چوہدری نثار علی خان نے 2001-2002ء میں نواز شریف سے مشرف دور میں سخت ناراضگی کے بعد بینظیر بھٹو کی پارٹی جوائن کرنے کا عندیہ دے کر شہباز شریف کو ڈرایا تھا جب کہ اب چوہدری صاحب نے شریف فیملی کو عمران خان سے ڈرایا ہے۔ فرق یہ پڑا ہے جب پہلی ناراضگی ہوئی تھی اس وقت چوہدری نثار کو لندن سے جدہ جانا پڑا تھا اور سرور پیلس کے دربار میں وہ پیش ہوئے اور طویل شکایات کے بعد نواز شریف سے گلے ملے تھے۔
کہانی پرانی ہے۔ کردار بھی وہی پرانے ہیں۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان۔ تاہم اس دفعہ سکرپٹ مختلف ہے۔ اب کی بار سفر ذرا مختصر رہا ۔ راولپنڈی کے ایئرپورٹ سے خصوصی جہاز میں شہباز شریف اپنے دوست نثار علی خان کو لاہور لے گئے جس کا سارا خرچہ عوام کی جیب سے ادا ہوتا ہے۔ ہوگا کیا! پھر نواز شریف سے ملاقات ، وہی شکوے شکایات اور پھر وہی صلح۔
چوہدری صاحب کی پہلی ناراضگی کی کہانی دلچسپ ہے۔ یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب نواز شریف کو غیر متوقع طور پر جنرل جہانگیر کرامت نے مستعفی ہونے کی پیشکشں کی۔ تب سوال پیدا ہوا کہ نیا آرمی چیف کون ہو۔چوہدری نثار کے والد اور بھائی فوج میں رہے ہیں‘ لہٰذا مستند تھا ان کا فرمایا ہوا۔ جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد بھی نیا آرمی جنرل ڈھونڈنے کی ذمہ دار چوہدری نثار علی خان نے لی تھی کیونکہ ان کے اپنے بھائی جنرل افتخار علی خان بھی اس وقت فوج میں تھے ۔ تاہم صدر غلام اسحاق خان نے چوہدری نثار کے جنرل کا نام قبول نہ کیا اور اپنی مرضی کا جنرل وحید کاکڑ نامزد کر دیا جس سے نواز شریف اور اسحاق خان میں پہلی دفعہ شدید پھڈا ہوا اور جس کا انجام سب کو معلوم ہے۔
1998ء میں نئے آرمی چیف کی پھر ضرورت پڑی تو چوہدری نثار نے ہی ذمہ لیا کہ وہ ایک وفادار ڈھونڈ کر لائیں گے۔ اگرچہ جنرل علی قلی سینئر تھے لیکن سیکرٹری دفاع جنرل افتخار علی خان ناراض تھے کہ علی قلی کو جنرل کرامت نے چیف آف جنرل اسٹاف لگا دیا تھا جب کہ افتخار علی خان اس پوسٹ پر نواز شریف سے اپنی توسیع لینا چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ ایک برس بعد اگلے آرمی چیف بن جائیں۔ تاہم انہیں ریٹائر ہو کر سیکرٹری دفاع لگنا پڑا تھا۔ جب نئے آرمی چیف کے لیے نام آئے تو چوہدری نثار اور افتخار نے جنرل علی قلی خان کو یہ کہہ کر نواز شریف سے دور کر دیا کہ ان کی بہن گوہر ایوب کی بیگم ہیں اور یہ سیاسی جنرل ان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا تھا ۔ اگرچہ علی قلی جانتے تھے کہ ان کے باپ جنرل حبیب کوصدر ایوب نے آرمی چیف نہیں لگایا تھا تو ان کا بیٹا اسے کیسے آرمی چیف لگنے دے گا ۔ یوں چوہدری نثار نے نواز شریف سے جنرل مشرف کی خفیہ ملاقات کرائی اور اپنے تئیں ایک سادہ لوح فوجی آرمی چیف بنا دیا گیا۔
نواز شریف اور چوہدری نثار میں ناراضگی اس دن شروع ہوئی جس دن بغاوت ہوئی۔ کلثوم نواز نے نواز شریف کو اٹک قلعے میں بتایا کہ وہ سب تو وہاں قید ہیں جب کہ چوہدری نثار نہ صرف اپنے گھر پر قید ہیں بلکہ ان کے چکری آنے جانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں سے نواز شریف کے دل میں گرہ پڑنی شروع ہوئی کہ انہیں مروانے والے چوہدری نثار تھے اور یہ گرہ آج تک نہیں کھل سکی اور نہ ہی کھلے گی۔ اس گرہ میںزیادہ گانٹھیں اس وقت پڑیں جب نواز شریف جدہ چلے گئے اور بعد میں چوہدری نثار گھریلو قید سے رہا ہوئے۔ نثار نے رہائی کے بعد سب لیڈروں کا نام لے کر پریس میں شکریہ ادا کیا لیکن نواز شریف کا نام تک نہ لیا ۔ اس بات پر نواز شریف مزید خفا ہوئے۔
اس دوران چوہدری نثار کو محسوس ہوا کہ ان پر نواز لیگ کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں ۔ انہوں نے مشترکہ خاندانی دوست کے ذریعے بینظیر بھٹو سے رابطہ کیا۔ خبر لیک کرائی گئی ۔ شہباز شریف کو پتہ چلا تو انہوں نے منت کر کے نثار کو راضی کر لیا کہ وہ بینظیر بھٹو سے ملنے سے پہلے ایک دفعہ جدہ میں نوازشریف سے مل لیں۔ جدہ میں نواز شریف کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے نثار سے گلہ کیا کہ انہوں نے رہائی کے بعد ان کا شکریہ تک ادا نہ کیا۔ نثار نے جواب دیا‘ کیونکہ آپ نے مجھے فون کر کے مبارکباد نہیں دی تھی۔ بات یہیں ختم ہو گئی۔
اسمبلی میں جاوید ہاشمی کی جگہ چوہدری نثار کو اپوزیشن لیڈر بنایا گیا تو نواز شریف کے قریبی حلقوں نے کہا تھا کہ انہیں اس لیے اپوزیشن لیڈر بنایا گیا ہے کہ وہ نواز لیگ میں مقبول نہیں ہیں اور میاں صاحب کی عدم موجودگی میں بغاوت نہیں کراسکے کیونکہ تکبر کی وجہ سے کوئی ان کو پسند نہیں کرتا‘ جب کہ جاوید ہاشمی پارٹی میں مقبول تھے‘ اس لیے اپوزیشن لیڈر نہ بنائے گئے۔
جب پچھلے سال حکومت بنی تو ہم کچھ صحافی جو چوہدری نثار کے مزاج کو جانتے تھے حیران تھے کہ وہ وزیرداخلہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم ہائوس میں طالبان مذاکرات کے لیے ہونے والے اجلاس میں ایک صوفے پر دس وزراء کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں جب کہ عرفان صدیقی نواز شریف کے برابر ایک کرسی پر یوں بیٹھے جیسے دونوں اس اجلاس کی صدارت کررہے ہوں۔
مجھے تبھی محسوس ہو گیا تھا کہ نواز شریف ابھی نثار سے خوش نہیں ہیں ۔ نثار کو ان کے سائز میں رکھنے کے لیے طالبان کمیٹی سے اندر باہر کیا جارہا تھا ۔ میں خود حیران تھا کہ نثار کب تک یہ سلوک برداشت کریں گے کیونکہ ان کی لغت میں مل کر کام کرنے یا بانٹ کر کھانے کی عادت ہی نہیں ہے۔ وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں اور کسی کو اپنے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے۔ تاہم یہ نواز شریف کا مزاج نہیں ہے کہ وہ کسی کو اتنی کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ آپے سے باہر ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اہم وزارتیں اب تک اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔
دھیرے دھیرے نواز شریف کے قریبی ساتھیوں اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور چوہدری آصف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ ان دنوں یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ شاید ان وزراء کی نگرانی کرائی جارہی تھی کہ وہ کیا کیا کام کررہے ہیں ۔ دوسری طرف یہ الزام بھی سامنے آیا کہ وزیرداخلہ کو کشمیری وزراء اوروزیراعظم ہائوس میںبیٹھے کشمیری ڈی ایم جی افسران کام نہیں کرنے دے رہے تھے۔ چوہدری نثار نے اسی لیے تو نادرا کے چیئرمین طارق ملک کے خلاف ایف آئی اے استعمال نہیں کی تھی کہ شریف فیملی کے ایک وفادار ملازم کا بیٹا اس پوسٹ پر بیٹھے گا ۔ یہ ناراضگی کی ایک اور وجہ بنی۔ چودھری نثار کے سامنے اب دو آپشن تھے۔ وہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں اور اپنے آپ کو تسلی دیتے رہیں کہ ان کے نام سے پہلے یا بعد میں ڈار، خواجہ یا بٹ نہیں لگتا لہٰذا ان کی نواز شریف کی کچن کیبنٹ میں جگہ نہیں بنتی‘ یا ماضی کی طرح کا دھچکا شہباز شریف کو دیں اور نواز شریف سے اپنی کچھ شرائط منوا لیں۔ یوں سمجھداری سے چوہدری نثار نے قومی اسمبلی اور میڈیا میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے طالبان پر اسٹینڈ کی تعریف شروع کر دی ۔ سمجھدار لوگوں کے کان کھڑے ہوئے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ جاوید ہاشمی بھی چونک گئے ہوں گے‘ لہٰذا انہوں نے جواباً نواز شریف کو اپنا لیڈر کہنا شروع کردیا تاکہ عمران خان نثار سے زیادہ محبت نہ دکھائیں۔ تاہم چودھری نثار کو پتہ تھا کہ انہوں نے عمران خان اور ان کی پارٹی کا محض ڈراوا دینا ہے‘ وہ سادہ لوح جاوید ہاشمی نہیں تھے کہ اس وقت اقتدار کی کشتی سے اترکر پانی میں ڈوب جاتے جب کشتی اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی ۔ اس لیے نثار نے بڑی سمجھداری سے عمران خان کا کارڈ کھیلا۔
چنانچہ وزارت داخلہ کے دفتر سے بیس دن دور رہنے کے بعد وہی کچھ ہوا جو نثار چاہتے تھے۔ شہباز شریف خصوصی جہاز لے کر پنڈی پہنچے اور جب میں اس وقت امریکہ میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ یہ خبر چل رہی ہے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی ملاقات لاہور میں شروع ہوگئی ہے۔ شہباز شریف اور مستقبل کے وزیراعلیٰ حمزہ شریف بھی شامل ہیں۔ مجھے چودھری نثار کا نواز شریف کو بینظیر بھٹو کا ڈراوا دے کر ان سے جدہ جا کر صلح کرنے کے لیے کیا گیا بارہ برس پرانا سفر اور ملاقات یاد آرہے ہیں۔
اب کی دفعہ دھمکی عمران خان کی کام آرہی ہے۔
ان بارہ برسوں میں کیا بدلا ہے؟ وہی سب پرانے کردار، وہی گلے شکوے، وہی لین دین۔ پٹواریوں، تھانے داروں، اہم عہدوں پر تعیناتیوں کا حق، مرضی کے افسران، اختیارات۔ آخر مجروح انا کا مساج ہوگا اور پھر صلح! اس قوم کی قسمت دیکھیں۔ ایک جنگ فوج طالبان سے ملک کی بقا کے لیے لڑرہی ہے اور دوسری جنگ اسی ملک کے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے درمیان چل رہی ہے۔
لگتا ہے تخت لاہور کے دربار میں شہباز شریف کی انتھک کوششوں سے کرائی گئی اس تاریخی صلح کے ساتھ ہی حقیقی جمہوریت اور امن لوٹ آئے گا جیسے اس طرح کا معجزہ بارہ برس قبل اس سے ملتے جلتے ماحول میں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی سرور پیلس میں ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا تھا!