"RKC" (space) message & send to 7575

یہ سب دل پشوری ہے !

دنیا ٹی وی کے میرے پسندیدہ اینکر محمد مالک نے ایک پروگرام میں مجھ سے پوچھ لیا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے تجاویز دوں۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا‘ کیسے دوں ؟ جس ملک میں وزیراعظم، صدر، وزراء، سیکرٹری، اپوزیشن لیڈر، چیئرمین نیب پر مقدمات چل رہے ہوں یا سابق سپیکر قومی اسمبلی نے اپنی مل کا ستاسی کروڑ روپے قرضہ معاف کرا لیا ہو، وہاں کیا کہا جائے۔ وہاں بیٹھ کر کیا دانشوری کی جائے؟ 
ایسے ملک میں کیا مشورے دیے جائیں جہاں نیب اکتوبر 1999ء میں اقبال زیڈ احمد کو گرفتار کر لیتی ہے کہ اس نے ایل پی جی کوٹوں میں گڑبڑ سے مال کمایا ہے۔ 29 کروڑ روپے پر ڈیل ہوتی ہے اور اس میں سے وہ بارہ کروڑ روپے ادا کر کے رہا ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلتا ہے کہ نیب کے دو چیئرمین جنرل منیر حفیظ اور جنرل خالد مقبول کے علاوہ اس وقت کے وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر‘ پلی بارگین کے سربراہ بریگیڈیر طارق حمید اور جنرل مشرف کے سیکرٹری محسن حفیظ نے بھی ایل پی جی کے کوٹے لے لیے ہیں اور پھر سب بھول گئے کہ اس ملزم نے نیب کے ابھی کروڑوں روپے واپس کرنے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ سب ایل پی جی کے ہاتھوں خریدے گئے ہیں۔ جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگ جائے تو ڈاکوئوں سے کیا شکایت۔ 
پھر شکایت کس سے کی جائے؟ کیا اسحاق ڈار اور دیگر وزرائے خزانہ سے؟ جنہوں نے 2008ء سے لے کر 2013ء تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی جو قدر کم کی ہے اس کی وجہ سے پاکستان کو اب آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر بیرونی قرضوں پر دو کھرب روپے یا دو ارب ڈالر زیادہ کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ کوئی بتائے گا کہ روپیہ سستا کرنے سے کیا ہم نے دو ارب ڈالر کمالیا ہے جو بیرونی طاقتوں کو زیادہ ادا کریں گے؟ گھر بیٹھے بٹھائے اسی آئی ایم ایف کی شرط مان کر ہم نے روپے کی قدر گرائی اور اس کے بدلے اب دو ارب ڈالر زیادہ ادا کرنے ہوں گے۔
دوسری طرف اسحاق ڈار نے اپنے پہلے چار ماہ میں 280 ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ چھاپ لیے ہیں۔ پرنٹنگ پریس کارپوریشن آف پاکستان کو حکم دیا گیا کہ مشین چالو کر دو۔ اب مشین نوٹ بنا رہی ہے اور ہم مزے کر رہے ہیں ۔ ان دو سو اسی ارب روپے نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ 
کیسا آسان اور بہترین حل ہے۔ ایک طرف دو سو اسی ارب روپے کے نوٹ چھاپ لیے ہیں اور اس میں سے ایک سو ارب روپے سے نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیم شروع کر دی گئی ہے‘ جبکہ ملک کی اکانومی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ فارن ریزرو دو ارب ڈالر کی نچلی سطح پر آن پہنچے ہیں۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ہمارے پاس سات ارب ڈالرز ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ان میں سے پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ تو نجی بنکوں کے پاس اپنے پڑے ہیں تو کیا اب ایک دفعہ پھر لوگوں کے ڈالروں پر حکومت کی نظر ہے؟ 
اور سن لیں، پی آئی اے کی نج کاری کی جارہی ہے لیکن ساتھ ساتھ جہاز بھی کرائے پر لیے جارہے ہیں جن کا لاکھوں ڈالرز کا ماہانہ کرایہ حکومت پاکستان ادا کرے گی۔ اگر طیارے ہم نے لیز پر لینے ہیں تو پھر نج کاری کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ پی آئی اے تو اس لیے خسارے میں چل رہی تھی کہ اس کے پاس اپنے طیارے نہیں تھے۔
یہاں تو ایک دوسرے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ ایک قائمہ کمیٹی ہے جس کے سب ممبران وہ نمائندے ہیں جو خود ٹھیکیدار ہیں۔ وہ کروڑوں روپے سے سینٹ کی سیٹ بلوچستان یا خیبر پختون خوا سے جیت کر آتے ہیں اور سرکاری ٹھیکے لے کر خرچہ پورے کرتے ہیں۔ اب تو یہ کاروبار بن گیا ہے۔ جو انہیں ٹھیکے نہیں دیتا ، اس کی کمیٹی میں ایسی کی تیسی ہوجاتی ہے۔
سب کو علم تھا کہ انجم عقیل خان نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ چھ ارب روپے کا فراڈ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ میں کئی سال کیس چلتا رہا لیکن قومی اسمبلی کے کسی ممبر کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس کے خلاف ایک لفظ بول سکتا کہ اس ممبر کی وجہ سے پورے ہائوس کی بدنامی ہورہی ہے۔ دبنگ چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی چوہدری نثار علی خان کو بھی جرأت نہ ہوسکی کہ وہ سوؤموٹو لے سکتے جیسے وہ پی پی پی کے وزراء کے لیتے تھے۔ اس معاملے میں وہ بھی سمجھدار نکلے۔ اس طرح کی سمجھداری ہم روزانہ طارق ملک کے کیس میںبھی دیکھ رہے ہیں کہ لگتا ہے ملک کا سب سے بڑا دشمن ہی طارق ملک ہے اور اگر اس کا صفایا نہ کیا گیا تو بہت بڑی تباہی آئے گی۔ اسلام آباد میں اس وقت 35 غیرقانونی مدرسے ہیں لیکن ان کے خلاف وزیرداخلہ کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اگر نادرا چیئرمین نہ ہٹا تو تباہی آجائے گی کیونکہ بقول ان کے وہ غیرقانونی تعینات ہوئے تھے۔ 
سوال وہیں موجود ہے کہ کرپشن کیسے ختم ہوگی؟ سینیٹر انور بیگ نے توانا پاکستان میں ہونے والی کرپشن کی تفتیش کی تو سابق وزیر زبیدہ جلال پر کرپشن ثابت ہوگئی ۔ کیس نیب کے پاس گیا تو زبیدہ جلال، جناب زرداری کے پاس چلی گئی کہ ان دنوں صدر کے الیکشن ہونے تھے۔ ایک ووٹ پر ڈیل ہوئی اور نیب کو حکم ملا کہ اسے کچھ نہیں کہنا ۔ کھایا پیا معاف ہوگیا ۔ زبیدہ جلال نے پیسہ دبئی میں لیا تھا جو بعد میں ملائیشیا لے جایا گیا جہاں کاروبار شروع ہوا۔ نیب نے دودھ کی کمپنی کے مالکان کو پکڑ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ثبوت دیتے ہیں کہ سولہ کروڑ روپے کی ادائیگی دبئی میں کی گئی ۔ نیب کے افسر‘ جو ایف آئی اے سے آئے تھے‘ نے کہا‘ نہیں ہمیں سولہ کروڑ روپے کیش میں دو وگرنہ مارے جائو گے۔ سولہ کروڑ روپے میں سے اپنا حصہ لے کر نیب نے باقی خزانے میں جمع کرادیے اور زبیدہ جلال ایک ووٹ دے کر بچ نکلیں۔ 
اب ایک اور سکینڈل سن لیں۔ سابق وفاقی وزیر نج کاری وقار احمد خان‘ جن کے والد سینیٹر گلزار کے گھر بینظیر بھٹو ٹھہرتی تھیں اور جنہوں نے ایل پی جی سے اربوں کمائے، نے ایک بنک کو پانچ سو ملین اٹھا کر دے دیے۔ نجکاری کے آرڈی نینس 2000ء کی رو سے یہ سب کچھ غلط ہورہا تھا۔ موصوف نے بنک کے دوست کو نوازنا تھا ، نواز دیا۔ کس میں جرأت تھی کہ انہیں ہاتھ لگاتا۔ نج کاری کمشن نے ہمت کر کے ایف آئی اے کو اس بنک کے صدر اور انتظامیہ کے خلاف درخواست دی جس پر مقدمہ درج ہوا۔ نج کاری کمشن نے وزارتِ داخلہ سے کہہ کر ان سب کے نام ای سی ایل میں ڈلوائے۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا تو معاملہ نیب کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سے بھی کام نہ بنا تو اب پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی گئی کہ جناب وقار احمد خان اور دیگر سے پانچ سو ملین روپے واپس لے کر دیے جائیں۔ ابھی تک ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکا۔ یہ رپورٹ منگل کے روز سینٹ میں پیش ہوئی ہے کہ کیسے سینیٹر وقار احمد خان کی وجہ سے اس ملک کا پانچ سو ملین روپے کا نقصان ہوا۔ کسی سینیٹر میں ہمت نہیں کہ وہ وقار احمد خان کے خلاف impeachement کی تحریک لائے یا تحریک استحقاق لائے اور کہے کہ ان کی وجہ سے پورے ہائوس کی بدنامی ہوئی‘ لہٰذا برطانوی پارلیمنٹ کی طرز پر انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے ساتھ ہائوس میں بیٹھیں اور لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کریں؟ سیاست اب کرپشن کا کاروبار بن کر رہ گئی ہے جس میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب مل گئے ہیں اور سب مل کر اس ملک کو کھا رہے ہیں ! 
اگر کسی سینیٹر میں سینیٹر وقار احمد خان کے خلاف تحریک لانے کی جرأت ہے تو پھر ملک سے کرپشن ختم ہوسکتی ہے، وگرنہ یہ سب دل پشوری ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں