"RKC" (space) message & send to 7575

اپنی اپنی جنت کی تلاش

ہر دفعہ لگتا ہے اس بار جو ہوا ہے وہ آئندہ نہیں ہوگا اور ہر دفعہ نیا ہوتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے ایک نئی فہرست کے مطابق پنجاب اور سندھ کے17 ایم این ایز اور سینیٹرز کی طرف سے اپنے کروڑوں روپے کے فنڈز فاٹا شفٹ کرنے اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے ڈھائی سوخطرناک قیدیوں کے فرار ہونے کا ایک دوسرے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس سے پہلے ایک فہرست سامنے آئی تھی جس کے مطابق ایک درجن سے زائد ارکان نے اپنے فنڈز اپنے اپنے حلقوں کی بجائے لکی مروت میں کرپٹ ٹھیکیداروں کو بیچے تھے۔ ایک کروڑ پر بیس لاکھ روپے کا فنڈ کھایا گیا تھا۔ خواتین ارکان اسمبلی نے اس دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مخصوص نشستوں پر رکنیت ملنے کا یہ فائدہ ہوا کہ گھر بیٹھے لاکھوں روپے ہر سال کمائے۔ ایک کنٹریکٹر کو ایک کروڑ روپے کا فنڈ دیا گیا اور اس نے گھر بیٹھے بریف کیس میں بیس لاکھ روپے پہنچا دیے۔ اب نئی فہرست ڈھونڈ لایا ہوں۔ باقی تو چھوڑیں چوہدری شجاعت حسین کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے اپنے فنڈز فاٹا شفٹ کیے ہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی کا نام بھی اس بدنام زمانہ فہرست میں شامل ہے جنہوں نے کروڑوں روپے فاٹا بھیجے ہیں۔ وہ اور ناہید خان رونا سندھ کا روتے ہیں اور پیسے فاٹا خرچ کرتے ہیں۔ کیا ان کے پاس اب کوئی اخلاقی جواز ہے کہ وہ آصف زرداری اور ان کے ٹولے پر یہ الزام لگائیں کہ انہوں نے ملک کو لوٹ لیا تھا؟ جب صفدر عباسی کو موقع ملا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو اس حمام میں دوسرے کر رہے تھے۔ کیا اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہمیں اس طرح کی کرپشن برداشت کرنا ہوگی؟ کیا ہمیں سیاستدانوں کے لبادے میں چھپے ان لالچی کرداروں کو برداشت کرنا ہوگا تاکہ جمہوریت چلتی رہے؟ یہ مال کماتے رہیں، ہم ان کی کہانیاں لکھتے رہیں اور آپ پڑھتے رہیں؟ یقین کریں اب ایسے کرداروں سے گھن آنے لگی ہے کہ جن کے نزدیک ایمان‘ انسانیت‘ ضمیر اور خاندانی وقار کچھ بھی نہیں، سب کچھ پیسہ ہے۔ یہ کوئی غریب لوگ نہیں جن کی بیٹی یا بیوی دوائی نہ ہونے سے مر رہی ہے لہٰذا فلمی کہانی کی طرح انہوں نے پیسے پکڑ لیے۔ یہ سب بہت بڑے لوگ ہیں جن کے پاس پہلے سے اربوں روپے موجود ہیں۔ پھر اپنے دوست کالم نگار ہارون الرشید کا فقرہ یاد آتا ہے کہ ’’ارب پتی کو مفلس سے زیادہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ یہ لوگ ہماری قسمتیں بدلنے کے لیے پارلیمنٹ گئے تھے۔ تھر کا صحرا جل رہا تھا اور اس کی ایم این اے روبینہ قائم خانی اپنے فنڈز فاٹا اور لکی مروت کے ٹھیکیداروں کے حوالے کر رہی تھیں۔ حیدر آباد بدل گیا تھا لہٰذا میرے دوست مولا بخش چانڈیو نے پیسے لکی مروت بھجوا دیے۔ سندھ کے سینیٹر عبدالغفار قریشی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ میرے دوست سعید قاضی کے شہر چکوال میں غریب ختم ہوگئے تھے لہٰذا پیپلز پارٹی کی نوجوان پارلیمنٹیرین پلوشہ بہرام اپنے کروڑوں روپے فاٹا بھیج رہی تھیں۔ اس سے پہلے وہ ایک کروڑ روپیہ لکی مروت کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ خرچ کرا چکی تھیں۔ سینیٹر طاہرہ لطیف، گلشن سعید، مسز فرحت، نام پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیں کہ فاٹا کے ٹھیکیداروں کے ذریعے کیا کیا کام کرایا جارہا ہے۔ فاٹا کا اپنا ایک بجٹ ہے، جو اربوں میں ہے، امریکی اس کے علاوہ اس علاقے کے لیے فنڈز دیتے ہیں اور اب سترہ ارکان اسمبلی جو سندھ اور پنجاب سے ہیں، انہوں نے بھی کروڑوں روپے وہیں بھیجے ہیں۔ ان سے ذرا پوچھیں کہ اپنے علاقوں میں کیوں خرچ نہیں کیے تو ایسی ایسی کہانیاں سنائیں گے کہ آپ کی آنکھیں بھر آئیں گی اور الٹا آپ ان سے معذرت کریں گے کہ نیک لوگوں کا دل دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ارکان اسمبلی اس ملک میں ضلعی حکومتوں کا قیام عمل میں نہیں لانے دیتے کہ ان کے کھابے لکی مروت اور فاٹا میں لگے ہوئے ہیں۔ جس ایم این اے کو ہر سال ایک کروڑ روپے فنڈ پر بیس لاکھ روپے گھر بیٹھے مل جائیں، ماہانہ پچاس ہزار روپے تنخواہ، تین لاکھ روپے کے الائونس، ہر سیشن پر ایک ہزار روپے روزانہ ملتا ہو، اسے کیا پڑی ہے کہ وہ ضلعی حکومت کا ڈھول بجائے تاکہ خود بھوکا مرے۔ ڈپٹی کمشنر کو ساتھ ملا کر جو کرپشن کرنے کے مزے ہیں، وہ ایک ضلعی ناظم کے ہوتے ہوئے کہاں ہو سکتے ہیں۔ اس بات پر پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریسی متفق ہے کہ اس ملک میں گراس روٹ لیول پر جمہوریت نہیں آنے دی جائے گی اور یہ دونوں طبقات مل کر ہر ضلع کے وسائل خود لوٹیں گے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہر ناظم کرپٹ تھا۔ ہوگا‘ لیکن کم از کم اپنے ضلع کے فنڈز وہ لکی مروت، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور اب فاٹا کے ٹھیکیداروں کو تو نہیں بیچتا تھا۔ کچھ مال اپنے ضلع میں لگا کر کچھ کما رہا ہوگا لیکن اس کا کیا کریں کہ چکوال ضلع کے دو کروڑ روپے اٹھا کر پلوشہ بہرام نے لکی مروت اور فاٹا کے ٹھیکیداروں کو دے دیے کہ مزے کرو اور ہماری بھی چونچ گیلی کرو۔ دوسری طرف نئی حکومت آتے ہی ’’جیٹ‘‘ چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک بڑے تگڑے وفاقی وزیر کے قصے کہانیاں مشہور ہورہے ہیں کہ کیسے اس جیٹ جہاز کے مالک کی کمپنیوں میں ان کے بھاری شیرز ہیں اور جو اب پانچ سو ارب روپے کی آئی پی پیز کو ادائیگی کی گئی‘ اس سے بھی ان کے شیئرز پر بہت اچھا اثر پڑا ہے۔ دوسرے لاہوری بابو کی کہانی لکھ چکا ہوں کہ وہ شریف انسان ہیں اور صرف دو فیصدکمشن پر قناعت کر جاتے ہیں۔ ان کے سمدھی کے انجم عقیل خان کے ساتھ مل کر چھ ارب روپے سکینڈل میں مرکزی کردار کی کہانی بھی عنقریب یہاں لکھی جائے گی کہ کیسے سابق آئی جی صاحب کو نیشنل پولیس فاونڈیشن سکینڈل میں ایف آئی اے سے صاف بچا لیا گیا ہے‘ وہ سب کچھ بتایا جائے گا۔ ہر جگہ لوٹ سیل لگ چکی ہے۔ آپ ابھی تک حیران ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر چودہ گاڑیوں پر سوار طالبان کیسے اپنے ڈھائی سو ساتھیوں کو چھڑا کر لے جاتے ہیں؟ عوامی نیشنل پارٹی کے دور میں بنوں جیل ٹوٹتی ہے تو تحریک انصاف کے دور میں ڈیرہ جیل ٹوٹتی ہے۔ حساب برابر۔ اب بتائیں خیبر پختون خوا کے لوگ کس کو ووٹ دیں؟ کیا تحریک انصاف سے کوئی جواب مانگے گا کہ کیسے ان کے صوبے میں جیل توڑی گئی اور سب خاموش ہیں ۔ یہ مان لیں کہ پرویز خٹک سے یہ صوبہ نہیں چلنے والا۔ آپ کو نہیں لگتا ہمارے سیاستدانوں اور طالبان میں یہ انڈر اسٹینڈنگ ہو چکی ہے کہ بھائی ہم مال لوٹتے ہیں، آپ جیلیں لوٹیں۔ یہ اور بات ہے دونوں کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ سیاستدان ایک گولی چلائے بغیر پوری ریاست لوٹ لیتے ہیں جب کہ طالبان کو جیل لوٹنے کے لیے خطرات مول لینے پڑتے ہیں۔ اس لوٹ مار میں سیاستدان پھر بھی بازی لے گئے ہیں کہ رند کے رند رہتے ہیں اور جنت بھی سنبھال کر رکھتے ہیں جب کہ طالبان کو ’’جنت‘‘ کے نام پر بے گناہ انسانی خون تک بہانا پڑتا ہے۔ سیاستدان اس لیے مال کماتے ہیں کہ انہیں اس دنیا میں جنت چاہیے جب کہ طالبان اس لیے خون خرابہ کرتے ہیں کہ انہیں بعد از مرگ جنت چاہیے۔ دونوں کی اپنی اپنی جنت اور اپنی اپنی تلاش!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں