"RKC" (space) message & send to 7575

ماسٹر اسلم پرویز بنام صوبائی محتسب

ایک نامعلوم نمبر سے فون تھا ۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر اسے اٹینڈ کر لیا ۔ ابھی تک پچھتا رہا ہوں کیوں سن لیا ۔ بہتر ہوتا گھنٹی بجتی رہتی اور خود بخود بند ہوجاتی۔ تین دن گزر گئے ہیں‘ میں ابھی تک اس فون کال کے اثر میں ہوں اور کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ 
سردیاں ویسے بھی مجھے سست اور اداس کردیتی ہیں ۔ جی چاہتا ہے سارا دن دھوپ میں آنکھیں بند کر کے لیٹا رہوں۔ کوئی اداس میوزک سنوں، کوئی روسی یا فرانسیسی کلاسک ناول یا کہانی پڑھوں، کچھ نہ ملے تو سب رنگ کے پرانے شماروں میں پناہ ڈھونڈ لیتا ہوں‘ یا شام کے سائے گہرے ہونے لگیں تو اندر کمرے میںجا کر رضائی لے کر لیٹ جائوں‘ کائو بوائے کی کوئی فلم دیکھوں‘ پھر سو جائوں... اور کچھ نہ کروں۔ اب اس حالت میں یہ فون کال مزید اداس کر گئی اور اداسی ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہی۔ 
فون اٹینڈ کیا تو دوسری طرف سے میرا نام پوچھا گیا ۔ جونہی کنفرم کیا تو وہ مردانہ آواز رونے لگی ۔ میں تھوڑا سا چڑچڑا ہو کر بولا یا رو لیں یا پھر بات کر لیں۔ تھوڑا سا وقفہ آیا ۔ اپنے اوپر قابو پا کر بولے ''میرا نام ماسٹر اسلم ہے اور میں تباہ ہوگیا ہوں‘‘۔ میں جبر کر کے چپ رہا؛ تاہم جب ان کی پوری بات سن لی تو مجھے شدید افسوس ہوا کہ میں نے کیوں چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا‘ سو‘ ان سے بار بار سوری کیا ۔ 
ماسٹر صاحب بولے ''میں لیہ سے بات کررہا ہوں ۔ ابھی ابھی اپنی جوان بیٹی جو بی اے میں پڑھتی تھی کو دفن کر کے اس کے قل کیے ہیں‘‘۔ میں ابھی بھی پوری بات نہیں سمجھ سکا تھا ۔ ماسٹر اسلم نے پوری بات سنانا شروع کی ۔
چند دن پہلے ان کی بیٹی زرمینہ خان‘ جس کی عمر اکیس برس تھی‘ 
کو سر درد ہوا تو اس نے درد کی گولیاں سمجھ کر گھر میں پڑی گولیاں کھا لیں۔ بعد میںپتہ چلا کہ وہ گولیاں سر درد کی نہیں تھیں بلکہ بلڈ پریشر کی تھیں جو اس کی ماں استعمال کرتی تھی ۔ ان گولیوں سے اس کی طبیعت بگڑنا شروع ہوگئی۔ باپ کے سامنے اس کی حالت غیر ہونے لگی تو وہ بھاگ کر اسے ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لے گیا۔ باپ اپنی بیٹی کی خراب ہوتی حالت دیکھ کر مزید گھبرا گیا اور دوڑ کر اسے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے حسب عادت کوئی توجہ نہ دی۔ جب باپ نے بار بار اصرار کیا تو ڈاکٹر نے ایک زیرتربیت ڈسپنسر کو کہا کہ اسے چیک کر لو۔ ماسٹر اسلم نے پھر کہا کہ بچی کی طبیعت خراب ہورہی ہے‘ اس پر توجہ دیں۔ ڈاکٹر نے جھاڑ دیا ۔ یوں وہ جس بیٹی کو چلتے پھرتے اپنے قدموں پر ہسپتال لے گیا تھا‘ وہ تھوڑی دیر بعد ہسپتال سے اس کی لاش گھر لے گیا۔ 
اب میں ماسٹر اسلم کی سسکیاں سن سکتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ اس وقت کس حالت سے گزر رہا تھا۔ مجھے اس کے دکھ کا اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کے سر سے کیا قیامت گزر گئی ہے۔ مجھے خود علم تھا کہ کیسے ہم اپنے بھائی نعیم کو چلتے پھرتے اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال لے کر گئے تھے اور وہاں سے ان کی لاش گائوں اٹھا کے لائے۔ میں پولی کلینک میں چپ چاپ دیکھتا رہا تھا کہ کیسے ان کے دل کو ہاتھوں سے دوبارہ جاری کرنے کی کوشش کی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایک غبارہ منہ میں ڈال کر سانس دینے کی کوشش کی گئی۔ اگر اسلام آباد جیسے جدید شہر میں بھی پولی کلینک ہسپتال 
میں جدید آلات یا بجلی کے جھٹکے دینے کا بندوبست نہیں تھا جو دل کو دوبارہ جاری کر سکتے تو پھر لیہ ہسپتال میں ایک لڑکی کے مرنے میں کون سی عجیب بات تھی۔ آج تک دکھ ہوتا ہے کہ اگر بجلی کے جھٹکے لگتے تو شاید نعیم بھائی کا دل دوبارہ چل پڑتا۔ امریکہ جا کر یہ تکلیف مزید بڑھ گئی تھی جب ایک ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ انہوں نے تو کئی گھنٹوں سے رکے دل کو دوبارہ بحال کر لیا تھا ۔
ماسٹر اسلم کی سسکیاں بڑھ گئی تھیں اور میںایک باپ کا غم بھول کر اپنے غم میں ڈوب گیا تھا کہ انسان کی بے بسی کیسے اس کے سامنے اس کے پیاروں کو چھین کر لے جاتی ہے اور آپ ادھر ادھر دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ شاید معجزہ ہوجائے۔ ماسٹر اسلم کی آواز مجھے دوبارہ واپس لائی۔ وہ روتے ہوئے بولے ''مجھے انصاف چاہیے۔ میری بیٹی کو قتل کیا گیا ہے۔ کیا ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں‘ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر ہسپتال بنانے کا کیا فائدہ؟ اگر ڈاکٹروں نے مریض کو کوشش کیے بغیر مرنے دینا ہے۔ کیا یہ انسانیت ہے کہ ڈاکٹر ایک ڈسپنسر کو کہے کہ وہ جا کر اس بچی کا معائنہ کرے اور خود کمرے میں بیٹھ کر موبائل فون پر کھیلتا رہے‘‘۔ 
ماسٹر اسلم روتا رہا اور میں نادم... ایک بیٹی کو کھونے کا دکھ اور اوپر سے اس قدر بے بسی کہ جو اسے بچا سکتے تھے انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی تکلیف گوارہ نہیں کہ اٹھ کر اس بچی کو بچانے کی کوشش کرتے۔ اگر ڈاکٹر کوشش کرتا تو بھی ممکن تھا کہ وہ بچی نہ بچتی‘ لیکن کم از کم ماسٹر اسلم کو یہ احساس تو ہوتا کہ اس کی بچی کی جان بچانے کے لیے کوشش کی گئی۔ مجھے خود علم ہے کہ میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور میں بہت کچھ ان کی مرضی کے مطابق نہیں کرا سکتا۔ لیکن پھر میں انہیں زیادہ توجہ دیتا ہوں کہ کم از کم کام نہ ہونے کا دکھ کم ہو۔ 
میں خود سوچ رہا ہوں کہ کیسے سنگدل لوگ اس پروفیشن میں داخل ہوچکے ہیں۔ میرے اپنے خاندان میں بھی تین ڈاکٹر ہیں۔ میں سنگدل کا لفظ اس لیے استعمال کررہا ہوں کیونکہ میں امریکہ میں دیکھ کر آیا ہوں‘ وہاں مریض پر کیسے توجہ دی جاتی ہے۔ جتنا نرسنگ کا اعلیٰ معیار میں نے وہاں دیکھا ہے‘ شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہو۔ 
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچی مر رہی ہو اور ڈاکٹر سے ایک باپ التجا کر رہا ہو اور وہ پھر بھی ٹس سے مس نہ ہو؟ اگر اس ڈاکٹر کی اپنی بیٹی یا بہن اس حالت میں لائی جاتی تو کیا ممکن تھا‘ وہ اس طرح کے بیزار رویے کا اظہار کرتا جیسے اس نے ماسٹر اسلم پرویز کی بیٹی کے ساتھ روا رکھا؟ اس لمحے جب کوئی باپ ایک امید لے کر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اسے اس انداز میں دھتکار دیا جاناچاہیے جیسے لیہ ہسپتال کے اس ڈاکٹر نے دھتکار دیا تھا؟ 
مان لیتے ہیں کہ بعض مریضوں کے لواحقین بھی زیادتی کرتے ہوں گے‘ لیکن میرا سوال وہیں ہے کہ لواحقین کو یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں توجہ نہیں مل رہی؟ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کے مریضوں کی ہسپتال میں موت ہوئی لیکن وہ تمام اسٹاف کا شکریہ ادا کر کے گئے کہ ان سب نے بہت کوشش کی تھی لیکن اللہ کو منظور نہ تھا۔ 
ماسٹر اسلم کا اپنی بیٹی کے مرنے کا دکھ اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ جب بیٹی مررہی تھی‘ وہ مسلسل ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کی منتیں کرتا رہا لیکن اس نے کوئی بات نہیں سنی۔ شاید وہ بچ جاتی! 
کیا ایسے لوگوں کو اس پروفیشن میں رہنے کا حق ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو ماسٹر اسلم نے مجھ سے کیا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر کارروائی ہوئی تو سب ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جائیں گے؟ کیا کوئی ڈاکٹر اپنے دل سے نہیں پوچھے گا کہ اگر ماسٹر اسلم کی جگہ ان کی اپنی بیٹی ہو تو وہ یہی رویہ رکھیں گے جو لیہ ہسپتال کے ڈاکٹر نے رکھا ؟ تو کیا اب ڈاکٹر بھی مافیا بن گئے ہیں اور کوئی انہیں ٹچ نہیں کر سکتا؟ ایک والد زندہ بچی کو ہسپتال لائے اور اس کی لاش لے جائے؟ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 
میں ماسٹر اسلم پرویز کا یہ دکھ پنجاب کے محتسب جاوید محمود کو بھیج رہا ہوں۔ مجھے علم ہے جاوید صاحب کے دل میں ان غریبوں کے لیے درد ہے۔ ایک باپ کی آواز انہیں سننی چاہیے۔ جاوید محمود صاحب کو ماسٹر اسلم پرویز کو انصاف دینا چاہیے۔ 
اسلام آباد کی سرد، اداس شاموں اور درختوں سے گرتے پتوں کی سرسراہٹ میں ایک باپ کا دکھ مزید اداس کر گیا ہے۔۔ اب دنیا سے بیزار آنکھیں موندے لیٹا ہوں اور سوئی ایک جگہ اٹکی ہوئی ہے۔ وہ کیسا ڈاکٹر ہے اور اس کا دل کیسا ہوگا جو مرتی ہوئی بچی کے بے بس باپ کی منتوں، ترلوں اور مسلسل بہتے آنسوئوں پر بھی نہ پسیجا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں