پنجاب کے قصبے نندی پور کے نام پر قوم کو چونا لگانے والی فلم ابھی چل رہی ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والے پاور پلانٹ کا منصوبہ پانچ سال بعد بھی متنازع ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی نے اس کی بربادی کی کہانی لکھی تو اب نواز لیگ کی باری ہے۔ اس پس ماندہ علاقے کے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ ان کے نام پر کیا فراڈ کیا گیا۔ جتنے ارب روپے ان کے علاقے میں لگنے والے پاور پلانٹ سے کمائے جارہے ہیں، اگر اس کا ایک چوتھائی بھی اس علاقے کے باسیوں پر لگ جاتا تو شاید ان کی تقدیر بدل جاتی۔ میں بھی چین میں وزیراعظم کے قافلے کے ساتھ موجود تھا ۔ ایک صاحب ہاپنتے کاپنتے دوڑتے ہوئے میڈیا ٹیم کے پاس آئے اور چِلاّئے‘ جناب مبارک ہو! چینی کمپنی پاکستان میں نندی پور پاور پراجیکٹ دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہوگئی ہے۔ فوراً خبر بریک کریں۔ ایک ہی سانس میں بولے‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ذاتی طور پر ملاقات کر کے چینیوں کو راضی کر لیا ہے۔ یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ سرکاری ٹیم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ؛ مبارکبادوں کا شور مچ گیا۔ فوراً ہر چینل پر ٹکر چل گئے کہ چینی حکام کل ہی پاکستان پہنچ رہے ہیں۔جب کسی نے پوچھا کہ کتنی لاگت زیادہ دینی ہوگی تو کہا گیا آپ کس چکر میں پڑ رہے ہیں شکر کریں چینی تیار ہوگئے ہیں اور آپ ہیں پیسوں کی بات کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے خود ہی سرگوشی سے پندرہ ارب روپے کا قیمتی راز اگل دیا کہ جناب! چینی تو بیاسی ارب روپے مانگ رہے تھے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ نے انہیں ستاون ارب روپے پر راضی کر لیا تھا ۔ میں نے کہا ایسی کون سی قیامت آگئی تھی کہ بائیس ارب روپے کی بجائے بیاسی ارب روپے دیے جارہے تھے۔ اگر چینی نہیں مان رہے تھے تو بہتر ہوتا کہ اس کی جگہ نیا پلانٹ لگا لیا جاتا، بائیس اور بیاسی ارب روپے میں تو بہت زیادہ فرق ہے۔ وہ فخر سے بولے‘ اسی لیے تو ستاون ارب روپے پر راضی کر لیا ہے۔ میں نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہوا آپ نے چینی کمپنی کو اس بجلی کی ادائیگی بھی کر دی ہے جو کبھی ہمیں فراہم نہیں کی گئی۔ کہنے لگے پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں اس منصوبے پر کام روک دیا تھا۔ میں نے کہا پھر بھی تین سالوں میں 35 ارب روپے کا نقصان تو نہیں ہوا ہوگا ۔ اگر ہر سال مہنگائی کی شرح دس فیصد بھی لگائی جائے اور فرض کرتے ہیں پچاس فیصد سے ستر فیصد بھی ہو، تو بھی بھلا بائیس ارب روپے سے ستاون ارب روپے کیسے ہوسکتے ہیں؛ تاہم ہم سب‘ ڈر کے مارے چپ رہے کہ کہیں ہماری وجہ سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا معاملہ بگڑ نہ جائے کیونکہ لوگ اب کرپٹ افسران اور حکمرانوں کو یہ کہہ کر برداشت کرنے کو تیار ہیں کہ جناب انہیں کھانے دیں لیکن کچھ کام کر دیں تو بھی مہربانی ہوگی۔ اس سے بڑا دیوالیہ پن اور کیا ہوگا کہ ہم مال کھانے والے سے درخواست کر رہے ہیں کہ حضور سو روپے میں سے اسی روپے آپ بے شک کھا لیں لیکن بیس روپے کا کام تو کر دیں۔ بلاشبہ یہ کریڈٹ سابق ایم ڈی پیپکو منور بصیر کو جاتا ہے کہ انہوں نے بہادری سے کام لیتے ہوئے بزدل سرکاری افسروں کی طرح گھر بیٹھ کر لوٹ مار ہوتے دیکھنے کی بجائے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا جس میں خوفناک انکشافات کیے کہ کیسے ’’نندی پور کے ندیدے‘‘ اب چینی کمپنی کو ادائیگی کے نام پر پندرہ ارب روپے خود اپنی جیبوں میں بھر رہے ہیں۔ منورصاحب کے بقول انہوں نے یہ منصوبہ خود بنایا تھا اور اس وقت لاگت بائیس ارب روپے تھی۔اب تین سال بعد اس کی لاگت چالیس ارب روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پوری ڈیل میں $124 ملین ڈالرز کے قریب کمشن کھایا جارہا ہے اور کچھ پرائیویٹ پارٹیاں بھی اس میں سے مال کھا رہی ہیں۔ یہ خط سامنے آیا تو اسحاق ڈار نے فوراً ای سی سی کے اجلاس میںوفاقی وزیر احسن اقبال کو حکم دیا کہ اس سکینڈل کی تحقیقات کی جائے۔ اس پر بندہ ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے کہ ڈار صاحب نے ایک ہفتہ قبل خود ہی ای سی سی کے اجلاس میں چینی کمپنی کو بایئس ارب روپے سے ستاون ارب روپے دینے کی منظوری دی تھی اور کمال کی بات ہے کہ یہ منظوری احسن اقبال کی سفارش پر ہی دی گئی تھی۔ اب پتہ نہیں یہ تحقیقات کس کے خلاف ہوں گی کیونکہ منظوری دینے والے ڈار صاحب خود ہیں جب کہ جن احسن اقبال کو انہوں نے تحقیقات کا حکم دیا ہے، انہوں نے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کی حیثیت سے اس ستاون ارب روپے کے نئے منصوبے کو سنٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی میں کلیئر کیا تھا۔ احسن اقبال نے ابھی تحقیقات شروع ہی نہیں کی تھیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے سیکرٹری پلاننگ کو حکم دیا کہ وہ اس کی تین دن کے اندر اندر تحقیقات کریں۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ وزیراعظم نے ڈار صاحب اور احسن اقبال کے فیصلوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سیکرٹری پلاننگ کس کے خلاف تحقیق کریں گے کیونکہ احسن اقبال نے نندی پور پراجیکٹ کو بائیس ارب روپے سے ستاون ارب روپے کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے تو ڈار صاحب نے ستاون ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ تحقیقات کس کے خلاف کون کررہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا ڈار صاحب کے ساتھ وہ کھیل تو نہیں کھیلا گیا جو کبھی پیپلز پارٹی کے چہیتے سپیشل سیکرٹری پٹرولیم اور ایل این جی سکینڈل کے مرکزی کردار جی اے صابری نے وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ بیس ارب ڈالر ایل این جی ڈیل میں کیا تھا جب انہیں اندھیرے میں رکھ کر اپنی مرضی کی پارٹی کو ان کے دستخطوں سے ڈیل کی منظوری کرادی گئی تھی؟ سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں شوکت ترین نے انکشاف کیا تھا کہ جی اے صابری کی وزارت نے ان سے غلط فیصلہ کرایا تھا۔ لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اسحاق ڈار کو بھی اسی طرح اندھیرے میں رکھا گیا ہے جیسے جی اے صابری نے شوکت ترین کو رکھا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منی لانڈرنگ کے الزامات کے باوجود اسحاق ڈار کی اپنی ذات پر کوئی مالی سکینڈل نہیں ہے۔ اس لیے میرے لیے ماننا مشکل ہوگا کہ وہ بائیس ارب روپے سے ستاون ارب روپے کے کھیل میں شریک ہوں گے۔ ڈار صاحب خود اس بندے کو تلاش کر سکتے ہیں کہ کس نے انہیں اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس پورے کھیل میں ان صاحب کا نام بھی آرہا ہے جو لاہور سے اپنا جیٹ طیارہ چین لے کر گئے تھے اور اس خصوصی طیارے میں پنجاب کی حکمران فیملی کے کچھ بچے بھی سفر کر رہے تھے۔ موصوف چین میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نئی حکومت کے اصل گاڈ فادر لگ رہے تھے اور سب کو پیغام دیا جارہا تھا کہ مستقبل میں اب جو پاکستان میں لین دین ہوگا، وہ ان کے ذریعے ہی ہوگا۔ جیٹ طیارے والے صاحب کو جو موقع چین میں کاروباری تعلقات بڑھانے کا ملا، وہ پاکستانی تاجر خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ سنٹرل پنجاب کے قصبے نندی پور کے باسیوں کی قسمت بدلے یا نہ بدلے، لیکن ان کے علاقے کے نام پر بنائے گئے اس پراجیکٹ پر ندیدوں کی طرح آنکھیں جمائے لوگوں کی چاندی ہوگئی ہے جنہوں نے ایک ہی ہلے میں پندرہ ارب روپے کا مال کمانے کا منصوبہ بنایا۔ قوم کو مبارک ہو، چونا لگانے کا کاروبار جاری ہے، صرف دکاندار اور گاہک بدل گئے ہیں!