عبدالرحمن ‘ڈاکٹر عاصم صہبائی سے رابطے میں تھا ۔ عاصم نے اسے نئی کیمو بتائی تھی کہ وہ اپنے انکالوجسٹ کو کہے کہ وہ شروع کرے تو بہتری کی امید تھی یا اس کی بات کرادے‘ وہ اسے گائیڈ کردے گا ۔ جب عبدالرحمن نے وہی دوائی اپنے انکالوجسٹ کو بتائی تو اس نے کہا: تم کس چکر میں پڑ گئے ہو؟دو تین ماہ تمہاری زندگی باقی ہے۔ یہ ویسے بھی بہت مہنگی ہے اور اب تم پر کوئی کیمو اثر نہیں کررہی۔ وہ ڈاکٹر بار بار کہہ رہا تھا :کیوں پیسے ضائع کرنے ہیں؟ دنیا سے سب نے چلے جانا ہے‘ کسی نے پہلے تو کسی نے بعد میں۔
مجھے یہ پڑھ کر شدید دھچکا لگا اور میں نے عبدالرحمن سے پوچھا تھا :یہ ڈاکٹر تمہارا علاج کر رہے ہیں یا موت کے لیے تیار کررہے ہیں؟ کیا ڈاکٹر روزانہ کینسر مریضوں کو اپنے ہاتھوں مرتے دیکھ کر اتنے سخت دل ہوجاتے ہیں؟ ان کے نزدیک کسی کو بیٹھ کر موت کیلئے تیار کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے‘ اس کا علاج نہیں۔ عبدالرحمن مایوسی سے بولا تھا: پتا نہیں ڈاکٹر ایسا کیوں سلوک کررہا ؛ حالانکہ وہ تو پانچ وقت کا نمازی ہے۔
عبدالرحمن جب امید ختم کرچکا تھا تو ڈاکٹر عاصم صہبائی نے اس کے باپ کو کہا کہ اگر وہ امریکہ آنے کو تیار ہیں‘ تو وہ اس کا علاج خود کرسکتا ہے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ امریکہ کا ویزہ عبدالر حمن کو مل جائے گا۔ مجھے یاد ہے‘ 2014ء میں جب میں نے خود اپنی بیوی کے علاج کے لیے ویزہ اپلائی کیا تھا‘ تو سب نے منع کیا تھا کہ امریکی علاج کیلئے ویزہ نہیں دیں گے‘ وزٹ ویزہ لے کر چلے جائو۔ میں نے انکار کر دیا تھا کہ جھوٹ بول کر علاج کروانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ویسے بھی اگر کسی رات کو کوئی امریکی ایجنسی میرے میزبانوں کے گھر پر دستک دے اور پوچھے کہ یہ لوگ تو وزٹ ویزے پر آئے تھے اور چھ ماہ سے ان کا علاج چل رہا ہے؟ میں خود تو مسائل کا سامنا کرسکتا تھا ‘لیکن اپنے امریکی میزبان ڈاکٹر عاصم اور اس کی فیملی کو مشکل میں نہیں ڈال سکتا تھا۔
عبدالرحمن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کا تھا۔ اس کا باپ سب کچھ کر کے بھی بیس لاکھ روپے کا بندوبست کرسکتا تھا‘ جبکہ علاج کے اخراجات ایک کروڑ سے زیادہ تھے۔ خیر ڈاکٹرعاصم صہبائی نے کہا کہ آپ آ جائیں۔ اللہ مہربانی کرے گا‘کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔ یوں ایک دن مجھے عبدالرحمن کا میسیج ملا کہ وہ 8ستمبر کو اپنے باپ کے ساتھ امریکہ علاج کے لیے جارہا ہے ۔
مجھے حیرانی نہیں ہوئی‘ پاکستانی ڈاکٹرز نے جس مریض کو لاعلاج قرار دے دیا تھا‘ امریکہ میں بیٹھا ایک ڈاکٹر کہہ رہا تھاکہ وہ اس کا علاج کرے گا ۔ یہ سب کچھ میں خود بھگت چکا تھا‘ جب ایک سال علاج اور پیسے خرچ کرنے کے بعد اسلام آباد کا ڈاکٹر ‘جو علاج کررہا تھا‘تبلیغ پر چلا گیا تھا۔ مجھے اور میری بیوی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب یہاں سے کہاں جائیں ؟ ایک طرح سے وہی جواب دیا گیا تھا‘ جو اب عبدالرحمن کو مل چکا تھا کہ گھر جائیں اور موت کا انتظار کریں‘ کیونکہ مرنا تو سب نے ہی ہے۔ بعد میں ڈاکٹر عاصم صہبائی نے اللہ کی مہربانی سے چھ ماہ علاج کر کے میری بیوی کو تندرست کر دیا تھا ۔اب وہی کچھ عبدا لرحمن کے ساتھ ہورہا تھا۔ اتنے پیسے لگانے کے بعد اس کا ڈاکٹر بھی تبلیغ پر چلا گیا تھا اور جانے سے پہلے اسے موت کے لیے تیار کر گیا تھا ۔ اب ہزاروں میل دور البامہ ریاست کے شہر میں بیٹھا باقی کہانی سن رہا تھا کہ عبدا لرحمن جب امریکہ پہنچا تو کیا ہوا ۔
ڈاکٹر عاصم صہبائی جہاں بھی رہے ‘وہاں کی لوکل کمیونٹی میں ان کی بہت عزت کی جاتی رہی۔ مجھے آج تک ڈاکٹرعاصم کو ان کے امریکی مریض جارج کی طرف سے بھیجا گیا ایک کارڈ نہیں بھولا۔ جارج نے اپنے ہاتھ سے ڈاکٹرصاحب کی تصویریں بنائی تھیں اور اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کی تصویریں بھی خود ہاتھ سے ڈرائنگ کر کے بھیجی تھیں۔ جارج نے لکھا تھا: اس کا ماننا تھا کہ خدا اکثر اس دنیا میں ایسے لوگ بھیج دیتا ہے‘ جن کے پاس جنت جیسی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ انسانیت کے زور پر دوسروں کی زندگیاں تبدیلی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ اپنے منتخب کیے گئے پیشے میں معجزے کردکھاتے ہیں ۔ ایسے لوگ خدا کی طرف سے انسانوں کیلئے ایک تحفہ ہوتے ہیں۔ آپ میرے ڈاکٹر ہیں اور آپ بھی اس خدا کے طرف سے بھیجے گئے تحفے میں سے ایک ہیں ۔ آپ نے میری زندگی اس وقت بدل دی‘ جب مجھے بہت ضرورت تھی۔ میں زندہ رہوں یانہ رہوں ‘لیکن آپ ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے۔ ڈاکٹرعاصم کے لیے اس سے زیادہ دل کو ٹچ کرنیوالا میسیج نہیں ہوسکتا تھا۔ اپنی زندگی بچانے کی اہمیت جتلانے کیلئے جارج نے اپنی دو چھوٹی بیٹوں اور بیوی کی ہاتھ سے ڈرائنگ کی ہوئی تصویریں بھی کارڈ پر بنا کر بھیجی تھیں‘ جس کا مطلب ڈاکٹر عاصم کو یہ بتانا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کی جان نہیں بچائی، پورے خاندان کو بچا یا ہے ۔
عاصم صہبائی نے اپنے علاقے کی لوکل کمیونٹی سے بات کی ۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے بھی اس کی مدد کی‘ جس میں ڈاکٹر عرفان‘ ڈاکٹر کامران شامل تھے۔ ساتھ میں کارلٹن سے اعجاز بھائی نے بھی کچھ مدد کا بیڑا اٹھایا‘ لیکن عاصم کو پتا تھا کہ اس کے علاج کیلئے زیادہ رقم درکار تھی‘ لہٰذا عاصم نے اپنے فیس بک پر اس کیس کی ساری تفصیل لکھ کر عطیہ کی درخواست کی ۔
خود میری بیوی نے پاکستان سے عبدالرحمن کے لیے پیسے بھجوائے ۔ مقامی امریکیوں نے جب وہ اپیل پڑھی تو انہوں نے بھی مدد کرنی شروع کردی ۔ڈاکٹر عاصم کے اپنے بیٹے عثمان صہبائی نے ساری عیدی‘ جو تین سو ڈالرز سے زیادہ تھی‘ عبدا لرحمن کے علاج کے لیے عطیہ میں بھیج دی تھی ۔ لوکل کرسچین اور امریکیوں نے بھی چندہ دینا شروع کر دیا تھا۔ یوں بیس ہزار ڈالرز کے قریب اکٹھے ہوگئے تھے‘لیکن علاج کے لیے پھر بھی پیسے کم تھے۔
بہر حال ڈاکٹرعاصم نے عبدالرحمن کا علاج شروع کردیا ۔ ساتھ ہی عبدالرحمن اور اس کے باپ کے لیے گھر کا بندوبست کیا گیا ‘جو دھیرے دھیرے وہاں رہنے والے پاکستانی ڈاکٹرز اور دیگر کے لیے دیہاتی بیٹھک کا درجہ اختیار کرگیا ۔ اب سب وہاں رات کو اکٹھے ہونے لگے۔ پاکستانی سیاست پر بات ہوتی۔ عبدالرحمن کا علاج بھی چلتا رہا ۔
وہ عبدا لرحمن جسے پاکستانی ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر موت کا انتظار کرنے کے لیے گھر بھیج دیا تھا‘ اس پر کیمو نے اثر کرنا شروع کردیا۔ جب عبدالرحمن امریکہ آیا تو عاصم بہت پریشان تھا ‘کیونکہ اس کا کینسر بہت پھیل چکا تھا ۔ ڈاکٹرعاصم کی ایک عادت ہے کہ وہ ایسے مریضوں کا علاج کرنے سے پہلے دو نفل نماز پڑھ کر خدا سے دعا مانگ کر علاج شروع کرتا ہے۔ جب عبدالرحمن ہمارے سامنے کھڑا اپنی کہانی سنا رہا تھا ‘تو اسی رات عاصم نے اس کا ٹیسٹ کرایا تھا ۔ نوے فیصد کینسر ختم ہوچکا تھا اور اب صرف دس فیصد رہ گیا تھا اورڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ انشاء اللہ وہ بھی جلد ختم ہوجائے گا ۔
عبدالرحمن کو یہاں پاکستانی کمیونٹی نے بڑا پیار دیا ۔ سب رات کو اس گھر اکٹھے ہوتے ہیں ۔ محفل جمتی۔ اعجاز بھائی کارلٹن سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو کر کے اس محفل میں شامل ہوتے ۔ وہاں قصے کہانیاں سنائی جاتیں ۔ کھانے کھائے جاتے اور سیاست پر سیر حاصل بحث ہوتی ۔میں بھی اس محفل میں شریک ہوا ۔ مفتی اظہار احمد‘ جن کا تعلق مانسہرہ سے ہے ‘اپنے گھر سے بہت لذیذکھانا بنوا کر لاتے تھے۔ وہیں پر ہمارے کالم نگار دوست اظہار الحق کے بھائی امام نثار الحق‘ جو ایک شاندار شخصیت کے مالک ہیں ‘نے بھی ایک یہودی سے اپنی دوستی اور تعلق کی کمال کہانی سنائی ۔میں اس محفل میں رات گئے‘ بیٹھے ہوئے ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ ایک سال پہلے‘ ایک پاکستانی ڈاکٹر نے جس عبدا لرحمن کو کہا تھا کہ وہ دو ماہ زندہ نہیں رہے گا اور دوائیاں اثر کرنا چھوڑ چکی ہیں‘ اب اس کا کینسر تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا ۔
جب میں نے رات گئے‘عبدا لرحمن کے گھر سے باہر سردی میں قدم رکھا‘ تو مجھے جارج کا وہ کارڈ یاد آیا کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں ۔ خدا اب بھی ڈاکٹر عاصم صہبائی جیسے لوگ اس دنیا میں بھیجتا ہے ‘جو موت کی طرف بڑھتے لاچار اور بے بس لوگوں کو موت کے لیے تیار کرنے کی بجائے انہیں خدا کی مدد اور علاج سے زندگی کی طرف لوٹانے پر یقین رکھتے ہیں ...! (ختم)