کبھی پورے شہر سے دوستانہ تھا۔ لگتا تھا ہر دوسرا بندہ اپنا واقف کار ہے بلکہ شاید دوست ہے۔ شہر کی ہر محفل میں موجود ہوتے کہ وہاں سے خبریں بھی مل جاتی تھیں لیکن دھیرے دھیرے سب ختم ہوتا گیا۔
اب آدھا شہر مجھ سے نہیں ملنا چاہتا اور آدھے شہر سے میں نہیں ملنا چاہتا۔ وجہ یہ بنی کہ جس محفل میں گئے وہاں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور مل جاتا جو میری کسی خبر یا سکینڈل کا ڈسا ہوتا۔ وہ اپنا گلہ یا شکوہ لے کر بیٹھ جاتا۔ میزبان بے چارہ پریشان ہوتا۔ یا پھر جس میزبان کے گھر اکٹھے ہوئے اگلے دن اس کا فون آجاتا کہ یار فلاں بندے کو تم نے فون کر کے پوائنٹ آف ویو لیا ہے وہ کل رات ہمارے ساتھ تھا‘اپنا یار ہے‘ جانے دو یار‘ کیا ہوجائے گا اگر ایک خبر نہیں لگے گی۔یوں گھوڑا بن کر سوچا اور گھاس سے دوستی نہیں کی اور سب محفلیں چھوڑ دیں۔یہی حال بیوروکریسی میں ہوا کہ بہت کم افسران سے تعلق بنا۔ جن سے بنا‘ اچھا بنا۔ان کے جانے کے بعد تنگ بھی ہوا کہ ان سے گپ شپ یا میل ملاپ کا برسوں سے عادی ہوچکا تھا۔بیوروکریسی اور پولیس میں اچھے افسران کم ہی ملے لہٰذا میری فہرست بڑی محدود رہی۔آپ نے ان کالموں میں جن چند پولیس افسران کا نام بار بار پڑھا ہوگا وہ طارق کھوسہ اور میر زبیر محمود ہوں گے۔ بیوروکریسی میں ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا بندہ پھر نہ ملا۔ ان کے بعد احمد نواز سکھیرا کو مختلف افسر پایا۔ایک دفعہ طارق عباس قریشی صاحب نے پرویز مشرف کے دور میں میر زبیر محمود کا واقعہ سنایا کہ جب وہ ایس ایس پی لاہور تھے‘ یقین نہ آیا کہ کوئی افسر اتنا دلیر اور اپنے پیشے کے ساتھ اتنا ایماندار بھی ہوسکتا ہے۔سہیل حیبب تاجک بھی پولیس افسران کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے قبیلے کے نام اور فورس کی عزت کے لیے کام کرتے ہیں۔میری ان سے شاید پچھلے دس برسوں میں دو ملاقاتیں ہوئی ہوں گی‘کبھی کبھار فون یا میسج پر رابطہ ہوجاتا تھا‘اتفاقاً پچھلے دنوں ایک کیفے پر ملاقات ہوگئی۔وہ ڈیرہ غازی خان اور پنڈی میں آر پی او رہے اور کشمیر میں آئی جی لگے۔ پنجاب کے اہم اضلاع میں پوسٹنگ رہی۔ان کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے‘ نسلاً تاجک ہیں لیکن اب صدیوں سے خیبرپختونخوا میں سیٹل ہونے کی وجہ سے مادری زبان پشتو ہے۔ پوچھا تو بتانے لگے کہ صدیوں پہلے ان کے آبائو اجداد سینٹرل ایشیاسے تبلیغ کی غرض سے یہاں آئے تھے اور یہیں ٹک گئے۔وہ نسلا ً تاجک ضرور ہیں لیکن اب پختون کلچر اور دھرتی میں رچ بس گئے ہیں۔ عموما ًسندھ‘ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کے لوگ یا افسران پنجابی بیوروکریسی یا پنجاب کے افسران سے نالاں رہتے ہیں لیکن مجھے حیرانی ہوئی جب تاجک صاحب نے بتایا کہ انہیں جو عزت اور شناخت پنجاب میں ملی یا پنجاب کے افسران نے دی وہ خیبرپختونخوا میں نہ مل سکی۔ میں حیران ہوا تو کہنے لگے: دراصل خیبرپختونخوا میں آپ کام کرتے ہیں یا محنت کرتے ہیں تو بھی آپ کے کام کی تعریف یا شناخت نہیں ملتی‘ لیکن پنجاب میں جب انہوں نے وہی محنت کی جو انہوں نے خیبرپختونخوا میں کی تھی تو انہیں پنجاب کے پولیس افسران نے سر پر بٹھایا جن میں وہ دو نام بڑی محبت اور عقیدت سے لیتے ہیں۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق پرویز اور دوسرے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ ہیں۔وہ ان دونوں افسران کا بار بار ذکر کریں گے کہ کیسے انہوں نے ان کے کام کی وجہ سے سر پر بٹھایا۔ یہ بات وہ خیبرپختونخوا میں نہیں سوچ سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں اگر آپ کام کرتے ہیں تو آپ کی محنت اور ایمانداری کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ آپ کو عزت بھی ملتی ہے۔
مجھے پولیس افسران سے ہمیشہ کہانیاں سننے کا شوق رہا ہے کہ یہ نگر نگر پھرتے ہیں‘ان کے پاس ہر علاقے کے لوگوں کی عادات‘ رہن سہن‘ کلچرل اور رویوں کے حوالے سے اہم آبزرویشن ہوتی ہیں۔میں ان سے پوچھنے لگا کہ انہوں نے مختلف علاقوں میں سرو کیا‘ان لوگوں کو کیسے پایا؟سہیل تاجک نے کہا: وہ ڈیرہ غازی خان رہے تو انہیں بلوچ مزاج کی سمجھ آئی اور اس مزاج میں خود کو ڈھالا۔ وہ بولے: بلوچ کی کمزوری ہے کہ وہ آپ کے پاس بکری چوری کا مقدمہ بھی لے کر آیا ہے تو آپ نے اس کی بات پوری سننی ہے۔اسے بکری سے زیادہ اپنا تفصیلی حال احوال سنانا اہم لگتا ہے۔ اگر آپ نے اس کی بات پورے دھیان اور توجہ سے سن لی تو سمجھ لیں آپ نے اس بلوچ کا کام کر دیا ہے۔ اب بکری ملے یا نہ ملے پروا نہیں۔کہنے لگے: ملتان کے لوگ زیادہ تر سینٹرل ایشیا‘ عرب‘ افغانستان اوردیگر علاقوں سے یہاں شفٹ ہوئے لہٰذا ان کا مزاج مختلف ہے۔ان میں ایک رکھ رکھائو ہے جو آپ کو اور کہیں نہیں ملتا۔ان کے نزدیک بھی کام سے زیادہ پولیس افسران کا ان سے دفتر میں عزت سے پیش آنا اہم ہے۔سینٹرل پنجاب کا بتانے لگے کہ یہاں پولیس کے کسی افسر کی پوسٹنگ مشکل سمجھ جاتی ہے۔ وجہ یہاں مارشل ریسز ہیں‘ جہاں جنگ و جدل اور لڑائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہاں آپ کو سرائیکی علاقوں یا جنوبی پنجاب کے برعکس Aggressive Policing کرنی پڑتی ہے ورنہ آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پولیس فورس کے اپنے اندر بہت سے عناصر بھی ایسے ہیں جن کے ساتھ آپ کو سختی کرنی پڑتی ہے تاکہ عوام ان سے بچے رہیں۔میں نے پوچھا کہ آپ پنڈی میں بھی آر پی او رہے یہاں کے لوگوں کو کیسا پایا؟ مسکرا کر بولے :رقبے کے لحاظ سے پنڈی ڈویژن کو دیکھا جائے تو تقریباً اسرائیل کے برابر ہے۔ یہاں کے لوگوں کا رویہ مکس ہے۔ اچھے لوگ ہیں لیکن پھر بھی یہاں Carrot and stick کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن سرائیکی علاقوں میں آپ کو صرف carrot کی ضرورت پیش آتی ہے‘ سٹک کم ہی چلتی ہے۔میں نے پوچھا:اور کشمیر کے بارے کیا خیال ہے‘ آپ وہاں آئی جی رہے‘وہاں کے لوگ کیسے تھے؟مسکرا کر بولے :کشمیر کے لوگ بڑے اچھے ہیں‘ وہاں کرائم بہت کم ہے لیکن کشمیر میں جو باہر سے بیوروکریسی گئی اس نے کشمیر کے وسائل پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ نوکری کشمیر میں کی اور گھر انہوں نے اسلام آباد میں خریدے۔ کشمیر کا پچاس فیصد شیئر تو بیوروکریسی لے گئی۔ کہنے لگے: کشمیر میں زیادہ مسائل کی وجہ سول disputes ہیں جو عدالتوں سے ہوتے ہوتے تھانے تک شفٹ ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں ایک کام کیا کہ ان disputes کو تھانے کی سطح پر حل کرانا شروع کیا جس سے بڑا فرق پڑا۔اوپر سے انہوں نے ہر تھانے میں کیمرے لگوا دیے۔ کئی دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ کوئی بندہ تھانے آیا تو وہ آئی جی آفس میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے‘ تو انہوں نے وہیں تھانے میں ویڈیو پر ہی اس سے اس کا مسئلہ پوچھنا شروع کر دیا جس پر وہ حیران ہوا کہ واقعی آئی جی اس سے بات کررہا تھا۔ یوں جہاں عوام میں پولیس کا امیج بہتر ہوا وہیں پولیس اہلکار اور افسران خصوصا ًایس ایچ او بہت ایکٹو ہوئے کہ ان کے اوپر کیمرہ لگا ہوا ہے اوردور بیٹھ کر ان کا آئی جی ان کو دیکھ رہا ہے۔
سہیل تاجک ان پولیس افسران میں سے ہیں جو کتاب پڑھتے ہیں لہٰذا وہ مجھے بکس ریکمنڈ بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ پولیس میں موجود بہت سی خرابیوں کو مانتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں پولیس اور بیوروکریسی میں زوال آیا ہے۔ پولیس کی وردی پہن کر اس کی حفاظت اورعزت کمانا ہر کسی کی بس کی بات نہیں لیکن طارق پرویز‘ طارق کھوسہ اور میر زبیرمحمود جیسے افسران نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ان کی آنکھوں میں جو عقیدت طارق پرویز اور طارق کھوسہ کے لیے نظر آئی اس پران دونوں افسران پر رشک آیاجنہیں ریٹائر ہوئے برسوں گزر گئے لیکن وہ آج بھی باصلاحیت پولیس افسران کے رول ماڈل ہیں۔وہی بات کہ عزت کمائی جاتی ہے‘ بھیک میں نہیں ملتی۔