ایک ہفتہ کیا گزرا لگتا ہے موت کا فرشتہ پاکستان سے ہوکر گیا ہے۔
کوئٹہ سے لے کر پارا چنار اور بہاولپور تک انسان ہی تھے جو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیے گئے یا پھر زندہ جل گئے۔ پارا چنار میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ وہاں پہلے بھی اسی طرح فرقہ وارانہ واقعات میں کئی معصوم مارے جا چکے ہیں۔ ہر دفعہ اسی طرح احتجاج ہوتا ہے اور پھر طویل خاموشی اور اگلی ٹریجڈی کا انتظار شروع۔ ایک ایسا مکینزم بن گیا ہے جس کے ہم سب عادی ہو گئے ہیں، قاتل بھی، مقتول بھی، لاشوں پر رونے والے بھی اور حکومتی عہدے دار بھی۔ سب کو اپنے اپنے رول کا پتہ چل گیا ہے کس نے کب مارنا، کس نے مرنا، کس نے ماتم کرنا اور کس نے مذمت کرنی ہے۔ اب دس پندرہ بندے مر جائیں تو کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ شام تک سب بھول چکے ہوتے ہیں۔ ایک بے حسی ہے جو معاشرے پر چھا گئی ہے کیونکہ ہمیں پتہ چل گیا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر میں حکومتیں بنتی ہیں، اپنے جیسے انسانوں کو اٹھا کر بادشاہ بنا دیا جاتا ہے‘ جن کو سب لوگ اپنی کمائی میں سے ٹیکس کے نام پر حصہ دیتے ہیں‘ حکمرانی کا حق دیتے ہیں۔ اس کے بدلے وہ کیا مانگتے ہیں؟ لاکھوں فوجی اور لاکھوں سویلین کی ہر ماہ تنخواہوں اور حکمرانوں کے بیرون ملک دوروں اور ان کے خاندانوں پر خرچ ہونے والے کروڑں اربوں روپے کی ادائیگی کے بدلے وہ کیا مانگتے ہیں؟ صرف جان اور مال کی حفاظت۔ اگر حکمران وہ بھی نہیں کر سکتے تو کس چیز کا وہ ٹیکس لیتے ہیں؟ ان سے تو اٹلی اور بعد میں نیویارک کی مافیا فیملیز بہتر ہوتی تھیں جو پروٹیکشن منی لے کر لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا ذمہ لیتی تھیں۔ پچھلے آٹھ برس کے دوران حکمران خاندان کی سکیورٹی پر آٹھ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ بچہ بچہ محفوظ ہے اور سکیورٹی سکواڈ لے کر چلتا ہے۔ وزیر اعظم کے سکواڈ میں پچاس سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ جب حکمران سب رقم اپنے اوپر خرچ کر رہے ہوں گے یا سکیورٹی صرف اپنے خاندان کو دے رہے ہوں گے تو پھر عوام کے لیے کیا بچے گا؟ 'گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘ والا حساب۔
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام اب باقاعدہ گروہ بندی کا شکار ہیں۔ آدھا ملک ایک مسلک کی غیرملکی ریاست کے ہر عمل کو جائز سمجھتا ہے اور اس کی پراکسی وار کا جواز پیش کرتا ہے تو باقی آدھا دوسرے ملک کی پراکسی وار کا دفاع کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عرب و عجم کے ان دونوں ملکوں میں سکون ہے۔ وہ آپس میں نہیں لڑتے‘ سب خون ہمارے ہاں بہاتے ہیں۔
دوسری طرف جو کچھ بہاولپور میں ہوا، میرے لیے یہ انہونی بات نہیں ہے۔ غربت ان علاقوں میں بڑھ رہی ہے۔ کامن سینس کا تقاضا تھا کہ یہ سب لوگ پٹرول سے دور بھاگتے لیکن یہ آگ کے دریا کے اندر کھڑے ہو کر پٹرول کی بالٹیاں بھر رہے تھے۔ کیا یہ غربت کا نتیجہ تھا؟ تو پھر جو کاریں روک کر ٹینکیاں فل کر رہے تھے وہ غریب تھے؟ جو موٹر سائیکل پر پٹرول بھر کر لے جا رہے تھے وہ غریب تھے؟ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔جب بھی کوئی آئل ٹینکر اس طرح گرا‘ لوگ تیل لوٹنے لگ گئے اور آگ میں جل گئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کے بعد ریاست نے کیا کوشش کی یا اداروں نے کوئی طریقہ کار وضع کیا کہ آئندہ اس طرح کے واقعات میں اُس کا کیا رول ہوگا ؟ کیا میڈیا پر کمپین چلائی گئی کہ ایسی صورت میں عوام پولیس یا اداروں کو کیا کرنا ہے؟ آٹھ ارب روپے کے اشتہارت وفاقی حکومت پچھلے چار برسوں میں دے چکی ہے۔ پنجاب حکومت کے اشتہارات کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ایک بھی اشتہار آپ کو نہیں ملے گا جس میں سوشل سروس بارے کچھ ملے۔ ہر جگہ اپنی فوٹو اور اپنی پروموشن۔ عوام کو سوک شعور دینے کا کبھی نہ ٹی وی پر ذکر ہوا اور نہ ہی حکومت نے کوشش کی۔
سرائیکی علاقوں میں پھیلی غربت کو مجھے سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ جب بھی گائوں جاتا ہوں کئی غربت کی کہانیاں منہ کھولے میرا انتظار کررہی ہوتی ہیں۔ جب ان پر لکھتا اور بولتا ہوں تو پھر طعنے سنتا ہوں کہ میں لاہور اور جنوبی پنجاب میں نفرت پیدا کررہا ہوں۔ اب مجھے بتائیں بہاولپور جیسی امیر ریاست کا یہ حال ہوگیا ہے کہ پنجاب حکومت نے اسے صوبے کے غریب ترین اضلاع میں شامل کررکھا ہے لیکن دیتی پھر بھی کچھ نہیں ۔ وہ ریاست جو کبھی پورا پاکستان چلاتی تھی۔ ون یونٹ کے بعد جس طرح بہاولپور ریاست کو بحال نہ کیا گیا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں جواز دیا جاتا ہے اس علاقے کے نواب ، وڈیرے یا سیاستدان ترقی نہیں چاہتے۔ تو اس سے آپ کو یہ چٹ مل جاتی ہے کہ آپ ان علاقوں کے اربوں روپے اٹھا کر لاہور پر خرچ کردیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے سیاستدان نہیں چاہتے؟ پنجاب کو ہر سال نو سو ارب روپے این ایف سے کے ملتے ہیں۔ اگر پنجاب کے چھ بڑے اضلاع کو ایک ایک سو ارب روپے سالانہ ترقیاتی فنڈز دیے جائیں تو بھی باقی کے تیس اضلاع کو اوسطاً دس دس ارب روپے سالانہ ترقیاتی فنڈ ملنا چاہیے۔ چلیں آپ دس ارب نہ دیں، پھر بھی پانچ ارب روپے سالانہ ہر ضلع کا حصہ بنتا ہے۔ پانچ
سالوں میں جس ضلع کو 25 ارب روپیہ ملے گا وہ کہاں کا کہاں پہنچ جائے گا ۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ ہر سال بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے اربوں روپے کے اعلانات ہوتے ہیں اور جب ریلیز کرنے کا وقت آتا ہے تو پنجاب حکومت کا دل بیٹھ جاتا ہے اور وہ لاہور پر لگا دیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے فنڈز کی بندر بانٹ لاہور میں کس طرح ہوتی ہے اس کے لیے روزنامہ دُنیا کے شاندار رپورٹر حسن رضا کی خبریں پڑھ لیں۔ لاہور کی کینال روڈ بننا تھی اس کے لیے دو ارب روپے جنوبی پنجاب کی سکیموں سے نکال کر یہاں لگا دیے گئے۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے باتھ روم کے لیے رقم لیہ کی ترقیاتی سکیموں سے نکال گئی۔ آپ موٹروے سے تلہ گنگ کو جائیں اور وہاں سے میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ اور پھر ڈیرہ غازی خان روڈ پر‘ پتہ چل جائے گا آپ نے سرائیکی علاقوں کا کیا حشر کردیا ہے۔ آپ کو چھ سو کلومیٹر سے زیادہ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کوئی ٹراما سینٹر، کوئی پولیس پٹرولنگ، ایمرجنسی مدد، حتیٰ کہ سڑک تک نہیں ملے گی ۔ ہر ماہ ملتان میانوالی روڈ پر درجنوں لوگ حادثوں میں مرتے ہیں ۔ پچھلے سال جس جگہ لیہ میں تیس لوگ زہریلی مٹھائی سے مرے تھے اس کے قریب فتح پور میں بننے والا ٹراما سینٹر وزیراعلیٰ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ختم کیا تھا ۔ لیہ میں ستر کروڑ روپے سے ہسپتال بننا تھا وہ پیسے لاہور منتقل کردیے۔
سرائیکی علاقوں میں غربت مزید بڑھے گی اور اس کے سنگین نتائج بڑے شہروں کو بھگتنا ہوں گے۔ اسلام آباد میں اب آپ کو زیادہ سرائیکی اور پختون نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے علاقوں میں ترقی نہ ہونے کی وجہ سے غربت بڑھی اور اب ان سب نے بڑے شہروں کا رخ کر لیا ہے۔ لاہور میں بھی اب آپ کو سرائیکی علاقوں سے مزدور ملتے ہیں۔ کراچی کے بعد لاہور پھٹ گیا ہے اور اگلی باری پنڈی اور اسلام آباد کی ہے جہاں کسی کو کوئی پروا نہیں کون کہاں سے آرہا ہے اور کہاں کیسے رہ رہا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ شہباز شریف جن کا خاندان بیس برس سے زائد پنجاب پر حکمران ہے‘ فرماتے ہیں سرائیکی علاقوں میں جاہلیت اور غربت کے نتیجہ میں ڈیرھ سو بندہ جل گیا ۔ بہاولپور ہسپتال میں برن یونٹ تک نہیں ہے۔
میرا ان موضوعات پر لکھنے کو اب بالکل دل نہیں چاہتا‘ بہت لکھ اور بول لیا‘ بہت دل جلا لیا ۔ مجھے ایک بات کا پتہ ہے بڑے شہروں کے لوگوں کی زندگیاں اور خوش حالیاں اب رسک پر ہیں ۔ پرانے زمانوں میں صحرا اور پہاڑوں کے لوگ اٹھ کر میدانی علاقوں میں خوشحال شہروں پر حملہ آور ہوتے تھے اور سب کچھ برباد کر کے لوٹ جاتے تھے۔ اب جدید دنیا میں طریقہ بدل گیا ہے۔ اب وہی غریب بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں رہ جاتے ہیں اور جب انہیں کام نہیں ملتا تو پھر وہ سٹریٹ کرائمز کرتے ہیں۔ ایک دن وہ سٹریٹ سے اٹھ کر گینگ بنا لیتے ہیں۔ ہم اربوں روپے پولیس، ایف سی، رینجرز کے بجٹ پر لگا دیتے ہیں لیکن ہم ان علاقوں کی ترقی کے لیے ہر سال ہر ضلع کو اس کا اوسطا پانچ ارب روپے نہیں دیں گے۔ ویسے یہ حرص صرف غریبوں تک محدود نہیں رہی ۔ بڑے بڑے ٹی وی چینلز کے گیم شوز اٹھا کر دیکھ لیں کس طرح امیر اور پڑھے لکھے لوگ ذلت آمیز حرکتیں کرتے ہیں کہ ایک موبائل فون مفت ملے گا یا گاڑی مل جائے گی۔
شارٹ کٹ اور بغیر محنت کے چیز حاصل کرنے کا وہ جنون ہے جو معاشرے کے ہر طبقے میں پھیل چکا ہے۔ ہر کوئی دائو لگانے کے چکر میں ہے۔حکمرانوں کا دائو لگا تو لندن، پاناما، دوبئی میں جائیدادیں بنا لیں، بہاولپور کے لوگوں کا بھی دائو لگا تو لٹر تیل کے لیے جان پر کھیل گئے۔یہ اور بات ہے حکمران ملک اور قوم کا تیل بھی نکال لیں تو بھی ان کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ ان پر کوئی عذاب نہیں گرتا ۔ عوام ستر روپے کا پٹرول بھی لوٹنے جائے تو آگ کے دریا سے ڈوب کر گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں قسمت اور تقدیر بھی امیروں کا ساتھ دیتی ہے۔ اپنی اپنی قسمت ، اپنا اپنا نصیب!