"RKC" (space) message & send to 7575

ظالم عوام‘ مظلوم حکمران

دو ڈھائی ہزار سال قبل یہ بات یونانیوں نے طے کر دی تھی کہ ٹریجڈی وہی ہوتی ہے جو کسی بادشاہ‘ شہزادے یا وزیر کیساتھ پیش آئے۔ عام آدمی ذلیل ہوتا رہے‘ پھانسی لگ جائے‘ تباہ ہو جائے‘ اس کی موت پر ایک آنسو بھی کوئی نہیں بہائے گا۔ سب اسے تقدیر کا لکھا سمجھ لیں یا ہمدردی کے چند الفاظ بول دیں۔ لیکن اگر کسی بڑے حکمران یا بادشاہ یا شہزادے کیساتھ معمولی نوعیت کا بھی کوئی برا واقعہ ہو جائے تو وہی لوگ رو رو کر اور دکھ کا اظہار کرکے آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ اس ایشو پر کافی بحث ہوتی رہی ہے کہ ایک عام انسان اپنے جیسے انسان کے دکھ سے زیادہ اپنے سے امیر انسان اور حکمرانوں کا دکھ زیادہ کیوں محسوس کرتا ہے۔ایک تو عام انسانوں کے اندر ہمدردی بہت ہوتی ہے۔ اپنے جیسے لوگوں کی زندگی کی مشکلات کے وہ عادی ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اور امیر لوگ بہت اچھی زندگی گزارتے ہیں لہٰذا ان کے برے دنوں کا سوچ کر انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ وہ بے چارے کیسے یہ برے دن گزاریں گے۔ دوسرے ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ایسے بڑے بڑے لوگوں کیساتھ بھی اگر کچھ برا ہو سکتا ہے تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ وہ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں لہٰذا جہاں ان کے لیے دل میں ہمدردی کی لہریں اٹھتی ہیں وہیں وہ اندر سے ڈر بھی جاتے ہیں۔ کسی بڑے آدمی کا زوال انہیں خوفزدہ کر دیتا ہے۔
اس انسانی نفسیات کا فائدہ ہمیشہ ان بڑے لوگوں نے اٹھایا ہے جو ان عام لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ عام لوگ اپنے جیسے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو اتنا محسوس نہیں کرتے جتنا وہ ان کیساتھ ہونے والی معمولی زیادتی پر ردعمل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف‘ آصف زرداری‘ عمران خان سبھی اس انسانی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے چلے آئے ہیں۔ آپ نوٹ کریں کہ ہر سیاسی لیڈر اداروں کی طرف سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا رولا ڈالے رکھے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب وہ خود حکمران بنتا ہے تو ان اداروں کے افسر بھی خود لگاتا ہے اور انہیں اپنے مخالفین کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ تمام وہ حربے استعمال کرتا ہے جو کبھی اس کے خلاف استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ باز نہیں آتے۔ حکمرانی کیلئے یہ سب جان دے دیں گے‘ پھانسی لگ جائیں گے‘ جلاوطنی اختیار کر لیں گے‘ اڈیالہ جیل جا بیٹھیں گے لیکن یہ راستہ ترک نہیں کریں گے۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر اس راہ میں مشکلات ہیں‘ تکلیفیں ہیں‘ جن کا رونا ہمیشہ وہ روتے ہیں تو پھر اس مشکل راستے کا انتخاب ہی کیوں کرتے ہیں؟ اگر وہ اپنی مرضی سے اس فیلڈ یا پروفیشن میں آتے ہیں اور انہیں اچھی طرح علم ہے کہ یہاں کیا کچھ ہوتا ہے تو پھر شکایت اور گلہ کس بات کا؟ اگر میں صحافی بنا ہوں تو مجھے کوئی گھر سے بلانے نہیں گیا تھا‘ میں اپنی مرضی سے اس پروفیشن میں آیا اور مجھے اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ یہی بات سیاستدانوں بارے کہی جا سکتی ہے کہ کس نے انہیں کہا تھا کہ وہ آئیں اور عوام کو لیڈ کریں؟ انہیں دوسروں پر حکمرانی کا شوق سیاست میں لے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر میدان میں اُترے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کی قیادت جنیوا کے بینکوں میں مبینہ طور پر 60ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کررہی تھی تو وہ عوام کی بھلائی کر رہی تھی‘ نواز شریف کے بچوں نے دنیا کے پانچ براعظموں میں مبینہ جائیدادیں عوام کا بھلا سوچ کر بنائیں‘ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے پر سولہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے‘ کیا یہ سب عوامی مفاد میں ہو رہا تھا‘ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے لوگ ایم ایم اے کی حکومت میں مبینہ طور پرزمینیں الاٹ کرا رہے تھے تو کیا یہ عوامی مفاد میں تھا‘ عمران خان جب کروڑوں کی گھڑی بیچ کر یا القادر ٹرسٹ کے نام پر پیسہ کما رہے تھے یا عثمان بزدار‘ مانیکا اور گجر خاندان مال بنا رہے تھے تو ان کے دل میں عوامی خدمت کا جذبہ تھا؟
سیاست اور سیاستدان کیسے کرپٹ ہوئے‘ اس سے متعلق ایک اور کہانی سن لیں۔ کل پرسوں عدیل ملک سے ملاقات ہوئی۔ عدیل ملک ہمارے دوست طاہر ملک اور سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے بھائی ہیں‘ آکسفورڈ میں پڑھاتے ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر شاہد صدیقی صاحب بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ عدیل ملک کافی ذہین انسان ہیں اور پاکستانی معیشت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ وہ ڈاکٹر محبوب الحق سے بہت متاثر تھے۔ پروفیسر شاہد صدیقی امرتیہ سین بارے بتانے لگے۔ بات ایڈورڈ سعید سے ہوتی ہوئی اقبال احمد اور چومسکی تک جا پہنچی۔ عدیل ملک نے ڈاکٹر محبوب الحق پر اچھی گفتگو کی۔ میں نے کہا کہ باقی آپ کی سب باتیں ڈاکٹر صاحب بارے ٹھیک ہوں گی لیکن ڈاکٹر صاحب ایک ایسا کام کر گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں کرپشن داخل ہوئی۔ 1985ء سے پہلے سیاست اور سیاستدانوں بارے مالی کرپشن کی باتیں کم سننے کو نہیں ملتی تھیں۔ آپ نوٹ کریں کہ ماضی میں سیاستدانوں پر کرپشن کے مقدمات درج نہیں ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ بھینس چوری کے مقدمات مخالفوں پر درج ہوتے تھے۔ جو زمیندار سیاست کرتے تھے تو ان کا مقصد اتنا ہوتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ان کے ڈیرے پر کھانا کھائے یا پولیس افسر سے ان کی دعا سلام ہو۔ وہ زمینیں بیچ کر سیاست کرتے تھے لیکن جب محبوب الحق نے پہلی دفعہ ایم این ایز کو ترقیاتی سکیموں کے نام پر بجٹ دینا شروع کیا تو سیاست میں کرپشن داخل ہوئی۔ 1985ء کے الیکشن ویسے بھی غیرجماعتی تھے۔ اصلی اور نسلی سیاستدانوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا‘ یوں نئے لوگ نیچے سے ابھرے جنہیں ترقیاتی فنڈز کی مد میں پیسہ ملنے لگا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنرز کیساتھ مل کر پسند کے کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دلوا کر اس میں کمیشن کھانا شروع کر دیا اور یوں سیاست کرپشن اور پیسہ بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ یوں ان نئے سیاسی لوگوں کو لگا کہ سیاست کا مطلب ہی پیسہ کمانا ہے۔ آج وہی سیاسی نسل ہمارے اوپر حکمران ہے۔ اس بندر بانٹ کے بعد ہر بندہ سیاستدان بننے کی کوشش میں لگ گیا۔ سیاستدان بننے کا مطلب اب پاور ملنے کے ساتھ ساتھ تھانہ کچہری میں اثرو رسوخ‘ مرضی کا ڈی سی‘ ڈی پی او‘ ٹرانسفر پوسٹنگ اور پھر کروڑوں کا ترقیاتی فنڈ ہے۔ پھر ٹھیکیداروں نے خود ہی سیاستدان بننے کا فیصلہ کر لیا۔ پیسہ لگاؤ اور الیکشن جیتو۔ سینیٹ ٹکٹ خرید لو اور اپنی مرضی کی پالیسی بناؤ۔ مرضی کے بیوروکریٹ لگواؤ اور اپنے کام نکلواؤ۔ پیسہ کمانا ہی سیاست کا مقصد ٹھہرا۔ یقین نہیں آتا تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں جا کر دیکھیں‘ سینیٹرز کی اکثریت ٹھیکیداروں کی ہے‘ وہ اُن کمیٹیوں کی چیئرمین شپ لیتے ہیں جو ان کے کاروبار کو ریگولیٹ کرتی ہے۔
یہ روش صرف سینیٹ تک محدود نہیں‘ قومی اسمبلی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک دوڑ لگ گئی کہ ہر حال میں اسمبلی پہنچنا ہے۔ طاقت اور اثر و رسوخ رہا ایک طرف‘ اب انہیں پیسہ بھی چاہیے۔ چند کروڑ لگا کر اربوں کماؤ۔ پکڑے جاؤ تو سیاسی انتقام کا نعرہ مارو۔ مقدمہ درج ہو تو کہہ دو کہ حکومت سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ گرفتار ہو جاؤ تو مہنگا وکیل کر لو۔ صحافیوں سے دوستیاں اور تعلقات بھی کام آتے ہیں جو ایسی کسی صورت میں دن رات آپ کو مظلوم ثابت کرتے رہتے ہیں۔ عوام پہلے ہی اپنے اپنے پسندیدہ لٹیروں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ماتم کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کا لیڈر کیوں پکڑا گیا۔ ظلم ہورہا ہے۔ یوں عوام مل کر اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں کو سر پر بٹھا کر دوبارہ اقتدار میں لے آتے ہیں اور وہ سب لوٹ مار وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔ ان لٹیروں کی عیاشیاں ہیں کہ جن لوگوں کو وہ لوٹتے ہیں وہی انہیں مظلوم سمجھ کر اپنے سروں پر بٹھا کر دوبارہ وزیراعظم ہاؤس چھوڑ جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں