ہم نے ملکی سیاست کے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ پہلے تیس سال بعد کے زمانوں سے بالکل منفرد تھے۔ قدآور‘قابلِ اعتماد اور مدبر سیاستدانوں کی کمی نہ تھی۔ طاقت کا توازن تو اُس دور ہی سے بگڑ گیا تھا مگر بے طاقت ہونے کے باوجود ان کے ہاں جمہوریت کی بحالی‘ استحکام اور آئین کی بالا دستی کے تصورات کی کمی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے لے کر سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں اور سرحدی علاقوں تک‘ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے۔ سیاسی تقسیم بھی تھی‘ نظریاتی کشمکش کا تنائو اور لسانی اور علاقائی منافرت بھی اور اصل طاقت پربڑے گھر کی اجارہ داری تھی۔ اس کے باوجودسب پرانی سیاسی جماعتیں اور دھڑے جو آزادی کی تحریکوں سے اٹھے تھے‘ متحرک رہتے۔ انہیں دبایا بھی جاتا تھا‘ قیدو بند کی صعوبتوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا‘ مگر سیاسی عمل جاری رہتا۔ ایوب کے دور کے اثرات میدان میں نمایاں تھے۔ سیاسی جماعتوں کا بگاڑ اُس زمانے ہی میں پیدا ہوا تھا کہ خوف ان سے تھا۔ انہیں توڑنا‘ نامور سیاستدانوں پر پابندیاں لگا کر درباری چیلے بھرتی کرنا اور انہیں قبولیت کی خلعت پہنانے کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی تھی۔ ایک طرف اصول پسند سیاسی زمین سے جڑے نظریاتی سیاستدان اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں تھیں اور دوسری طرف موقع پرست جاگیردار اور وڈیروں کا جمِ غفیر تھا جو ایوب خان کی سیاسی چھتری‘ کنونشن مسلم لیگ میں ''سنہری انقلاب‘‘ کا ہراول دستہ تھا۔ ہماری ہمدردیاں اُس دور کے معتوب سیاستدانوں اور جماعتوں سے تھی۔ خون تو اب بھی ہمارا جوان ہے‘ تب نوجوان تھے۔ جہاں کہیں اپنے ضلع میں کوئی سیاسی جلسہ ہوتا‘ ہم اکثر پیدل سفر کرکے وہاں پہنچ جاتے۔ اس کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ اُن کے جذبے‘ اصول پسندی‘ بصیرت اور جرأت کو ہم نے قریب سے دیکھا ہے۔
مولانا مفتی محمود میرے سب سے پسندیدہ مقرر تھے۔ کمال کی سیاسی تقریر کرتے‘ جم کر کھڑے رہتے اور کھل کر‘ بغیر لگی لپٹی رکھے وہ باتیں کرتے جن کی اجازت نہیں تھی۔ یہی کچھ تو ہم جیسے لوگ سننے کے لیے جاتے تھے۔اصول پسندی ہی تو تھی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت کا تختہ فروری 1973ء میں الٹا تو مفتی محمود‘ جو موجودہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے‘ نے بطورِ احتجاج وزارت چھوڑ دی۔ تاریخ انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے بلکہ دہائیوں سے ایسا کررہی ہے‘ مگر ہمیں اُس سے آنکھ سے آنکھ ملاکر دیکھنے کی سکت نہیں۔ اپنے سیاسی بت خانوں میں ہم نے بت تراش ہی تو پیدا کیے ہیں کہ ایسے کاروبار میں بغیر کچھ محنت و مشقت کئے سب کچھ مل جاتا ہے۔ اس درباری کلچر کا تعلق مغلیہ دربار اور اس کے شہزادوں سے ہے جو ہماری سرزمین کی سیاسی تاریخ اور آج کے سیا سی ماحول میں سکہ رائج الوقت کی طرح غالب نظر آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مظلوموں کو ظالم اور ظالموں کو قوم کا نجات دہندہ اور عوامی ہیرو بنانے کا فن ہمارے معاشرے میں درباری صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ صرف یاد دہانی کے لیے‘ جن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور جنہوں نے بطور احتجاج استعفیٰ دیا اُن پر حیدر آباد کی جیل میں غداری کے مقدمات چلے۔ اُس قید و بند کے عوامی دور میں حبیب جالب نے بھی اسیری کی مصیبتیں برداشت کیں اوراُن کا کنبہ فاقہ کشی کا شکار رہا۔ ہمارے اُس وقت کے سرکاری میڈیا‘ درباری دانشوروں اور صحافیوں نے کھل کر بلوچ اور پختون سیا ستدانوں کو غدار کہا۔
میرے نزدیک وہ تمام رہنما اصول پسند تھے‘ آپ ان کے خیالات سے اختلاف کرسکتے تھے مگر وہ دلیل سے کام لیتے اور جن کے پاس طاقت تھی وہ بندوق سے۔ عبدالولی خان‘ سردار عطا اللہ مینگل‘ غوث بخش بزنجو‘ مفتی محمود‘ جی ایم سید صاحب کے بارے میں کیا کچھ نہ لکھا اور کہا گیا۔ جبر واستبداد کی سیاست اور درباریوں کی حلیہ بازیوں میں کبھی ان کی بات نہ سنی گئی‘ کہ آخر وہ کیا چاہتے تھے۔ وہ وفاق‘ آئین‘ جمہوریت‘ نمائندگی کے اصول اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر اور پاکستانیت کیا ہوسکتی ہے؟ شاید اکثر کو معلوم نہ ہو کہ عوامی نیشنل پارٹی کی بلوچستان میں حکومت ختم کرکے گورنر راج لگایا گیا تھا مگر نیا آئین چند ماہ بعد بنا تو اس پارٹی کے رہنمائوں نے مخالفت برائے مخالفت کے بجائے آئین پر قومی ہم آہنگی کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دستخط کردیے۔ سیاسی ظلم اور کھلی زیادتیوں کے باوجود انہوں نے اصول پسندی کا دامن نہ چھوڑا۔ یہاں میں نوابزادہ نصر اللہ خان کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ ایوب خان کے آخری دورمیں انہوں نے بحران کو حل کرنے کے لیے گول میز کانفرنس کی تجویز دی‘ اور اس کوشش میں وہ متحرک رہے۔ ایوب خان بھی مان چکے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سب سیاستدان اکٹھے ہوں اور سیاسی بحران کا کوئی حل نکالیں۔ ایک بڑا سیاستدان بڑے عوامی جلسوں میں ان کا مذاق اڑاتا‘ انہیں نوابزادہ حقہ ٹوپی کہتا اور گول میز کانفرنس میں آنے سے انکار کردیا۔ تاریخ اس دور کی ذرا پیچیدہ اور لمبی ہے۔ اگلے ادوار میں بھی نوابزادہ صاحب سیاستدانوں کو جوڑنے کے لیے متحرک رہے۔ ان کے نزدیک آئین اور جمہوریت ہی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہیں۔
جنرل ضیاء الحق صاحب کا دور آیا تو بحالی ٔجمہوریت کی تحریک چلی۔ چھوٹی بڑی حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اس میں شامل تھیں۔ نوابزادہ صاحب بھی متحرک رہے۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد صدر کے عہدے کے لیے امیدواروں کے نام آئے تو نوابزادہ صاحب بھی میدان میں اترے۔ شام کو میں ایک دوست کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے گیا۔ اگلے روز انتخاب ہونا تھا‘ وہ ایم این اے ہوسٹل کے ایک کمرے میں اکیلے‘ حسبِ معمول حقے کے کش لگا رہے تھے۔ ہم نے گزارش کی کہ ہمارا ووٹ تو نہیں مگر ہم آپ کی اخلاقی حمایت کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ کچھ دیر باتیں کیں اور اس دوران مولانا کوثر نیازی مرحوم بھی ان سے ملنے آ گئے۔ نوابزادہ صاحب کو چند ووٹ ملے جبکہ پیپلز پارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے تعاون سے آزاد امیدوار غلام اسحاق خان 752 میں سے 608 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ ایک بار پھر مصلحت پسندی جیت گئی‘ اصول پسندی ہار گئی۔ سوچیں‘ اگر نوابزادہ صاحب صدر منتخب ہوتے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کتنی مختلف ہوتی۔
وہ لوگ چلے گئے‘ وہ دور گزر گیا اور ہم ان کی کچھ ادھوری یادیں اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ آج ہم تاریخ کے ایک خطرناک‘ طویل بحران سے گزر رہے ہیں۔ آج کے ڈرامے کے مرکزی کرداروں‘ ان کے درباریوں اور ڈھنڈورچیوں کانام نہیں لے سکتے کہ کہیں 'ہتکِ عزت‘ کے شاہی فرمان کی زد میں نہ آ جائیں۔ آج شام جب آپ خبریں سنیں اور دیکھیں گے‘ ٹاک شوز میں ان کی جلوہ گری کے نظارے کریں گے تو تھوڑا سا غور ضرور کریں کہ کھوٹے سکوں نے کھروں کی بساط لپیٹ کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں‘ ایوانوں اور طاقت کے مراکز پر کس طرح قبضہ جما رکھا ہے۔ اب وہ مضبوط ہو چکے ہیں۔ درباریوں اور پجاریوں کی کمی نہیں۔ ملک‘ قوم اور سلطنت کی باتیں صرف ترانے میں رہ گئی ہیں۔ ایسے نظام میں ایسے ہی کردار‘ بغیر کسی پارٹی کے ایوانوں میں‘ کابینہ میں‘ اور حکمران طبقے میں آتے ہیں۔