لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید کے جنازے کے دوران ڈی ایچ اے مسجد میں انتظار کرتے ہوئے میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ میری جنرل صاحب سے کتنی ملاقاتیں تھیں اور میں انہیں کب سے جانتا تھا؟
پچھلے تین سالوں میں ان سے صرف تین ملاقاتیں تھیں۔ چوتھی ملاقات موت سے تین دن قبل ہونی تھی۔ میں ضروری کام میں پھنس گیا تھا۔ نہ مل سکا۔
جنازہ گاہ عام لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ جنرل مشرف کی پرانی ٹیم کے لوگ موجود تھے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم تاج سے ملاقات ہوئی۔ باتوں اور شخصیت سے وہ اچھے انسان لگے۔ میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لہٰذا میں نہ پہچان سکا۔ پوچھنے لگے‘ آپ کس ٹی وی پر چلے گئے ہیں، شو نظر نہیں آ رہا؟ کئی دیگر جرنیلوں اور افسران نے بھی پوچھا‘ کہاں شو کر رہے ہیں؟ میں حیران ہوا‘ فوجی حلقوں میں بھی مجھے سنا اور دیکھا جاتا تھا۔ میرا خیال تھا‘ میری سوچ ان کی کچھ پالیسیوں سے ہٹ کر تھی‘ لہٰذا جن افسران کی پالیسیوں پر میں تنقید کرتا تھا اور وہ بھی میرا شو دیکھتے تھے تو خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ میں بھی اسی فارمولے پر چلتا رہا‘ طاقتور لوگوں کی دوستی اچھی نہ ہی دشمنی۔
وہیں جنرل مشرف کے سابق سیکرٹری محسن حفیظ سے ملاقات ہوئی۔ برسوں پہلے فون پر بات ہوئی تھی جو انہوں نے خبر کے حوالے سے وضاحت دینے کے لیے کی تھی۔ سابق سیکرٹری کامرس اقبال فرید سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ بھی شفا آئی ٹرسٹ کے بورڈ میں ہیں۔
جنرل رحمت خان‘ جو ان کے بہت پرانے دوست تھے‘ بتانے لگے: جنرل حامد جاوید اپنی ریپوٹیشن بارے بہت حساس تھے‘ ہم دونوں کا اکٹھے فوج میں کمیشن ہوا تھا‘ لیکن جنرل حامد جاوید کے والد تیار نہ تھے کہ ان کا بیٹا فوج میں جائے۔ اس پر جنرل رحمت کے والد خود چل کر جنرل حامد جاوید کے والد پاس گئے اور دیر تک سمجھاتے رہے کہ بچوں کو جانے دیں۔ بڑی مشکل سے مانے۔ قسمت دیکھیں وہی بیٹا‘ جس کا باپ ان کے فوج میں جانے کے خلاف تھا‘ اتنے اہم عہدے پر چھ سال فائز رہا اور ملک کے اہم فیصلوں میں شریک رہا۔
جنرل رحمت خان کے بیٹے عمر خان نے بتایا کہ ایک دفعہ حامد انکل کو سرکاری بلٹ پروف مرسڈیز دی گئی تو کسی نے کہا: اس کے تو ٹائر ہی بیس لاکھ روپے کے ہیں۔ یہ سن کر وہیں گیراج میں کھڑی کر دی کہ یار میں نے نہیں چلانی اتنی مہنگی گاڑی۔
جنازے کا انتظار کرتے یاد آیا‘ میری جنرل حامد جاوید سے پہلی ملاقات سابق سیکرٹری اطلاعات انور محمود کے ساتھ ہوئی تھی۔ انور محمود ان سے ملنے جا رہے تھے۔ مجھے کہا: رئوف چلو تمہیں جنرل صاحب سے ملاتے ہیں۔ میری جنرل مشرف دور کے بارے میں رائے اچھی نہ تھی۔ پھر جو کچھ میرے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف اور شاہین صہبائی کی فیملی کے ساتھ کیا گیا تھا‘ رہی سہی کسر اس سے پوری ہو گئی تھی۔ میرے اندر مشرف دور کے لوگوں سے ملنے کی خواہش نہیں رہی تھی۔ برسوں بعد جب شہباز شریف نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ جنرل مشرف سے بھی زیادہ بد تر سلوک کیا اور ان پر محض اس لیے مقدمات بنا دیے کہ وہ حمزہ اور سلمان شہباز کے دودھ‘ دہی اور انڈوں کے کاروبار میں ڈاکٹر صاحب کو رکاوٹ سمجھتے تھے تو مجھے جنرل مشرف شہباز شریف کے مقابلے میں فرشتہ لگنے لگ گئے تھے۔ جنرل مشرف ڈاکٹر ظفر الطاف کو نیب کے ہاتھوں گرفتار کرانے کی کوشش میں رہے لیکن بقول ہمارے کراچی کے میمن دوست اقبال دیوان کے، کراچی کی ایک خاتون وکیل ڈٹ گئی تھیں کہ انہوں نے ڈاکٹر ظفر الطاف پر بنائی گئی سب فائلیں پڑھ لی تھیں، اور ان پر کہیں دور دور تک مقدمہ نہیں بنتا تھا۔ نیب کی وکیل خاتون وہ فائلیں پڑھ کر ڈاکٹر ظفر الطاف سے اتنی متاثر ہوئی تھیں کہ جب اقبال دیوان نے چار سال قبل انہیں ڈاکٹر صاحب کی موت کی خبر دی تو وہ کتنی دیر تک روتی رہی تھیں۔
بعض لوگوں سے تعلق محسوس کرنے کے لیے آپ کو درجنوں ملاقاتوں یا برسوں کی رفاقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مجھے جنرل حامد جاوید سے مل کر بھی یہی لگا تھا۔ میرا خیال تھا وہ جنرل مشرف کے چھ سال چیف آف سٹاف رہے‘ اور ملک کے کرتا دھرتا تھے‘ لہٰذا ان میں بہت غرور ہو گا۔ بندے کو بندہ نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اکڑ ہو گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر بندہ اپنے کارنامے سنانے کا عادی ہو جاتا ہے۔ وہ بھی سنائیں گے اور اپنی عظمت کا رعب جھاڑیں گے۔
لیکن جنرل حامد سے ملا تو یہ سب سوچیں غلط نکلیں۔ ایک سادہ سا انسان، سادہ سے کپڑے پہنے، عام سے دفتر میں بیٹھا ہوا انسان ملا‘ جو پچھلے گیارہ سال سے ایک ایسے آئی ٹرسٹ ہسپتال کا سربراہ لگا ہوا تھا جہاں سے وہ تنخواہ بھی نہیں لے رہا تھا۔ میں نے انور محمود صاحب کی موجودگی میں کہا: آپ جیسے لوگ تو کنٹریکٹس لیتے ہیں،اپنی کمپنی کھڑی کر لیتے ہیں اور راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں۔ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں یا پھر شہریت لے لیتے ہیں‘ آپ چھ سال جنرل مشرف کے ساتھ اتنے بڑے عہدے پر رہے اور یہاں کہاں ایک ہسپتال میں غریبوں کی آنکھوں کا ٹھیکہ لے کر بیٹھ گئے ہیں۔
ہنس پڑے اور بولے: کبھی کبھار یہ سوال میں خود سے بھی کرتا ہوں لیکن یقین کریں ان گیارہ برسوں میں ایک دفعہ بھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ اب اس کام میں مزہ آتا ہے کہ ہم سب دوست جو اکثر ریٹائرڈ ہیں یہ چیریٹی ہسپتال چلا رہے ہیں۔ حامد جاوید جنرل جہانداد خان کی تعریفیں کرتے رہے کہ کیسے انہوں نے اپنا سب کچھ غریبوں کیلئے اس ہسپتال پر نچھاور کر دیا تھا۔
وہ گھنٹوں مجھے اور انور محمود کو ہسپتال بارے بتاتے رہے۔ اپنی ٹیم کے ڈاکٹروں کی تعریفیں کرتے رہے، آنکھوں کے عطیات پر بات کرتے رہے، آنکھوں کی بیماری پر طویل لیکچر سن کر میں بولا: جنرل صاحب آپ تو پورے ڈاکٹر بن گئے ہیں، آپ کو تو ایک اعزازی ڈگری لے لینی چاہیے۔ بڑا ہنسے اور بولے: ہاں بنتی تو ہے۔
جنرل حامد جاوید کچھ کھو سے گئے تھے اور مجھے کہا: عجیب سی بات ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے شاید جنرل مشرف سے میرا پرانا تعلق ہو گا‘ جس کی وجہ سے انہوں نے مجھے اپنا چیف آف سٹاف بنایا تھا‘ میرا جنرل مشرف سے اس پوسٹ پر لگنے سے پہلے تعلق نہ تھا اور نہ جان پہچان تھی۔ بس ایک دن کہا گیا‘ جنرل غلام محمد کے ایم ایم روڈ پر حادثے میں انتقال کے بعد وہ پوسٹ سنبھالنی ہے۔ چھ سال وہ جنرل مشرف کے ساتھ رہے اور ہر فیصلے میں شریک رہے؛ اگرچہ سیاسی فیصلوں میں ان کا رول نہ تھا۔ یہ کام جنرل مشرف اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر طارق عزیز سے کراتے تھے۔
جنرل مشرف کے ہونے والے ٹرائل کے حوالے سے جنرل حامد بہت ڈسٹرب تھے۔ ان کا خیال تھا‘ جنرل مشرف کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی۔ ان کا فیئر ٹرائل نہیں ہو رہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جو لوگ ان تمام فیصلوں میں شریک تھے انہیں اعلیٰ عہدے دے دیے گئے۔ قانون کے مطابق اگر آئین کی شقوں کی خلاف ورزی ہوئی تھی تو جنہوں نے اس میں مدد کی تھی انہیں بھی سزا ملنی چاہیے تھے۔ دوسرے‘ بغاوت کا مقدمہ وفاقی حکومت قائم کر سکتی ہے نہ کہ پرائیویٹ شہری۔
وہ جنرل مشرف دور کی بہت ساری باتیں بتاتے رہے۔ ایک مرحلے پر ان کی آنکھیں چھلک پڑیں تو میں نے کہا: آپ کا سٹار Leo تو نہیں؟ وہ حیران ہو کر بولے: آپ کو کیسے پتہ؟ میں نے مسکرا کر کہا: آپ کے سادہ انداز، حساس طبیعت اور جذباتی شخصیت سے۔ میں نے پوچھا: جنرل مشرف کے ساتھ گزرے برسوں میں کسی بات پر افسوس، پچھتاوا؟ گہری سانس لی اور بولے: مجھے دو ہزار سات میں استعفیٰ دے کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ جنرل مشرف غلط مشیروں میں گھر گئے تھے اور ان سے غلط فیصلے کرائے گئے جن کا نتیجہ تباہی کی شکل میں نکلا۔
طے ہوا تھا کہ جنرل مشرف دور کی یادیں قلم بند کریں گے۔ ان کے گھٹنے کا آپریشن ہونا تھا۔ کہنے لگے: بدھ کو دفتر آ جائو، جمعرات کو میں نے ہسپتال جانا ہے اب ایک ماہ بعد ملاقات ہو گئی۔ دو بجے کا وقت طے ہوا۔ مجھے اچانک ضروری کام پڑ گیا اور میں ملنے نہ جا سکا اور میسج کیا سر کل حاضر ہوں گا۔ ان کا فون آ گیا۔ کافی دیر بات ہوتی رہی۔ میں نے کہا: ہسپتال آپ سے ملنے آئوں گا۔ ہنس کر بولے: تین دن نہ آنا کیونکہ سنا ہے آپریشن کے بعد بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ بھگت لوں پھر آ جانا۔
تیسرے دن ان کے جنازے میں شریک تھا!