فاروق خان ایک خوبصورت پٹھان ہے۔برسوں پہلے اس کے آبائو اجداد‘ جن کا تعلق محسود شاہی خیل قبیلے سے تھا‘ نے جنوبی وزیرستان چھوڑ کر بنوں کا رخ کیا اور وہیں بس گئے۔فاروق خان کے دادا دلاسہ خان انگریزوں کے خلاف لڑے اور ایک دن انہیں بنوں جیل میں پھانسی دی گئی۔ آج بھی بنوں میں ایک چھوٹا سا پارک دلاسہ خان کی یاد میں واقع ہے۔ان کے دادا کے بھائی جابر خان 1947ء میں لڑنے کشمیر گئے اور وہیں شہید ہوئے۔
فاروق خان کے والد امیر جان ٹرک ڈرائیور تھے۔ انہیں لیہ اتنا پسند آیا کہ ایک دن اپنا ٹرک یہیں روکا اور فیصلہ کیا کہ اب یہیں رہیں گے۔ اس سے پہلے صدیوں سے افغانستان سے آنے والے جنگجوئوں کی نسلوں نے اس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ وقت کے ساتھ ان کی جنگجوانہ طبیعت سرائیکی دھرتی کی مٹھاس‘انکساری اور مروت میں ڈھلتی گئی۔تیسری نسل نے خود کو son of soil سمجھا اور وہ سرائیکی کلچر اور زبان میں ایسے ڈھلے کہ خود کو فخر سے سرائیکی پٹھان کہلواتے ہیں۔پشتو بولنا کب کا بھول چکے ہیں۔ اس وجہ سے خیبرپختونخوا کے پشتو سپیکنگ انہیں پشتون نہیں مانتے۔ پشتون کسی ایسے بندے کو پشتون ماننے کو تیار نہیں جو پشتو نہیں بولتا۔ برسوں پہلے لاہور میں ظہور احمد‘ رانا عبدالرحمن اور محمد سرور کے فکشن ہاؤس پر ایک پشتون لکھاری نے واقعہ سنایا کہ اس کا ایک پنجابی دوست ملنے آیا‘ وہ اردو میں بات کررہے تھے‘ اس کی ماں نے سنا تو بیٹے کو کہا: یہ کیسا مسلمان ہے جسے پشتو نہیں آتی ؟
ترین‘ خاکوانی‘ ککے زئی‘ صدوزئی‘ ملے زئی‘ نیازی اور دیگر کئی قبائل ان علاقوں میں صدیوں سے بستے آئے ہیں۔اس خطے پر انہوں نے حکومتیں بھی کیں۔ یہ سب پشتو بھول چکے ہیں لیکن فاروق خان اور اس کا خاندان پشتو کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔اس کے بچے بھی پشتو بولتے ہیں۔اگر میں فاروق خان کو کالج کے دنوں میں کسی پٹھان دوست کے ساتھ پشتو بولتے نہ سن لیتا تو کبھی یقین نہ کرتا کہ وہ پٹھان ہے۔میری چار سال سے فاروق خان سے دوستی تھی۔ میرے ساتھ اس نے ہمیشہ سرائیکی بولی اور ایسی بولی کہ کبھی شک نہ پڑا کہ یہ اس کی مادری زبان نہیں ۔اس طرح ملتان پریس کلب کاصدر شکیل انجم بھی خود نہ بتاتا کہ سرائیکی اس کی مادری زبان نہیں تو کبھی یقین نہ کرتا۔ وہ اردو سپیکنگ فیملی سے ہے لیکن سرائیکی ایسی بولتا ہے کہ آپ یقین نہ کریں۔
فاروق خان سے دوستی اس وقت ہوئی جب میں لیہ کالج ہوسٹل میں رہتا تھا اور شام کو قریب ایک خالی جگہ پر محلہ منظور آباد کے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے۔میں بھی کرکٹ کا دیوانہ تھا‘ شام کو ادھرچلا جاتا۔میری کوئی جان پہچان نہ تھی‘ میں انہیں کرکٹ کھیلتے دیکھتا رہا۔ فاروق خان کی مجھ پر نظر پڑی تو میرے قریب آیا اور بولا: کھیلنا ہے؟ یوں تین چار سال روزانہ وہاں کرکٹ کھیلی جس میں کئی ذاتی دوست بنے اور سب سے زیادہ دوستی فاروق خان سے ہوئی۔یہ دوست میرے ہوسٹل آتے اور کبھی کبھار وہیں میس سے کھانا کھاتے۔گپیں لگتیں۔گریجوایشن کے بعد میں ملتان یونیورسٹی انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا اور دھیرے دھیرے رابطہ کم ہوتا گیا۔پھر زندگی میں ایسا گم ہوا کہ بڑے عرصے تک پتہ نہ چلا کہ میں کہاں ہوں اور پرانے دوست کہاں ہیں۔ جب کچھ پائوں زمین پر جمے تو پرانے دوستوں کی تلاش شروع کی۔ لیہ کا فاروق خان کبھی یادوں سے نہ بھولا تھا۔اس نے ہومیو پیتھی میں ڈگری لے کر حکمت شروع کر دی تھی۔ فون نمبر ڈھونڈا اور اس سے رابطہ بحال ہوا۔اس نے مجھے ہومیوپیتھک چیزیں بھیجیں کہ سر پر بال اُگ آئیں گے۔ مجھے بڑی ہنسی آئی کہ فاروق خان کو میرے سر پر کم بال دیکھ کر اپنی حکمت یاد آگئی۔جب میں نے ٹی وی پر پروگرام شروع کیا تو فاروق خان نے اپنے بچوں کو بتایا کہ یہ میرا دوست تھا اور اس گھر جہاں آپ بیٹھے ہیں‘ آتا تھا۔ بچوں اور دیگر رشتہ داروں نے کہا: بابا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔فاروق خان نے یقین دلانے کی کوشش کی لیکن کوئی نہ مانا۔ایک دن جب میں لیہ اپنے گائوں گیا ہوا تھا تو صبح سویرے اٹھا اور سیدھا فاروق خان کے اس محلے گیا جہاں اس کا گھر تھا۔سوچا فاروق خان اور اس کے بچوں کو سرپرائز دوں۔ کافی دیر وہاں ان کے ساتھ گزارا۔ پھر فاروق خان کو اپنے کسی بچے کا مسئلہ ہوا تو اسے کہا کہ بچوں کو اسلام آباد لے کرآئو۔وہ اسلام آباد آئے۔ میرے پاس ٹھہرے۔ بچوں کو کچھ عیاشی کرائی۔سیر سپاٹا کرایا۔اپنے فیملی ڈاکٹر احمد سہیل کو چیک کرایا۔ فاروق کا بیٹا تندرست ہوگیا۔جس دن میں اس محلے کی گلی میں گیا تھا تو فاروق خان کو کہا تھا‘ یار ان بیس تیس برسوں میں اس گلی کی حالت نہیں بدلی۔اُس وقت بھی یہ گندی تھی‘ آج بھی وہی حالت ہے۔اُس وقت بھی سیوریج کا پانی بہتا تھا‘گلی سے گزرنا محال تھا۔ میں نے کہا ‘فاروق خان تم اور تمہارے بچے اس ماحول میں رہتے ہو‘ اگرچہ پورے ملک کی یہی حالت ہے لیکن یار کچھ تو صفائی ہونی چاہئے۔ ہم لوگ ویسے بھی گندگی اور بُو میں رہنے کے عادی ہیں‘ صفائی ہماری ترجیح نہیں۔ سرکاری ادارے کام کرنے کو تیار نہیں ۔ دوسرے‘ ہر شہر میں آبادی بڑھنے سے ایسی آبادیاں بن گئی ہیں جہاں مناسب بندوبست نہیں ہے‘ یوں ہر جگہ گندگی اور سیوریج کا بہتا پانی نظر آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ کونسل نے بھی اسے نیو نارمل سمجھ کر قبول کر لیا ہے‘ لہٰذا شہر گندگی سے بھر گئے ہیں۔خیر فاروق خان نے میری بات سنی اور کہا: لالے کیا کریں بہت دفعہ کوشش کی لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔ لوگ بھی نہیں سنتے جو یہاں رہتے ہیں اور اہلکار اور افسران بھی گھاس نہیں ڈالتے۔
جیسے میں نے فاروق خان کو اس کے گھر جا کر سرپرائز دیا تھا ویسا ہی سرپرائز اب فاروق خان نے مجھے دیا جب چند روز پہلے مجھے اس نے اپنے محلے کی اس گلی کی ویڈیو بھیجی جو تیس برسوں سے گندی تھی۔ کہنے لگا: اب اسے پہچان کر دکھائو۔ مجھے ویڈیو دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ یورپ کی کسی گلی کی تصویریں اور ویڈیوز ہیں۔ لیہ شہر کا ایک محلہ کیسے اتنا خوبصورت ہوسکتا ہے۔فاروق خان کہنے لگا کہ اس نے اس ایشو پر بہت کام کیا۔ لیہ کے مشیر وزیراعلیٰ رفاقت گیلانی سے درخواست کی۔ انہوں نے فنڈز سے گلی پختہ کرا دی۔ پھر محلے کے بچوں سے کہا کہ وہ اس گلی کی خوبصورتی کے لیے مل کر کام کریں۔ بچوں نے اپنے جیب خرچ سے پیسے نکال کر گلی کی صفائی اور خوبصورتی پر لگائے۔ فاروق خان سب سے پہلے اپنے بچوں کے ساتھ پھولوں کے گملے لایا اور اپنے گھر کے سامنے رکھ دیے۔ اس کی دیکھا دیکھی دیگر محلے داروں نے بھی اپنے گھروں کے آگے صفائی کر کے وہاں پھولوں کے گملے سجا دیے۔ ساتھ ہی محلے کی دیواروں پر سفید رنگ کر دیا گیا تاکہ وہاں چھائی بدنمائی کو چھپایا جائے۔ دیواروں کو بھی رنگین کیا گیا اور اب بچوں نے محلے کی صفائی کی نگرانی سنبھال لی۔ کوئی گند باہر نہیں پھینکے گا۔ ڈسٹ بِن رکھ دیے گئے کہ جس نے کوئی چیز پھینکنی ہے تو ان میں پھینکی جائے۔ اب بچے اس گلی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب پورا لیہ وہ گلی دیکھنے جاتا ہے۔ لیہ کے ڈپٹی کمشنر رفعت صاحب بھی اس گلی کا سن کر وہاں جا پہنچے۔اب یہ گلی ایک رول ماڈل بن چکی ہے۔ وہاں لوگ فوٹوگرافی کرنے جاتے ہیں۔مجھے لگتا ہے بہت جلد دلہا دلہنیں شادی کے منڈپ سے سیدھے اس گلی جایا کریں گے تاکہ برائیڈل فوٹوگرافی کرائیں۔
فاروق خان نے گلی کا سارا کنٹرول بچوں کو دے دیا ہے۔ وہی اب اس گلی کے مالک ہیں۔ یہ وہ نئی نسل ہے جنہوں نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس گندی گلی کو راتوں رات یورپ کی گلی میں بدل دیا ہے۔اب وہی بچے اس گلی کے کرتا دھرتا ہیں اور فخر سے سر اٹھائے پھرتے ہیں۔