منانے پر پابندی عائد کردی ہے ۔ جواز یہ ہے کہ غزہ میں جو صہیونیوں نے قیامت برپا کررکھی ہے اس المیے کے پیش نظر یہ زیب نہیں دیتا کہ نئے سال کا استقبال گانے بجانے ‘ گھروں‘ ہوٹلوں اور ڈیروں پر پارٹیاں منعقد کرکے کریں ۔ فلسطینیوں کے قتلِ عام پر جو بے بسی عالم اسلام کی ہم دیکھ رہے ہیں ‘ ایسی گفتگو اور سطحی بیانات مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی کہ ہر شہر میں پولیس اور انتظامیہ کو الرٹ کردیا گیا ہے کہ وہ کسی کو نیا سال منانے کی اجازت نہ دیں۔ توقع یہی ہے کہ جس مستعدی اور تابعداری سے ہماری ضلعی انتظامیہ نے تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی تھوک کے حساب سے رد کیے ہیں ‘ اس سے کہیں زیادہ طاقت اور جذبے سے سڑکوں ‘ گلیوں اور محلوں سے نکلتے نوجوانوں کو پکڑ کر بند کردیں گے کہ حکمران غزہ کے غم میں نڈھال ہیں اور یہ آوارہ گرد نئے سال کی خوشیاں منا رہے ہیں ۔ ہم تو دنیا کی بڑی آبادیوں سے دور ایک کونے میں مقیم ہیں ‘ حالات کو یہاں سے دیکھنا زیادہ آسان ہے کہ کوئی گرد وغبار‘ سموگ‘ دھند نہیں ۔ آج آپ نے پڑھ ہی لیا ہوگا کہ حکومت اپنی رِٹ کوملک کے کونے کونے میں قائم رکھنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے ۔ سیانے تو یہی کہتے مر گئے کہ کام وہی کرنا چاہیے جو آپ کر سکتے ہیں ‘ جو آپ کے ذمہ ہے اور ضروری ہے ۔ سن تو یہی رکھا ہے کہ نگران حکومت کاکام حکومت کی گدی کو گرم رکھنا ‘ آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانے کا چارہ کرنا ‘ اقتدار نئی حکومت کے حوالے کرکے گھر واپس چلے جانا ہے ۔ جو ابھی تک نگرانوں نے کیا ہے اور انتخابات کو قابلِ اعتبار بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں‘ وہ اتنی بڑی اور تواتر سے چلنے والی شہ سرخی ہے کہ ملک کے پہاڑوں ‘ صحرائوں اور دریائوں کے سب جاندار پڑھ چکے ہیں۔ اس پر تبصرہ اب کیا کرنا ۔
ہمیں تو اب تک کی کارروائی دیکھ کر انتخابات کا کوئی اشتیاق ہی نہیں ‘ ہم تو نئے سال کی آمد کو دیکھ رہے ہیں ۔ جو منتخب ہونے تھے ‘ وہ ہو چکے ‘ اب صرف آٹھ فروری کو اعلان ہوگا‘ فتح کے جشن برپا ہوں گے ‘ اور ہمیشہ کی طرح وہی ہوں گے جو پچاس سال سے حکومت کررہے ہیں اور سبز منڈی میں آلو اور ٹماٹر کے پھیری والوں کی طرح سریلی زبان میں ایک موقع اور ملنے کی بولیاں بولتے ہیں ۔ خزانہ غیب کی برکتوں سے فیضیاب کیے جائیں گے ۔ جن کے پاس سیاسی خزانے کی کنجیاں ہیں‘ سنا ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ انتخابات تو ہم چاہتے ہیں کہ آزادانہ اور شفاف ہوں اور میدان سب کے لیے ہموار ہوتاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو‘ آپ لوگوں کو کس طرف جاتے دیکھ رہے ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ اب جس کانام لینے پر میڈیا میں پابندی ہے ‘ اگر کھمبے کو بھی کہے گا کہ اُسے ووٹ دیں تو ووٹ کھمبے کے نام ہوں گے ۔ غالباً کسی نے پھر سوچ لڑائی ہوگی کہ اگر کھمبا ہی میدان میں نہ آنے دیا جائے تو بات ختم ہوجائے گی۔ شاید ایسا ہی ہو‘ لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے ‘اور ہوجائے گا‘ لیکن عوام ‘ ریاست کا رشتہ جو اس نوعیت کی کارروائیوں سے کمزور ہوچکا ہے ‘ چند کچے دھاگوں تک رہ جائے گا۔ ہمار اخیال تو یہی تھا کہ پچیس سال پہلے کے حکمران اور نوکر شاہی ملکی اور علاقائی ماحول اور لوگوں کے شعور کی کیفیت بہت مختلف تھی ‘ مگر جو ہم برس ہا برس سے‘ ہر سال گزرنے اور نئے سال کی آمد دیکھتے عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں حافظہ تیز اور نظر کمزور ہورہی ہے ‘ حکمرانوں کی دانائیوں اور دور اندیشوں پر ترس آتا ہے ۔
ناامیدی تو کبھی دامن گیر رہی نہیں‘ نہ خود سے ‘ نہ عوام سے ‘ نہ ملک سے اور نہ ہی اپنی ریاست سے ۔ دریائے سندھ کے پانی اور مٹی کی خوشبو نے ہمیں اس زمین سے باندھ رکھا ہے ‘کہیں اور کی کوئی سوچ ہے ‘ نہ ارمان۔ ہم آزادی کی پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ زمین‘ دریا ‘ پہاڑ اور صحرا اپنی اصلی اور فطری صورت میں دیکھے تھے‘ جب آبادی مناسب اور کم تھی‘ شہر چھوٹے تھے اور زندگی کے بگاڑ اتنے پیچیدہ نہ تھے ۔ پرائمری سکول سے لے کر جامعہ تک‘ اور اگلے کئی عشروں تک ملک کے خواب آنکھوں ‘ دلوں اور روحوں میں سجا رکھے تھے ۔ جمہوریت تو ملک سے رخصت ہوچکی تھی‘ جب ہم نے ملک سے باہر قدم رکھا ‘ حصولِ تعلیم کی خاطر باہر چلے گئے مگر اس وقت بھی جمہوریت نے واپس آکر ملک سے انتقام نہیں لینا شروع کیا تھا ۔ تب بھی خواب تھے اور ہم جمہوریت کو آزاد کرانے اور اسے بہتر کرنے کے لیے یہی مشق جو اس صفحہ پر جاری ہے ‘ کرتے رہے ۔ ہر نئے سال میں اب خوابوں کی دنیا سے کئی قدم آگے نکل جاتے ہیں جہاں سماج اور افراد کی شعوری دنیا کا تعلق ہے ‘ اور وہاں ہم سال ہا سال غالب حکمران طبقات اور عوام کے خوابوں میں بڑھتے ہوئے تضادات کو مزید نکھر کر سامنے آتے دیکھ رہے ہیں ۔ جہاں دنیا نے عوام سے رشتہ ‘ ترقی ‘ آسودگی ‘ قانون اور انصاف کی فراہمی کے ذریعے مضبوط کیا ‘ ہمارے ہاں حکمرانوں نے اس رشتے کو کمزور کرنے کی بھرپورکوشش کی ۔ ہم تو ہر آنے والے سال دیکھتے ہیں کہ یہ تضاد کتنا بڑھا ہے ‘ اور حکمرانوں کی دھاندلیاں صرف انتخابات میں نہیں ‘ قومی زندگی کے ہر میدان میں کیا رنگ لا رہی ہیں ‘ اسی لیے ہم ایک عرصہ سے نیا سال مناتے نہیں بلکہ منانے والوں کو دیکھتے ہیں ۔
نئے سال کی مبارک باد سوائے سولہ جماعتی اتحاد اور اس کے لاہور اور نواب شاہ کے مرکزی کرداروں کے کسی کے لیے نہیں بنتی۔ آپ کو داد تو دینی ہوگی ۔ خیر یہاں سب ہی سیاسی ماہر اور اپنی اپنی جگہ پر سیاست کے آئن سٹائن ہیں ۔ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے وطن میں سیاسی فنکاری کی پہچان یہ ہے کہ آپ اقتدار میں آنے کے سب دروازے جانتے ہیں‘ نیز یہ بھی کہ انہیں کون کھولتا ‘ کون بند کرتا ہے ‘ اور یہ کہ سیدھا راستہ کہاں سے نکلتا ہے ۔ راستہ بنانے اور دروازہ کھلوانے کے لیے کیا کچھ کرنا ضروری ہے ‘ اس کا علم سیاسی مہارت کہلاتاہے ۔افسوس ‘ گردشِ ایام ‘ افسوس۔ سال بدلتے رہے ہیں‘ دنیا بھی بدل گئی ‘ مگر سیاست کے کھلاڑی اور اس کھیل کے نگران بدلتے نہیں دیکھے ۔ ایک ہی سیاسی فلم نہ جانے کتنی بار قوم کی اجتماعی سکرین پر دکھائی گئی ۔ باتیں ‘ شکلیں ‘ نعرہ بازی کی گونج اب کان گوارہ نہیں کرتے ۔ اپنی بے بسی کا احساس ہر آنے والے سال کے ساتھ زیادہ محسوس ہوتا ہے‘ مگر کیا کریں کہ ہمارا پیشہ‘ کام اور ہنر اس سے زیادہ نہیں کہ جو ہمیں نظر آئے ‘ بکھرے خیالوں اور بے ربط جملوں کی صورت آپ کے حوالے کردیں ۔ کچھ اندر جھانک کر جب گہری تنہائیوں میں دیکھتے ہیں تو خواب اور امیدیں کئی بار سر اٹھا کر ہمارے ہر سال کمزور ہوتے جسم کو جھنجھوڑ ڈالتی ہیں ۔ تاریخ کے دیرینہ اسباق اور دور ِحاضر کی سماجی ‘ سیاسی اور معاشی حرکیات ذہن میں گردش کرنے لگتی ہیں ۔ تشکیک کے دورے بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں کہ نا انصافی ‘ دھاندلی اور فنکاری کی سیاست کے کرشمے کب تک عوام کو دھوکے میں رکھیں گے ‘ اور کب تک لوگ موروثیوں کی ہر دور کی بدعنوانی کا بوجھ اُٹھا سکیں گے۔ صاحبانِ عزم ‘ اہلِ دل اور سب اہل ِنظر کو نیا سال مبارک ۔