"RKC" (space) message & send to 7575

خزانہ خالی ہے!!

جب سے میں نے پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کے اخراجات کے شاہانہ انداز کی ہوش ربا تفصیلات روزنامہ دنیا میں فائل کی ہیں‘ سوچ رہا ہوں کہ میں کتنا بے وقوف ہوں کہ دن رات محنت کر کے ا ور کئی خطرات مول لے کر پیسے کماتا ہوں اور پھر ان میں سے 22 فیصد انکم ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ کس طرح صرف چند بڑے سیاستدانوں اور افسروں کے بیرون ملک علاج پر آپ کے اور ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے بارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے، راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم ہائوس میں ستر لاکھ روپے کے نئے پودے لگوائے‘ پندرہ لاکھ روپے کا کیمرا ان کے فوٹو سیشن کے لیے خرید ا گیا‘ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ کی مہمان نوازی ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں کی گئی اور صرف پٹرولیم ہائوس کا فرنیچر خریدنے پر دس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ وی آئی پی پروٹوکول ڈیوٹی دینے والی گاڑیوں کے پٹرول پر ایک سال میں دو کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ گاڑیاں چیختی چنگھاڑتی‘ ہمارے منہ پر دھول اڑاتی‘ سیاستدانوں کے آگے پیچھے چلتی ہیں اور ان میں بیٹھے بندوقیں تانے سپاہی لوگوں کو نخوت آمیز طریقے سے اشارے کر رہے ہوتے ہیں کہ سائیڈ پر ہوجائو، صاحب کی سواری گزر رہی ہے۔ ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ وزیراعظم سے ملے اور ساٹھ کروڑ روپے لیتے بنے کہ جناب ایک مشن ہے۔ وہ مشن کیا ہے؟ اللہ جانے یا وہ سربراہ جانیں۔ ملک کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ گھٹنوں پر بیٹھنے کے قریب ہوچکا ہے اور ہم ہیں کہ سیکرٹ مشن چلا رہے ہیں۔ پیرس میں ایک سفارت کار کے گھر کا فرنیچر خریدنے کے لیے بائیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ وزیروں کے ٹی اے ڈی پر ایک کروڑ روپے کی اضافی رقم ادا کی گئی۔ جناب اسحاق ڈار‘ جن پر آئی ایم ایف نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کی اور اس پر پاکستان کو پچاس ملین ڈالر سے زائد جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا، نے حکم دیا ہے کہ اب ہمیں 35 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ خود ڈار صاحب اپنی آمدن پر رعایت لیں گے کیونکہ وہ غریب بچوں پر خرچ کرتے ہیں۔ کشمیری لاہوری بابو نے کیا سمجھ پائی ہے‘ ماشاء اللہ! بالکل ٹیکس دیں گے جناب ۔ اس ملک میں زندہ رہنے کے لیے مخصوص بھتہ دنیا ہوگا، دیں گے۔ پھر سوچتا ہوں‘ اگر میں نے اپنی محنت کے کمائے ہوئے پیسوں پر 35 فیصد ٹیکس عزت مآب اسحاق ڈار کی جھولی میں ڈالنے ہیں تو میں کیوں اتنی محنت کر رہا ہوں ؟ اسحاق ڈار کہتے ہیں: میں اگر اپنے دو بچوں کو اچھے سکول میں پڑھانا چاہتا ہوں تو بھی مجھے ان کی جیب میں کچھ اور نوٹ ٹیکس کے نام پر ڈالنے ہوں گے وگرنہ میرے بچے نہیں پڑھ سکتے۔ یوں ٹیکس بڑھ کر چالیس فیصد ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جی ایس ٹی بڑھا کر میری آمدن پر لگنے والے ٹیکس کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ ایک طویل فہرست ہے جو میں نے پڑھی ہے کہ مجھے کس کس چیز پر ٹیکس دینا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری آمدن کا ستر فیصد ریاست کو ٹیکس دینے پر خرچ ہوگا ۔ میں اس ملک میں زندہ رہنے کے لیے کتنی قیمت ادا کر رہا ہوں۔ اگر ریاست مجھ سے میری آدھی سے زیادہ آمدن لے کر بھی میرے بچوں کے سکول جانے پر ٹیکس لیتی ہے تو پھر یہ ریاست کس کام کے لیے بنی ہے ؟ ایک ٹی وی چینل پر نواز لیگ کے ایک چُوری کھانے والے اجنبی مجنوں سے ملاقات ہوئی‘ وہ بار بار ہر ایک کو ٹوک رہے تھے۔ میں نے شائستگی سے کہا: پندرہ سال سے نواز لیگ کے لیڈروں کو جانتا ہوں، لیکن آپ کو کبھی دیکھا نہیں۔ آپ کیسے نواز لیگ میں وارد ہوئے اور کب نازل ہوئے؟ انہوں نے فخر سے تھوڑا سا سر بلند کیا اور بولے‘ آپ چند دنوں میں دیکھ لیں گے کہ مجھے کیا پوزیشن ملنے والی ہے۔ ان کے لہجے میں اعتماد محسوس کر کے میں مرعوب ہوا کہ شاید نواز شریف صاحب خود اپنی کرسی چھوڑ کر انہیں اس پر بٹھانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ پروگرام کے وقفے کے دوران بولے کہ نواز شریف نے تو ان کا چیئرمین ایف بی آر کے طور پر انتخاب کر لیا تھا اور آرڈرز جاری ہوہی گئے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ میں نے کہا: بھولے بادشاہو، آپ نئے نئے یورپ سے نوکری کر کے لوٹے ہیں، یہ پٹیشن بھی عدالت میں ڈلوائی گئی ہوگی تاکہ آپ جیسوں کو دور رکھا جائے۔ بولے: ہرگز نہیں، آپ دیکھ لیں گے کہ ایک دو دن میں مجھے بہت اہم سرکاری عہدہ ملنے والا ہے۔ یہ میرٹ ہے جس کی بنیاد پر اب تقرریاں ہوں گی؛ چنانچہ اخبارات میں دھڑا دھڑ اشتہارات دیے جارہے ہیں۔ قابل لوگ تلاش کیے جارہے ہیں۔ ایک قابل انسان تو ہماری بغل میں ٹی وی پر بھاشن دے رہا تھا۔ میں نے تعلیم پر ٹیکس کی بات کی تو بولے آپ کے بچے پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہوں گے لہٰذا ٹیکس تو دینا ہوگا ۔ میں نے کہا آپ اپنے باس سے کہیں وہ بھی اپنے بچے سرکاری سکول میں بھیجیں جیسے ٹونی بلیر کے پڑھتے تھے، بات ہی ختم ہوجائے گی۔ آپ اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھاتے ہیں، یہاں سے منی لانڈرنگ کرکے وہاں جائیدادیں بناتے ہیں اور ہمیں اتنی اجازت نہیں ہے کہ پرائیویٹ سکول میں ہی پڑھا سکیں۔ بولے‘ بنکوں کی نج کاری سے معاشرہ سدھر گیا تھا اور معاشی خوشحالی کا دور شروع ہوا تھا۔ میں نے کہا بالکل‘ ہماری سیونگ کی رقومات سے بنک چلائے گئے اور 250 ارب روپے کا قرضہ طاقتور کاروباریوں کا معاف کیا۔ اس لیے کاروباری آپ کو پسند کرتے ہیں۔جواب دیا‘ امریکہ اور یورپ میں بھی قرضے معاف ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا‘ جناب جب ہماری جیبوں پر ڈاکے مارنے ہوں تو یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن امریکہ جیسی سہولتیں دینے کی بات کبھی نہیں کرتے‘ اُس وقت کہتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ حضور! عالمی پالیسیاں اپناتے ہو تو عالمی معیارِ زندگی بھی فراہم کرو۔ میری اور آپ کی محنت کی کمائی سے چند سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے بارہ کروڑ روپے بیرون ملک اپنے علاج پر خرچ کرنے ہیں تو میں پیسے کمانے کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کرتا ہوں اور اس میں سے اپنی نصف سے زیادہ آمدن ٹیکس کے نام پر ان سیاستدانوں کی جیبوں میں ڈالتا ہوں جو خود ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیتے اور الٹا سابق سپیکر قومی اسمبلی جاتے جاتے ان ارکان اسمبلی کے الائونس ڈیڑھ لاکھ روپے سے تین لاکھ روپے کر دیتی ہیں جس سے اس سال ہماری جیبوں سے چالیس کروڑ روپے ان ارکان کی جیبوں میں جائیں گے اور لاہوری ڈار بابو سرکاری ملازمین کو کہتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں