"RKC" (space) message & send to 7575

ہم کیسا ملازم چاہتے ہیں!

میں نے مذاق میں ایک ٹویٹ کیا کہ بہتر ہوگا پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریروں کو براہ راست نشر نہ کیا جائے کیونکہ مجھے لگتا تھا اس عاشقی میں رہی سہی عزت سادات بھی نہیں رہے گی۔
ہم صحافی تو برسوں سے سیاستدانوں کی اس ''اعلیٰ معیار‘‘کی گفتگو کے عادی ہوچکے ہیں جس کا مظاہرہ پہلی دفعہ عوام نے براہ راست دیکھا۔ ذرا غور فرمائیں ہمارے ان تنخواہ دار ملازم سیاستدانوں کا استحقاق کن باتوں پر مجروح ہوتا ہے۔ لیہ سے ایم این اے ثقلین بخاری تو اس بات پر بھی پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق داخل کرتے ہیں اور سوئی گیس کے افسران کو گالیاں دیتے ہیں کہ کیوں مجھ سے پوچھے بغیر ایک گائوں کے دو غریب لڑکوں کو دو سو روپے روزانہ پر ملازم رکھ لیا گیا ۔ 
یہ ہے وہ پارلیمنٹ اور اس کے محافظ جن کی گفتگو لوگوں نے براہ راست سنی اور حیرانی سے انگلیاں منہ میں دبائے سنتے رہے کہ پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اور جنہوں نے یہ مسائل حل کرنے ہیں ان کا کیا معیار ہے۔ 
ویسے یہ لیڈر اپنی تقریروں میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہ ہماری جو خدمت کرتے ہیں اسی کی تنخواہ لیتے ہیں... تو کیا وہ اپنے گھر، دفتر یا کاروبار میں تنخواہ پر اتنے نالائق اور کرپٹ ملازم رکھیں گے جتنا ان کے اپنے بارے میں تاثر بن چکا ہے... کیا کوئی ایم این اے یا وزیر یہ اجازت اپنے تنخواہ دار ملازم کو دے گا کہ وہ اس کے گھر دن کے بارہ بجے آئے، دو تین گھنٹے ادھر ادھر کی گپ شپ مارنے کے بعد الائونس کے بارے میں پتہ کرے، جھوٹے میڈیکل بلز بنائے، گھر کے سودے میں کمیشن کھائے اور پھر اپنے گھر لوٹ جائے۔ اس کے بارے میں ایم این اے کو پتہ ہو کہ وہ نااہل ہے اور کرپٹ ہے، تو کیا وہ اسے پھر بھی گھر کا ملازم رکھے گا اور اسے تنخواہ دیتا رہے گا؟ 
جب یہ ایم این ایز اور وزیر خود اپنے کاروبار کے لیے قابل ترین اور ایماندار بندہ ڈھونڈتے ہیں توپھر وہ خود جس کام کی عوام سے تنخواہ لیتے ہیں وہ ایمانداری سے پورا کیوں نہیں کرتے۔ جب وہ اپنے ملازم کا کوئی بہانہ نہیں سنتے... سردی ہو، گرمی ہو یا بارش، اسے گھر آکر کام کرنا ہے تو پھر یہ سب کچھ وہ اپنے اوپر کیوں لاگو نہیں کرتے؟ 
مزے کی بات ہے کہ یہ اپنے گھر کے ملازم کو تو تھپڑ بھی مارتے ہیں اور بعض کو جانتا ہوں جو جوتے بھی مارتے ہیں اور کتے بھی چھوڑتے ہیں لیکن کوئی ان پر سوال اٹھائے کہ آپ خود وہ کام کیوں ایمانداری سے نہیں کررہے جس کی تنخواہ لیتے ہیں تو وہ آپ پر برس پڑیں گے اور آپ کو جمہوریت دشمن کہیں گے۔ یہ جواز دیا جاتا ہے کہ جمہوریت راتوں رات تھوڑا آجاتی ہے‘ صدیاں لگتی ہیں ۔ اگر یہ سیاستدان شک کا فائدہ لیتے ہیں تو پھر اس شک کا فائدہ اپنے گھر‘ دفتر یا کارخانے میں تنخواہ دار ملازم کو کیوں نہیںدیتے۔ انہیں تو گستاخی پر اپنے کارخانے کی جلتی بھٹیوں میں ڈلوا دیا جاتا ہے یا پھرکھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے صرف اس بات پر کہ اس نے گھر کا برتن توڑ دیا۔ 
اس قوم کی بدقسمتی ہے جو بھی جس کام کی تنخواہ لیتا ہے وہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں ۔ نیب سے لے کر ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن تک اب حکمرانوں کے گھر کی باندیاں بن گئی ہیں۔ جونیئر افسران کو بڑی پوسٹس دے کر انہیں غلام بنا لیا گیا ہے اور وہ زکوٹا جن کی طرح کوئی بھی کام کرنے اور کسی کو بھی کھانے کو تیار ہیں۔ کیا آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کی پروفیشنل زندگی ختم ہوگئی کہ اس نے تحریری احکامات کے بغیر کوئی ایکشن لینے سے انکار کر دیا۔ کیا ہوا؟ چیمہ کی عزت میں اضافہ ہی ہوا... اس ملک میں اب یہ نیا رجحان دھیرے دھیرے ابھر رہا ہے کہ اب افسران حکمرانوں سے زبانی کی بجائے تحریری احکامات مانگتے ہیں۔ ہمارے بادشاہ سلامت انہیں معطل کر دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سب فیصلہ کرلیں کہ وہ اب تحریری احکامات کے بغیر کوئی حکم نہیں مانیں گے تو وہ کتنے افسران کو معطل کر سکتے ہیں؟ 
مغربی جمہوریت کو ایسے ہی افسران نے مضبوط کیا جنہوں نے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہر بات کا فیصلہ قانون پر ہوگا چاہے کچھ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس وزیراعظم ٹونی بلیئر سے جا کر ایک سکینڈل کی تین دفعہ تفتیش کرتی ہے اور کوئی چوں نہیں کرتا ۔ جب کہ ہمارے ہاں نوازشریف صاحب سے آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ایف آئی اے بیان لینے کی جرأت تک نہیں کر سکتی۔ 
باقی چھوڑیں امریکی ریاست ورجینیا کے سابق گورنر کو جمعہ کے روز جو سزا سنائی گئی ہے‘ وہ ان لوگوں کے منہ پر ایک تھپڑ ہے جو پاکستان میں کرپشن پر یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جمہوریت میں کرپشن ہوتی رہتی ہے۔ مان لیتے ہیں جمہوریت میں کرپشن ہوتی ہے لیکن پھر ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اگر وہ کرپشن سامنے آجائے تو پھر تفتیشی افسران اور عدالتیں انہیں سزائیں دینے میں دیر نہیں لگاتیں اور ان کے سیاسی مستقبل اسی وقت تباہ ہوجاتے ہیں۔ 
ورجینیا کے گورنر پر الزام لگا کہ اس نے اور اس کی بیوی نے لاکھوں ڈالرز کے تحائف مختلف پارٹیوں سے لیے تھے... اور اس کے بدلے میں وہ گورنر صاحب پارٹیوں کو تحائف دیتے رہے۔ جو حشر وہاں تفتیشی اداروں نے اس کا کیا ہے‘ اسے اٹھا کر پڑھ لیں اور پھر مجھے بتائیں کہ کیا جمہوریت میں کرپشن ہونا عام سی بات ہے؟ نہیں جناب ان ملکوں میں کرپشن اس وقت تک عام سی بات ہے جب تک کوئی سکینڈل سامنے نہیں آتا ۔ ہاں آپ مغربی جمہوریت پر سوالات اس وقت اٹھائیں جب ورجینیا کے گورنر پر سکینڈل سامنے آئے اور اسے ضمانت مل جائے اور کچھ دنوں بعد وکٹری کا نشان بناتے ہوئے اپنے عوام کا منہ چڑاتا نکل جائے۔ 
ورجینیا کے گورنر کو جب عدالت میں مجرم ثابت کیا گیا تو اس کا سر میز پر جا لگا اور اس کے نوجوان بچے جو عدالت میں موجود تھے ان کے منہ سے سسکیاں نکلیں‘ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ماں باپ کرپٹ تھے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے۔جو بھی کرپشن کا کنگ نکلتا ہے اس کے حق میں اخباری کالم، ٹاک شوز سے لے کر کرائے کے ورکرز عدالت کے باہر جمع کر کے نعرے اور پھر وکٹری کے نشانات بناتے نکل جاتے ہیں۔ 
ٹی وی چینلز نے کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو ٹی وی پر بٹھا کر انہیں مزید معزز بنادیا ہے۔ یوں ان معززین سے سب تفتیشی ایجنسیاں بھی ڈرتی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ صحافی ان سیاستدانوں کے دوست ہیں۔ کیا امین فہیم کو ہمیں ٹی وی پر بلانا چاہیے کہ وہ ہمیں سیاست اور جمہوریت پر لیکچر دیں؟ ان کے اسٹاف افسر فرحان جونیجو کے دوبئی کے بینک میں پانچ لاکھ ڈالرز نکلے ہیں اور ایف آئی اے نے اسے آرام سے ملک سے نکلنے دیا۔ وہی فرحان جونیجو ہمیں لُوٹ کر آج کل لندن میںنئی جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ بھلا کسی کی مدد کے بغیر یہ مال کیسے لوٹا جا سکتا ہے۔ 
اس ملک کے زوال کی وجہ یہ بھی ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کو ہمارے میڈیا نے جیل کی بجائے ٹی وی سکرینوں پر بٹھا رکھا ہے۔ وہ لوٹتے رہتے ہیں، میڈیا پر ہیرو بنتے رہتے ہیں، میرے جیسے صحافیوں کو آموں کے ٹوکرے بھیجتے رہتے ہیں اور یوں پورا معاشرہ کرپشن کے خلاف کوئی ردعمل نہیں دیتا اور اگر کوئی بات کرے تو اسے جمہوریت دشمن کہا جاتا ہے۔ بھلے لوگو‘ جمہوریت اس لیے دنیا میں کامیاب ہوئی ہے کہ اصلی جمہوری ممالک میں جس کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کرپٹ ہے، اسے نہ صرف بے عزت ہونا پڑتا ہے بلکہ جیل بھی جانا پڑتا ہے اور اس سے کوئی ٹی وی چینل اپنے اسٹوڈیو میں بٹھا کر جمہوریت پر لیکچر نہیں دلواتا۔ 
کسی دن سیاستدان اکیلے بیٹھ کر یہ ضرور سوچیں کہ وہ جس طرح کا اچھا، نیک، ایماندار، ذمہ دار، محنتی اور وفادار ملازم اپنے گھر اور کاروبار کے لیے چاہتے ہیں کیونکہ وہ اسے تنخواہ دیتے ہیں، ہم عوام بھی اسی طرح کے سیاستدان چاہتے ہیں جن میں یہ سب خوبیاں ہوں۔ 
اسے عوام اور میڈیا کی جمہوریت دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت دوستی سمجھا جانا چاہیے۔ جس طرح کا ثبوت ورجینیا کے کرپٹ گورنر اور اس کی بیوی کو سزا دے کر امریکی عوام اور اداروں نے دیا ہے اور سب سے بڑھ کر گورنر اور اس کی بیوی کو وکٹری نشان بنا کر امریکی قوم کا منہ چڑانے کی جرأت بھی نہیں دی...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں