"RKC" (space) message & send to 7575

تین لیڈرز، تین انقلاب، تین کہانیاں… (قسط سوم)

سوال یہ تھا: جنرل مشرف کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ گجرات کے چوہدریوں کو سبق سکھانے پر تل جائیں‘ اور اس کے لیے ان کی نظرِ انتخاب حضرت زرداری پر پڑی تھی؟
چوہدری تو تابعدار بچے تھے‘ پھر زرداری کو کیوں یہ کہہ کر پہلے جیل سے رہا کرا کے دبئی پہنچایا گیا اور پھر وہاں سے یہ گولی دے کر لاہور لایا گیا کہ اگر ان کے ورکرز نے لاہور پر قبضہ کر لیا تو پھر اگلے دن ہی چوہدری پرویز الٰہی کی چھٹی ہو جائے گی۔ اس طرح دو ہزار پانچ نئے انتخابات کا سال بن جائے گا‘ اور بینظیر بھٹو تیسری بار وزیر اعظم بن جائیں گی۔ چوہدری برادرز تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور پھر جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو مل کر راج کریں گے؟
جنرل مشرف اور چوہدری برادرز کی ایک دوسرے کے لیے اس چھپی ہوئی سیاسی محبت اور نفرت سمجھانے کے لیے مجھے آپ کو نو سال پیچھے لندن کے ایجوائے روڈ پر لے جانا پڑے گا۔ 
یہ اگست دو ہزار سات کا ایک خوبصورت دن تھا۔ یوسف رضا گیلانی جنرل مشرف کی قید بھگتنے کے بعد پہلی دفعہ لندن آئے ہوئے تھے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے نواز لیگ کے جاوید ہاشمی نے جنرل مشرف کی جیل بہادری سے کاٹی تھی‘ تو پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اعزاز یوسف رضا گیلانی کے حصے میں آیا تھا۔ سرائیکیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سیاست کے طعنے دینے والے جدہ اور لندن بھاگ گئے تھے۔
میں ان دنوں لندن‘ رپورٹنگ کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہاں بڑی گہماگہمی چلتی رہتی تھی۔ گیلانی صاحب کا فون آیا‘پوچھا: کہاں ہو؟ وہ اُس وقت بینظیر بھٹو سے ملنے جا رہے تھے۔ طے ہوا کہ اجلاس کے بعد ملتے ہیں۔ دوپہر کے قریب میں ایجوائے روڈ پہنچا تو محسوس کیا کہ وہ کچھ چپ، افسردہ اور دل گرفتہ ہیں۔ وجہ پوچھی تو ٹال گئے۔ ہم دونوں نے ایجوائے روٖڈ پر واک شروع کر دی۔ مجھے کھجوریں پسند ہیں۔ ایک عربی کی دکان پر کھجور لینے کے لیے رکے‘ تو اچانک کسی نے گیلانی صاحب کو پیچھے سے جپھا ڈال دیا۔ مڑ کر دیکھا‘ تو شہباز شریف کھڑے مسکرا رہے تھے۔
ان کے جانے کے بعد گیلانی صاحب بولے: پتا ہے‘ سیاستدان کتنے برس بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ کسی کو بھی جب چاہے استعمال کر سکے؟ 
میں چپ رہا۔ وہ خود ہی بولے: بیس برس۔ پھر کہا کہ آج بینظیر بھٹو کی زیر صدارت اجلاس میں وہ بڑے عرصے بعد شریک ہوئے۔ جس طرح بینظیر بھٹو اجلاس میں ہر ایک کو ڈیل کر رہی تھیں‘ اس سے لگتا تھا‘ انہیں سب کے بارے میں پتا ہے کہ کس سے کیا کام لینا ہے اور کون کیا کام کر سکتا ہے۔ یہ ایک اچھے سیاستدان کی خوبی ہوتی ہے کہ اسے اپنی ٹیم کا پتہ ہو کہ کون کیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مجھے محسوس ہوا کہ شاید گیلانی صاحب‘ جس اہمیت کی توقع رکھتے تھے‘ وہ انہیں اجلاس میں بینظیر نہیں دی تھی۔ گیلانی صاحب درست سجھتے تھے کہ وہ پاکستان میں جیل میں بیٹھے رہے تھے‘ جب سب لندن، جدہ اور دبئی نکل گئے تھے۔ 
میں نے پوچھا: آپ کو بھی کبھی کسی نے استعمال کیا؟ بولے: جی بالکل اور کرنے والے میرے اپنے ہر دلعزیز پیر پگاڑہ تھے‘ جن سے ان کی رشتہ داری بھی تھی۔
پھر گیلانی صاحب نے ایک مزے دار کہانی سنائی۔ 
پیر پگاڑا کی مہربانی سے یوسف رضا گیلانی ان کے مرید محمد خان جونیجو کی کابینہ کے وزیر ریلوے بن چکے تھے۔ ایک دن ان دونوں نے گیلانی صاحب کو بلایا اور انہیں کہا گیا کہ آپ کے ذمے ایک مشن لگانا ہے۔ گیلانی صاحب نے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا کہ ایک وزیر اعظم اور اس سے بڑھ کر ان کا پیر‘ ان سے کوئی کام لینا چاہتا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ لاہور جائیں اور وہاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر کوئی نیا وزیر اعلیٰ لائیں۔ گیلانی حیران ہو کر بولے‘ لیکن نواز شریف کو تو جنرل ضیا نے وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ گیلانی سے کہا گیا کہ جو کچھ انہیں بتایا جا رہا ہے‘ وہ وہی کریں۔ 
گیلانی خوشی خوشی تخت لاہور فتح کرنے چل پڑے۔ وہ اس خیال سے ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان کے ذمے ایک ایسا مشن لگایا گیا ہے‘ جو ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ نواز شریف کا تختہ وہ الٹ دیں گے اور انہیں یہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان پر وار کس نے کہاں سے کیا۔ 
گیلانی صاحب نے سرکٹ ہائوس جا کر ڈیرے ڈال دیے اور ایم پی ایز سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ دھیرے دھیرے یہ بات پھیل گئی کہ گیلانی کو وفاقی حکومت نے بھیجا ہے کہ وہ جا کر نواز شریف کا تختہ الٹ دیں۔ گیلانی بھی پورے اعتماد کے ساتھ سب کو یقین دلاتے رہے کہ نواز شریف کے ساتھ جنرل ضیا کا جاری رومانس ختم ہو چکا ہے۔ ایم پی ایز نے اپنے اپنے گروپس بنا کر گیلانی سے ملاقاتیں کیں‘ یہ سوال اٹھایا کہ انہیں کیا ملے گا؟ کون بنے گا وزیر اعلیٰ اور کون بنے گا ڈپٹی‘ اور کس کو ملے گا کتنا بڑا عہدہ اور کون بنے گا وزیر یا مشیر۔
ایک دن گیلانی نے پرویز الٰہی کو ہی کہانی ڈال دی۔ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ کی سیٹ سے کم پر راضی ہونے والے نہیں تھے۔ اس پر پرویز الٰہی کو بھی سگنل دے دیا گیا کہ وہ تیاری پکڑیں۔ 
یہ خبر لاہور میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ جنرل ضیا وزیر اعلیٰ نواز شریف سے ناراض ہیں اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یوں نواز شریف کے ایم پی ایز ایک ایک کرکے ان سے ٹوٹ کر گیلانی سے راتوں کو ملاقاتیں کرنے لگے۔ ایک دن منظور وٹو بھی خفیہ ملاقات کے لیے پہنچ گئے کہ انہیں کیا ملے گا؟ نصراللہ دریشک بھی اس ہجوم میں شامل تھے۔ گیلانی ایک روایتی سرائیکی پیر کی طرح سب کو بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری سنا رہے تھے۔ جونہی گیلانی نے اتنے ایم پی ایز اکٹھے کر لیے‘ جن کی مدد سے نواز شریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی سکتی‘ تو انہوں نے پیر پگاڑا اور وزیر اعظم جونیجو کو پیغام بھیجا کہ جناب کام مکمل ہو گیا ہے‘ حکم کریں‘ کب نواز شریف کو ہٹانا ہے۔ 
اس پیغام کے اگلے روز گیلانی کو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا‘ جب انہوں نے پی ٹی وی کی نو بجے کی خبروں میں نواز شریف کو جنرل ضیا سے اسلام آباد میں ملاقات کرتے دیکھا۔ جنرل ضیا نے دعا دی کہ ان کی زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ پیر پگاڑا کا یہ بیان اگلے دن اخبار میں پڑھا کہ نواز شریف کی بوری میں کچھ سوراخ تھے‘ جو انہوں نے سی لیے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ہم نے نواز شریف کے ان ایم پی ایز کو علیحدہ کر دیا تھا‘ جو اس کے خلاف کسی سازش کا حصہ بن سکتے تھے۔ اب نواز شریف اپنے ان ایم پی ایز کو سنبھال لیں۔ گیلانی ایک سخت صدمے کی حالت میں بیٹھے نواز شریف اور جنرل ضیاء کی ملاقات کے مناظر دیکھتے رہے۔
کہانی ختم ہو گئی تھی۔ 
انسان زندگی میں سب برداشت کر لیتا ہے‘ لیکن اسے اگر یہ احساس ہو کہ جائے کہ کسی نے اسے بیوقوف بنایا ہے تو وہ احساس لمبے عرصے تک ختم نہیں ہوتا۔ گیلانی ٹوٹے دل کے ساتھ پیر پگاڑا سے ملے‘ اور زخمی آواز میں پوچھا: آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کیا؟ پیر پگاڑا مسکرائے‘ سگار سلگایا اور بولے: برخوردار! ہم نے آپ کو استعمال کیا ہے۔ گیلانی کے چہرے پر پھیلی حیرانی دیکھ کر پیر پگاڑا پھر گویا ہوئے: برخودار‘ دراصل نواز شریف کچھ عرصے یہ تاثر دے رہے تھے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی قابلیت اور سیاست کے زور پر بنے‘ جنرل ضیا کا انہیں وزیر اعلیٰ بنانے میں ہاتھ نہیں تھا۔ جنرل ضیا نے نواز شریف کا شکوہ کیا‘ تو میں نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے‘ بچے کو درست کر دیتے ہیں۔ میری نظر تم پر پڑی۔ تم سرائیکی علاقے سے ہو۔ نوجوان ہو۔ پیر گھرانے سے بھی ہو۔ تمہاری ساکھ بھی اچھی ہے۔ لہٰذا تم اچھی طرح سرائیکی ایم پی ایز کو گھیر سکتے تھے۔ 
گیلانی حیرت کے ساتھ یہ سب کچھ سنتے رہے۔ 
پیر پگاڑا بات جاری رکھی: اور تم نے ہماری توقعات کے مطابق کام کیا۔ جب نواز شریف کو پتہ چلا اقتدار ہاتھوں سے نکل رہا ہے‘ تو وہ دوڑا دوڑا جنرل ضیا کے پاس گیا‘ اور دوبارہ بیعت کر لی۔ نواز شریف اب جنرل ضیا کا تابعدار بچہ بن کر رہے گا‘ کیونکہ اسے پتہ چل گیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ اپنی وجہ سے نہیں‘ بلکہ جنرل ضیا کی وجہ سے ہے۔
گیلانی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ انہوں نے جانے سے پہلے پوچھا کہ پیر صاحب! سیاستدان کب اس قابل ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو اس طرح استعمال کرے‘ جیسے انہیں استعمال کیا گیا ہے تو پیر پگاڑا بولے: بچہ! بیس برس بعد سیاستدان اس قابل ہوتا ہے کہ جب چاہے وہ کسی کو بھی استعمال کر لے۔ گیلانی ایک نظر اپنے پیر پر ڈال کر کندھے جھکا کر کمرے سے نکل گئے۔
وقت اتنا بدلا تھا کہ گیلانی کی جگہ اب زرداری کو استعمال کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا کی جگہ جنرل مشرف تھا۔ یہ اور بات تھی کہ جنرل ضیا کی طرح جنرل مشرف کو بھی ایک عام سیاستدان کی طرح بیس برس کا عرصہ سیاستدانوں کو استعمال کرنے کے لیے نہیں چاہیے تھا۔ ان دونوں نے چند برسوں میں ہی وہ سیاسی گر سیکھ لیے تھے جو ایک عام سیاستدان کو بیس برس بعد سمجھ آتے ہیں۔
زرداری جنرل مشرف کے چند جرنیلوں کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہونے کے بعد بلاول ہائوس لاہور میں گیلانی کی طرح‘ بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ پرویز الٰہی‘ جو کچھ عرصہ پہلے نواز شریف کی طرح سمجھنا شروع ہو گئے تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ اپنی وجہ سے ہیں، اب اچانک جنرل مشرف کے دوبارہ شکر گزار ہو گئے تھے۔ 
جنرل مشرف نے زبردست اداکاری کی‘ جب چوہدریوں نے پوچھا کہ سرکار کیا گستاخی ہو گئی تھی کہ زرداری تو یہ تاثر دے رہے تھے کہ آپ کے ساتھ ان کی نئے انتخابات کے حوالے سے ڈیل ہو گئی ہے۔ جنرل مشرف نے سجھداری سے کام لیتے ہوئے پرویز الٰہی کو اپنی عمر لگنے کی دعا تو نہ دی‘ لیکن کھلا ہاتھ دے دیا کہ وہ جیسے چاہیں پیپلز پارٹی کے ورکرز کی دھلائی کریں اور اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھیں! 
جنرل مشرف نے زرداری جیسے اپنے تیئں زیرک سیاستدان کو سیاسی چالوں میں اس طرح مات دے دی تھی جیسے کبھی جنرل ضیا نے اپنے دور کے سیاست دانوں کو دی تھی۔ گیلانی اور زرداری نے یہ سیاسی چالاکیاں دو جرنیلوں سے سیکھیں جو برسوں بعد ان کے اس طرح کام آنا تھیں کہ ایک نے ملک کا وزیر اعظم تو دوسرے نے صدر بننا تھا۔ دونوں بیوقوف تو جرنیلوں کے ہاتھوں بنے تھے‘ لیکن اب انہوں نے دوسروں پر وہی حربے استعمال کرنا تھے‘ جو ان پر ہوئے تھے۔ اقتدار کا گھناونا کھیل تو اب شروع ہوا تھا... (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں