"RBC" (space) message & send to 7575

اب تو پرندے بھی…

بصد شوق آپ چاہیں تو ہمیں ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں جو درختوں ‘ جنگلوں اور پرندوں کے درمیان خوش رہتے ہیں۔ وقت مشرق سے طلوع ہونے والے اجالے کا ہو اور پیڑ نیم تاریکی میں زیادہ گھنے اور گہرے دکھائی دیں تو آہستہ آہستہ مختلف پرندوں کی آوازیں کانوں میں رَس گھولنا شروع کردیتی ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں عجیب سکون اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اب تو یاد نہیں کہ کس عمر میں ہم صبح صادق کی جلوہ گری کے شیدا ہوئے تھے۔ بدلتے موسموں کی شدت نہ زمانے کی گرانی فطرت کے اس مفت اور بے بہا تحفے سے فیض یابی کو روک سکے۔ اپنی خوش قسمتی اور اوپر والے کے فضل کا شمار ہی نہیں کہ صبحوں کی تازگی اور گل و برگ پر شبنم کے قطروں کے موتیوں کی رنگینیوں سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ قدم اٹھاتے ہی خود کلامی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ا ور ہم ہمیشہ کی طرح ذہن کو ایک بے سمت کشتی کی طرح گہرے پانیوں میں اتار دیتے ہیں۔ پہلے تو پرندے بیدار ہونے کا اعلان یکے بعد دیگرے کرنا شروع کردیتے ہیں ‘ پھر پروں کو پھڑپھڑاکر انگڑائی لیتے ہیں اور سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ چونکہ اپنے اسی ماحول میں زندگی گزار ی ہے ‘ یقین پختہ ہوچکا ہے کہ وہ بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ محبت اور نفرت بھی قدرت نے ان کی سرشت میں رکھ دی ہے۔ پرندے تو ذہن میں نہیں تھے مگر ورجینیابیل تقریباً تیس سال پہلے کسی کے گھر کے پورچ کی چھت اور دیواروں سے چپکی دیکھی تو پودوں کی کمزوری کے سبب بیل کی خوبصورتی کی تعریف کے پُل باندھ دیے۔ میزبان خوش ہوئے اور اس کا ایک پودا ہمیں بھی بوقتِ رخصت عنایت کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں اس بیل نے وہی رونق لگا دی جو اُس گھر میں دیکھی تھی۔
چند سالوں بعد دیکھا کہ چڑیا نے ایک گھونسلا بنا لیا ہے۔ انڈے دیے اور چوزوں کی آوازیں صبح ہوتے ہی سنتے اور چڑیا کو سارا دن ان کے دانہ پانی کے انتظام میں مصروف دیکھتے۔ بیل گھنی ہوئی ‘ مزید پھیلی تو بلبل بھی کہیں سے آن دھمکی۔ لیجیے‘ سامراجی انداز میں چڑیوں کو بے دخل کرکے اگلے سال اپنی راج دھانی قائم کردی۔ بلبل غصیلے اور جارح قسم کے پرندوں میں شمار ہوتی ہے۔ ان کے گھونسلے کے قریب سے بھی گزریں تو حملہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اصل میں وہ خبردار کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں اپنا کنبہ بنایا ہوا ہے اور اس کی سلامتی کی خاطر ہمیں وہاں سے دور رہنا چاہیے۔ ہم ایک محتاط فاصلہ رکھ کر ان کے نشیمن کے پاس سے گزرتے ہیں۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ فاختہ جس کی نرم و ملائم اور دل گداز آواز مسحور کن ہے ‘ نے دیوار اور چھتوں کے ساتھ چپکی بیل پر اپنا چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے۔ سردیوں میں اس بیل کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ کل ہی جائزہ لینا شروع کیا کہ ہمارے مہمان پرندوں کے کتنے گھونسلے ہیں۔ چار تو میری کمزور آنکھیں دور سے دیکھ سکتی ہیں۔ بہار کے اوائل میں جب نئے پتے نمودار ہونے لگتے ہیں تو چڑیا بلبل اور فاختہ ہمارے پورچ کو کچھ دنوں کے لیے میدانِ کارزار بنا لیتے ہیں۔ بڑے پرندے پروں کی ضربوں اور چھوٹے نوکیلی چونچ کی تیز دھار کو ہتھیار بنا کر اپنا لوہا منوانے کی تگ ودو اُس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک ایک دوسرے کا حقِ گھونسلا تسلیم نہ کرلیں۔ ہم اپنے طور پر گھر میں سیاسی استحکام قائم رکھنے کی خواہش میں پرندوں کو پنجابی میں بھائی چارے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں لیکن امن صرف پرندوں کے درمیان طاقت کا توازن پیدا ہونے سے ہی قائم ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارے مشوروں کی حیثیت وہی ہے جس کا آپ کو خوب اندازہ ہے۔
جنگلوں اور پارکوں میں بھی پرندوں کے درمیان کبھی کبھار کشادگی کے باوجود کشیدگی اور نوک جھونک کی نوبت آتے دیکھی ہے۔ ہم ان کے نظام میں جو فطری ہے بندوبستی نہیں‘ مداخلت نہیں کرتے۔ البتہ جب خون خرابے کا خطرہ حد سے بڑھ جائے تو اپنی پرانی لاٹھی کو ہوا میں حرکت میں لاتے ہیں ‘ یا زمین پر پٹخ کر '' آرڈر‘ آرڈر‘‘ کی صدا لگاتے ہیں تو پرندے پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ جاتے ہیں۔ پرندوں میں اکثر لڑائی جانوروں اور انسانوں کی طرح ہم جنسوں میں ہوتے دیکھی۔ انسانوں نے تو لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت میں جو مقام دورِجدید کی مشینی جنگوں میں پیدا کیا ہے اور جو حشر کرۂ ارض کی صحت کا کیا ہے تو اکثر پرندوں نے بھی باہمی لڑائیوں میں اضافہ کرلیا ہے کہ ان کا ماحول بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ وہ بھی بقا‘ سلامتی اور خوراک کی قلت کے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہم جب جنگلوں میں رہتے تھے اور جب ہمارے گائوں چھوٹے ‘ صاف ستھرے اور درختوں کے جھنڈوں میں تھے تو کبھی فاختہ کو گھروں کے اندر گھونسلے بناتے نہیں دیکھا تھا ۔ جب وہ جنگل رہے اور نہ وہ مقامی درخت جن پر وہ نسل در نسل گھونسلے بناتے تھے تو ان کی بقا کی جنگ انہیں ہمارے پورچ کے کناروں پرلے آئی۔ ہم تو اسے اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں اوران کے آنے جانے اور چوزوں کی پرورش کے جو مناظر دیوان کے اندر بیٹھ کر دیکھتے ہیں‘ وہ ہماری فطرت پریمی کے تاج محل سے کم نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاہجہاں آگرہ قلعے کے ایک کونے میں اورنگزیب کی قید میں حسرت بھری نگاہوں سے اپنی محبت کی نشانی کو دیکھا کرتے تھے اور ہم آزاد پنچھی ‘ آزاد پنچھیوں کو کھلے ماحول میں مرضی کی زندگی گزارتے دیکھ کر خوش رہتے ہیں۔
چند روز قبل جب قریبی پارک میں ہر روز کی طرح دو دیگر بابوئوں کے ہمراہ اپنے دھیان میں گم تیزتیز قدم اٹھا رہے تھے تو پرندے بھورے مٹیالے رنگ کے چونچیں پھنسائے لڑتے لڑتے ہمارے ساتھ ہی راستے پر گر گئے۔ ان کے اور ان کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمارا شور بھی شامل ہوگیا۔ مگر وہ لڑنے مرنے پر تلے ہوئے تھے۔ انہیں ہماری موجودگی اور پکڑے جانے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ عیسیٰ خان نے پہلے کچھ آوازیں دیں ‘ لڑائی میں مصروف پرندوں سے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے پشتو میں کچھ کہا مگر پر دار مخلوق دراز قامت سابق پولیس افسر کو مطلق خاطر میں نہ لائی۔ تو پھر انہوں نے وہی کیا جو ان مواقع پر پولیس کرتی ہے۔ اپنا ڈنڈا جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں ‘ پرندوں کے ارد گرد زور زور سے ماراتو وہ ڈر کر اُڑ گئے۔ مگر چند گز دور جا کر دوبارہ لڑ پڑے۔ اس بار عیسیٰ خان نے پشتو میں کچھ سخت بات کی جس کی ہمیں سمجھ نہ آئی۔ پرندے اُڑ کر درخت کی شاخ پر بیٹھ کر پھر سے لڑنا شروع ہوگئے۔ خان نے اب ڈنڈا ذرا سختی سے گھمایا۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ شاخ لرز اٹھی۔ گویانظام کو ہلاڈالا۔ بڑی مشکل سے پرندوں کو تو وہاں سے بھگایا کیونکہ صبح سویرے ہم پُرسکون لوگ اپنے سامنے خون خرابہ برداشت نہیں کرسکتے۔ عیسیٰ خان سے اگلے دن بہت اصرار کیا کہ پشتو میں پرندوں سے جو کہا تھا ہمیں بتائیں لیکن وہ ہنس دیے۔ خیر ہم سمجھ گئے کہ وہ ایسے نادان سوالوں کا جواب دینا ضرور ی نہیں سمجھتے۔ پرندوں کا نام کہیں اس لیے نہیں لے رہا کہ پرندوں کی لڑائی سے ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ ہوا یوں کہ اپنے پورچ میں چڑیوں میں تنازع پیدا ہوگیا ‘ یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے بے دم ہوکر نیچے گر گئیں اور گملوں کے اندر چھپی بلی جھپٹی اور دونوں کو دبوچ لیا۔ اس سچے واقعے کا ہماری سیاسی تاریخ یا حالاتِ حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں