قومی اسمبلی میں بھی بعض دفعہ بڑی مزے کی چیزیں ہمارا دل جلانے آ جاتی ہیں۔ سوموار کے روز قومی اسمبلی میں یہ راز کھلا کہ وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان صاحب کے حکم پر بھینسوں کی نیلامی میں 28 لاکھ روپے اکٹھے کیے گئے تھے اور ٹی وی اور اخبارات میں مشہوری علیحدہ کی گئی تھی‘ جیسے ملک کو بہت بڑے نقصان سے بچا لیا گیا ہے۔ یہ وہ باریک اقدام ہے جو ہر وزیر اعظم کرتا ہے تاکہ عوام کو احساس ہو کہ ان کا خزانہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ عوام بھی اس چکر میں ہر دفعہ آ جاتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو نواز شریف نے وزیر اعظم بنتے ہی یہ حکم دیا تھا کہ فوری طور پر بچت کی جائے۔ اسحاق ڈار نے سرکاری حکم نامہ نکال دیا تھا کہ ہر محکمہ تیس فیصد تک اپنا بجٹ کم کرے اور پھر انہی ڈار صاحب نے وہ تباہی مچائی کہ الامان۔
آپ کو یاد ہو تو انہی وزیر اعظم نواز شریف نے آئی جی موٹروے کو ان کی شان میں لگوائے گئے اشتہار کی سزا کے طور پر نوکری سے ہٹا دیا تھا۔ بڑی واہ واہ ہوئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا چار سالوں میں انہی نواز شریف نے اپنی تصویروں والے اشتہارات لگوانے پر 24 ارب خرچ کر ڈالے۔ جو آئی جی موٹر وے کے اشتہار پر خرچ ہونے والے 24 لاکھ روپے بچا رہے تھے‘ وہ 24 ارب روپے خرچ کر گئے۔ اب بھی یہی ہوا ہے۔ عمران خان صاحب نے بھینسیں بیچ کر اٹھائیس لاکھ روپے تو اکٹھے کر لیے اور خزانے میں جمع بھی کرا دیے‘ لیکن انہی کے نامزد صدر کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایوانِ صدر میں مشاعرہ کرایا جس میں سب وزیر شریک ہوئے۔ واہ واہ کے ڈونگرے برسائے گئے اور کل خرچہ 36 لاکھ روپے آیا۔ ذرا ذہن میں رکھیں 28لاکھ روپے کی بھینسیں بکیں اور ایک ہی رات میں 36 لاکھ روپیہ ایک مشاعرے پر خرچ کر دیا گیا۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی صدر آرٹ، ادب اور شاعری کا دل دادہ نکلا ہے تو اس پر ہمیں داد کے ڈونگڑے برسانے چاہئیں۔ ویسے یہ نہ بھولیں کہ انہی صدر عارف علوی نے بڑھی ہوئی تنخواہ کے کچھ بقیہ جات لینے کے لیے کابینہ میں سمری بھجوائی‘ جس پر انہیں 93 لاکھ روپے بھی ادا کیے گئے‘ جس میں سے کچھ حصہ پرانے صدر ممنون حسین کو بھی گیا۔ دونوں نے مل کر ترانوے لاکھ روپے بانٹ لیے کہ ہماری تنخواہ جو بڑھی تھی‘ اس کے پیسے رہتے تھے۔ آپ کو یاد ہو تو صدر ممنون حسین نے غیر ملکی دوروں میں ساٹھ لاکھ روپے ٹپ پر خرچ کر دیے تھے۔ عوام کی جیب سے ٹپ دینی ہو یا مشاعرہ کرانا ہو اس وقت سب بڑے فیاض ہو جاتے ہیں۔
ایک اور فیاضی سن لیں۔ صدر زرداری نے اپنے میڈیکل ڈاکٹر دوست عاصم حسین کو پٹرولیم اور گیس کا وزیر لگا دیا۔ ذرا اندازہ فرمائیں میڈیکل ڈاکٹر گیس اور پٹرولیم کی وزارت چلا رہا تھا۔ اس وقت عاصم حسین صاحب نے ایران جا کر گیس کی ڈیل کی جب ایران سے پوری دنیا کاروبار کرنے کو تیار نہیں تھی کیونکہ اس پر امریکی پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا‘ ایران نے سینٹرل ایشیا کے ایک اور ملک کے ساتھ وہی معاہدہ پاکستان کی نسبت بہت سستا کیا تھا۔ پاکستان کو مہنگی گیس بیچی گئی تھی۔ اس پر جب اعتراض سامنے آیا تو ایران نے جواب دیا: اس ملک کو سستی گیس کا معاہدہ ان کی پارلیمنٹ نے دیا تھا‘ پاکستان کو پارلیمنٹ نے معاہدہ نہیں دیا تھا۔ ہم چپ کرکے واپس لوٹ آئے۔ معاہدے میں یہ شق بھی رکھی گئی کہ اگر پاکستان مقررہ وقت پر وہ گیس پائپ لائن مکمل نہ کر سکا تو اسے ڈالروں میں جرمانہ ہو گا۔ ذہن میں رکھیں‘ یہ سب شقیں اس وقت رکھی جا رہی تھیں جب امریکہ کسی کو ایران سے کاروبار نہیں کرنے دے رہا تھا۔ بجائے اس کے کہ ہم ایران سے امریکی دبائو کی وجہ سے سستی ترین ڈیل لیتے‘ الٹا ہم مہنگی ڈیل لے کر اور اپنے اوپر جرمانے ڈلوا کر لوٹے اور یہ کام ڈاکٹر عاصم حسین کی وزارت کر رہی تھی۔ اس پائپ لائن معاہدے میں بھارت بھی شامل تھا۔ چین نے وعدہ کیا تھا وہ پاکستان کو 500 ملین ڈالرز اس پائپ لائن کو بنانے کے لیے قرضہ دے گا۔ جب امریکہ کو پتہ چلا تو اس نے چین کو کہا کہ وہ اس پائپ لائن پر قرضہ نہیں دے گا۔ چین پیچھے ہٹ گیا۔ بھارت کو بھی یہ میسج کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ اپنی انرجی ضروریات کو کیسے پورا کرے؟ اس پر بھارت اور امریکہ کے درمیان سول نیوکلیئر معاہدہ ہوا جو امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں کیا۔ بھارت نے ایران کے ساتھ ڈیل کو امریکہ سے کیش کرا لیا جبکہ ہم الٹا جرمانے ادا کرنے کے معاہدے کر آئے تھے۔ زرداری صاحب نے پاک ایران پائپ لائن پاکستانیوں کو یہ کہہ کر بیچی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی حکومت نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے نام پر عوام پر ٹیکس لگا دیا۔ بتایا گیا کہ ان پیسوں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن بنے گی اور پاکستان میں ایل این جی ٹرمینل بھی انہی پیسوں سے لگائے جائیں گے۔ اب پتہ چلا ہے اس ٹیکس سے کل 742 ارب روپے سات برسوں میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ٹیکس پاکستانی کسانوں سے کھاد کی بوریوں کے ذریعے اور آئی پی پیز، سی این جی، کیپکو، جینکو اور کراچی الیکٹرک کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں سے سات سال تک اکٹھا کیا گیا۔ ان سات برسوں میں صرف تین سو ارب روپے ٹیکس حکومت کو ادا کیا گیا‘ جبکہ سات برسوں سے وہ کمپنیاں 452 ارب روپے عوام سے اکٹھا کرنے کے بعد بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جب ان سے یہ اکٹھا کیا گیا ٹیکس مانگا گیا تو ان سب کمپنیوں نے عدالتوں سے سٹے آرڈر لے لیے۔ برسوں سے وہ سٹے لے کر بیٹھی ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ اس سے پہلے مسابقتی کمیشن نے پاکستانی عوام کو لوٹنے پر 30 ارب روپے کے جرمانے بڑے بڑے کاروباریوں کو کیے تھے۔ ان سب نے بھی جا کر سٹے لے لیے ہیں اور برسوں سے وہ لے کر بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف اسلام آباد کے کئی سو دکانداروں نے حکومت کو دھمکی دی کہ اگر ایف بی آر کے نمائندوں نے ان کے ریسٹورنٹس میں آ کر چیک کرنے کی کوشش کی کہ ان کی مشینیں کام کر رہی ہیں یا نہیں‘ جس کے ذریعے جی ایس ٹی حکومت کو ٹرانسفر ہوتا ہے‘ تو وہ ہڑتال کر دیں گے۔ ذرا اندازہ کریں‘ اسلام آباد کا ہر ریسٹورنٹ ہر گاہک سے جی ایس ٹی کے نام پر کھانے کے کل بل پر سترہ فیصد اضافی رقم وصول کر رہا ہے‘ لیکن وہ جمع شدہ ٹیکس حکومت کو دینے کی بجائے‘ خود اپنی جیبیں بھر رہا ہے۔ مانگیں تو وہ ہڑتال کر دیں گے۔
یہ معاملہ جب ای سی سی میں اٹھا تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو گیس کی مد میں 452 ارب روپے ٹیکس خود کھا گئے ہیں‘ انہیں این آر او دیا جائے۔ اس این آر او کے تحت بہت ساری مراعات دینے کی تجویز دی گئی۔ اب اس کے لیے نیا قانون بنے گا جس کے ساتھ ان تمام کمپنیوں کے ساتھ این آر او ہو گا‘ جو عوام سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ چار سو باون کی بجائے دو سو ارب روپے دے دیں اور باقی ڈھائی سو ارب روپے خود رکھ لیں۔ ریسٹورنٹس مالکان روزانہ گاہکوں سے لاکھوں روپے جی ایس ٹی کھانے کے بل کے ساتھ وصول کر رہے ہیں‘ اب انہوں نے دھمکی دی تو وزارت خزانہ جھک گئی۔
دوسری طرف ہمیں کہتے ہیں‘ خزانہ خالی ہے اور عوام ٹیکس دیں۔ سوال یہ ہے جو عوام ٹیکس دے رہے ہیں وہ کمپنیاں اور دکاندار کھا رہے ہیں‘ تو پھر عوام کیسے ٹیکس دیں؟ کس کو ٹیکس دیں؟ جو چور ہیں انہیں تو مراعات اور انعام مل رہے ہیں اور عوام کو دن رات ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ اور ٹیکس کیا ہوتا ہے؟ دن رات بینکوں سے کمرشل قرضے لیے جا رہے ہیں‘ لیکن جو اربوں روپے یہ کمپنیاں دبا کر بیٹھی ہیں‘ ان سے وصول کرنے کی بجائے انہیں سر پر بٹھایا جا رہا ہے۔
ویسے اس سے بڑا لطیفہ کیا ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ کر 28 لاکھ روپے اکٹھے کیے اور ہمارے ادب دوست صدر عارف علوی صاحب نے صرف ایک رات کے مشاعرے پر 36 لاکھ روپے اڑا دیے۔ نئے پاکستان میں کچھ نیا تو ہونا تھا‘ سو ہو کر رہا۔
جب مؤرخ کبھی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ پاکستانی حکمران اتنے ادب دوست اور سخی تھے کہ سرکاری بھینسیں بیچ کر شاعروں کو مشاہرہ ادا کرتے تھے۔