بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور جنرل مشرف کے ساتھ تین دفعہ وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہنے والے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور عبدالحفیظ کاردار کے ساتھ سات برس بورڈ کے سیکرٹری، 1992ء کی کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر اور 1999ء میں ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی کرکٹ ٹیم کے منیجر ڈاکٹر ظفر الطاف کو بہتّر سال کی عمر میں پنجاب حکومت نے اشتہاری ملزم قرار دے دیا ہے۔ وہ آج بدھ کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہورہے ہیں کہ عبوری ضمانت لینے کی کوشش کی جائے۔ میں نے فون کر کے پوچھا: ڈاکٹر صاحب کیا ہوگا ۔ بولے: کیا ہونا ہے، ضمانت نہ ہوئی تو وہ جیل جائیں گے۔ ایک طویل خاموش اداسی ہم دونوں کے درمیان چھا گئی۔ عمر کوٹ سندھ سے پیپلز پارٹی کے نومنتخب ایم این اے نواب یوسف تالپور کا رات گئے فون تھا ۔ آواز میں بے چینی اور دکھ تھا۔ پوچھا: ہمارے دوست کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا: وہ بہتر سال کی عمر میں اس قوم اور ملک کی خدمت کرنے کے بعد اشتہاری ملزم قرار پائے ہیں اور اس وقت مفرور ہیں۔ نواب یوسف تالپور کو علم تھا کہ صرف میں ہی ان کا درد اور دکھ سمجھ سکتا تھا‘ اس لیے مجھے فون کر کے اپنا رونا رو رہے تھے۔ ہم دونوں کی آوازیں بھرائی ہوئی تھیں کیونکہ ہمیں احساس تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس دھرتی سے محبت کی انہیں یہ سزا نہیں ملنی چاہیے تھی۔ ظفر الطاف کو جیل ڈالنے کے جس منصوبے پر جنرل مشرف نے کام شروع کیا تھا‘ وہ آخر پنجاب حکومت نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب دو سال قبل ایک \"برخوردار\" نے چینوٹ میں اپنے دودھ کا کاروبار شروع کیا تو ادارہ کسان کی مدد لینے کا فیصلہ ہوا۔ ادارہ کسان سنٹرل پنجاب کی 26000 غریب خواتین سے دودھ اکٹھا کر کے اسے ہلّہ دودھ کی شکل دے کر نہ صرف ان کی زندگیوں میں بہتری لارہا تھا بلکہ لاہور میں فریش دودھ دوسروں کی نسبت بیس روپے کم قیمت پر فروخت کر رہا تھا ۔ پندرہ برس قبل پنجاب حکومت کے ایک سرکاری دودھ پلانٹ نے ادارہ کسان کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر معاہدہ کیا جس کی لیز اگلے سال ختم ہونی ہے۔ گھاٹے میں چلنے والے اس پلانٹ کو فوری طور پر منافع میں لایا گیا۔ اس کے بعد پنجاب حکومت نے کہا کہ پنجاب کے دو اور اضلاع میں بھی دودھ پلانٹ لگا کر دیں۔ ایک ضلع کے ایم پی اے چاہتے تھے کہ نوکریاں دی جائیں۔ سمجھایا گیا کہ جناب اس پلانٹ میں ٹیکنکل نوکریاں ہیں۔ نہ مانے۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مل کر مسائل پیدا کیے۔ انکوائری ہوئی تو ڈپٹی کمشنر کا قصور نکلا۔ اسی اثناء میں والٹن پر موجود دودھ پلانٹ پر\" برخوردار\" کی نظر پڑی۔ سوچا کہ اگر یہ پلانٹ موجود رہا تو ان کا اپنا دودھ کیسے مارکیٹ ہوگا ۔ لاہور پلانٹ کی زمین پر ہمارے دوست خواجہ سعد رفیق کی نظر پڑی۔ وہ اپنے والد محترم خواجہ رفیق کے نام پر سرکاری کالج تعمیر کرانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے جو ادارہ کسان کے محض آنریری چیئرمین ہیں‘ سمجھایا کہ جتنی تعلیم انسان کے لیے ضروری ہے اتنا ہی دودھ پلانٹ ضروری ہے۔ سعد رفیق کو سب کچھ برا لگا اور انہوں نے بھی ڈاکٹر ظفر الطاف کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ملازم افسران کو ٹاسک دیا گیا۔ ادارہ کسان کے اہلکاروں پر محکمہ انٹی کرپشن میں مقدمات درج کرائے گئے اور انہیں اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پلانٹ پر قبضہ کر کے وہاں پولیس بٹھا دی گئی اور یوں ایک سال قبل ہلّہ دودھ بند ہوا اور\" برخوردار\" کا دودھ مارکیٹ ہونے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے وکیل کر کے پنجاب پولیس کے زیرعتاب اپنے لوگوں کی مدد کی کوشش کی تو پیغام ملا کہ بہتر ہوگا کہ آپ دور رہیں وگرنہ آپ پر بھی مقدمات درج ہوں گے۔ وہ باز نہ آئے تو آخر ان پر بھی انٹی کرپشن نے مقدمہ درج کر لیا۔ جب پچھلی بار یہ سب کچھ ہوا تھا تو میں نے پرویز رشید کو فون کیا تھا ۔ ان کی مہربانی کہ میری بات حوصلے سے سنی اور ان سے جو کچھ بن سکا انہوں نے کیا ۔ پرویز رشید نے اپنے تئیں پتہ کرایا تو خود مجھے بتایا کہ ڈاکٹر الطاف بے قصور ہیں۔ نواب یوسف تالپور اور میں نے اسحاق ڈار سے بات کی۔ پرویز رشید اور اسحاق ڈار کی مہربانی کہ انہوں نے فوراً اس پر کارروائی کی اور طے پایا کہ ایک رکنی عدالتی کمشن اس کی تحقیقات کرالے۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن نے یہ تفتیش کرنی تھی۔ آج تک اس کمشن نے تفتیش نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب فون کرتے رہے۔ شہباز شریف نے اسمبلی ختم ہونے سے دو روز قبل پھر حکم دیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف کارروائی کی جائے اور اب ان احکامات کی روشنی میں وہ مفرور قرار پائے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے ملاقات ہوئی تو ان کے گوش گزار کیا کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے خاموشی سے بات سن لی ۔ اس سے زیادہ اور وہ کیا کر سکتے تھے۔ اب پچھلے ہفتے ڈاکٹر ظفر الطاف کو اطلاع دی گئی کہ جناب آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں اور آپ ایک اشتہاری ملزم ہیں۔ سوچا کہ پرویز رشید سے بات کروں یا اسحاق ڈار کو فون کروں۔ پھر کچھ سوچ کر چپ رہا ۔ بات اگر پرویز رشید اور ڈار صاحب کے بس میں ہوتی تو پچھلی دفعہ ہی ختم ہوجاتی ۔ معاملہ جب \"برخوردار\" کے دودھ کی مارکیٹنگ کا ہو اور ان کی مخالف دودھ کمپنیوں کو ختم کرنا ہو اور لاہور کے سرکاری پلانٹ پر قبضہ کرنا ہو تو پھر وہ میرے دونوں دوست کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے پتہ نہیں ہے کہ آج ڈاکٹر ظفر الطاف جیل جاتے ہیں یا ضمانت ملتی ہے لیکن ایک دکھ ضرور ہے کہ شریف حکمران آج تک ہمیں بتاتے نہیں تھکتے تھے کہ ان کے ساتھ جنرل مشرف نے زیادتی کی تھی اور انہیں جیل میں رکھا، آج وہ خود وہی کام کر رہے ہیں۔ تو کیا جنرل مشرف نے شریف خاندان کو جیلوں میں ڈال کر یا جلاوطن کر کے انہیں ختم کر دیا ہے کہ اب ڈاکٹر الطاف کو جیل میں ڈال کر انہیں ختم کیا جا سکے گا؟ کیا پنجاب میں کسی ایسے انسان کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے جو حکمران خاندان کے مقابلے پر کوئی کاروبار کر رہا ہوگا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے خاندان کا دکھ کچھ اور نوعیت کا ہے۔ ان کے والد چوہدری الطاف اتفاق فائونڈری کے کئی عشروں تک لیگل ایڈوائز رہے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات بہت پرانے تھے۔ ایک لمحے میں سب کچھ بھلا دیا گیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ فلاں دوست سے بات کرتے ہیں۔ بولے چھوڑو یار، میں اپنے لیے کسی سے بات نہیں کروں گا۔ جب جنرل مشرف نے مجھے گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا تو میں روم میں تھا۔ دوستوں نے کہا تھا مت لوٹو اور میں لوٹ آیا تھا کیونکہ میرا ہمیشہ یہ کہنا رہا ہے کہ اپنے ملک کی جیل میں مرنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہے!! پچھلے دنوں پڑھا تھا نواز شریف نے جیل سے اپنے خاندان کی خواتین کو فیصل آباد کے ان سرکاری افسروں کے گھر بھیجا تھا جن کو انہوں نے کھلی کچہری میں ہتھکڑیاں لگوائی تھیں۔ انہیں لگا تھا کہ ان بے گناہ افسروں کی بددعا انہیں جیل تک لے گئی تھی۔کیا شریف خاندان کو احساس ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کر کے ایک بے گناہ خاندان کی بددعائیں لینے والے ہیں؟ کیا انہیں یہ احساس دلانے کے لیے کسی اور بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کی ضرورت پڑے گی اور پھر کوئی اور ڈاکٹر ظفر الطاف سے ایسے معافی مانگنے جائے گا جیسے بارہ برس قبل فیصل آباد کے افسروں سے مانگنے کے لیے تاریک اور نامہربان جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے بھیجا گیا تھا؟