یہ بات طے ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف الگ الگ مزاج کے انسان اور سیاستدان ہیں۔ 2006-07ء میں‘ جب وہ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ ان دونوں سے میری کافی ملاقاتیں رہیں۔ جب پہلی دفعہ نواز شریف کے ترجمان نادر چودھری نے ڈیوک سٹریٹ دفتر میں ان سے ملاقات کرائی تو اس ملاقات میں شہباز شریف بھی موجود تھے۔ اس سے پہلے میں نواز شریف سے جنوری 2005ء میں جدہ میں بھی ملاقات کر چکا تھا جس کی سنسنی خیز تفصیلات میری کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں موجود ہیں۔
لندن میں ہونے والی ملاقات میں نواز شریف پاکستان کے حالات جاننے کے خواہاں تھے کہ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں پاکستان میں کیا چل رہا ہے۔ جب میں نے اپنا تجزیہ دینا شروع کیا تو درمیان میں دو تین دفعہ شہباز شریف نے لقمہ دیا لیکن نواز شریف کو یہ بات پسند نہ آئی۔ بالآخرانہوں نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہہ یا کہ شہباز صاحب! آپ کو روزانہ سنتا رہتا ہوں‘ مجھے ذرا رؤف صاحب سے پاکستان کے کچھ حالات سننے دیں۔ شہباز شریف کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور وہ کمرے سے اُٹھ کر چلے گئے۔خیر‘ جیسے کہا کہ دونوں کی شخصیات اور مزاج میں کافی فرق ہے‘ اس کے باوجود جتنا احترام شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کا کرتے ہیں وہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر خاندان ابھی تک جڑا ہوا ہے تو اس میں شہباز شریف کا بڑا اہم کردار ہے‘ ورنہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان جن اختلافات کی خبریں آتی رہیں‘ اس کے بعد شاید یہ خاندان اکٹھا نہ رہ پاتا۔ پارٹی قیادت اور اقتدار بڑی ظالم چیز ہے۔ یہاں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا۔
دونوں بھائی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اُن کی بھلائی اسی میں ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ دونوں خاندان اکٹھے رہیں‘ ورنہ بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو والا حشربھی ہو سکتا ہے۔ وہ بہن بھائی آپس میں اقتدار کو نہ بانٹ سکے اور دونوں کا افسوسناک انجام ہمارے سامنے ہے۔ شریف برادران نے ہمیشہ اقتدار کو آپس میں بانٹ کر رکھا۔ ایک بھائی وزیراعظم بنا تو دوسرا وزیراعلیٰ۔ اگر چچا وزیراعظم تو بھتیجی وزیراعلیٰ۔ یا پھر باپ شہباز شریف اگر وزیراعظم تو بیٹا حمزہ شہباز وزیراعلیٰ۔ ساتھ میں سنگت کیلئے سمدھی بھی موجود ہیں۔ یوں سب کچھ اس خاندان نے اپنے پاس ہی رکھا لہٰذا لڑائی جھگڑے کا معاملہ کم ہی درپیش آیا۔ یہ ان کی کاروباری سمجھداری تھی کہ اپنا نقصان نہیں کرنا اور سیاست میں تو نقصان یہ خاندان افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔
نواز شریف مختلف مزاج کے وزیراعظم تھے‘ شہباز شریف کا سٹائل بالکل اُلٹ ہے۔ اس لیے تین ماہ بعد ہی شہباز شریف نے کھلے عام ٹی وی پر اپنی کابینہ کے وزیروں کو کھری کھری سنا دی ہیں کہ وہ کام نہیں کر رہے‘ مطلب وہ نالائق ہیں۔ اور خبردار کیا ہے کہ اس طرح کام نہیں چلے گا۔ شہباز شریف پنجاب ماڈل پر فیڈرل حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی اپنے وزیروں سے فرسٹریشن کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ پنجاب میں جو بیورو کریسی انہوں نے رکھی ہوئی تھی وہ اب انہیں میسر نہیں۔ ان کے قابلِ اعتماد بیوروکریٹس یا تو ریٹائر ہو گئے ہیں یا پھر اُن میں وہ بات نہیں رہی۔حکومتوں کو وزیر نہیں‘ بیورو کریسی چلاتی ہے۔ وزیراعظم خود سے پرفارم نہیں کرتا‘ سب معاملات اس کا پرنسپل سیکرٹری چلاتا ہے جیسے امریکہ میں امریکی صدر کو اس کا چیف آف سٹاف چلاتا ہے۔ اس لیے ہر سمجھدار وزیراعظم کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا پرنسپل سیکرٹری قابل رکھے‘ ایماندار نہیں۔ وہ دور گزر گئے جب قابلیت اور ایماندار افسران یا پرنسپل سیکرٹریز اچھے لگتے تھے۔ اب صرف قابلیت درکار ہے ایمانداری نہیں‘ لیکن اب قابل افسر بھی میسر نہیں رہے۔اگر یقین نہیں آتا تو عثمان بزدار کے آخری ایک دو سالوں کے دو‘ تین پرنسپل سیکرٹریز کو ہی دیکھ لیں۔ ایک کے بارے میں تو خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ اس نے دو بیٹیوں کی شادی پر دو ارب روپے سلامی اکٹھی کر لی تھی۔ دو ارب اکٹھا کرنے کے بعد وہ گریڈ 22میں فیڈرل سیکرٹری بھی لگ گیا تھا۔ اب تو خیر بیورو کریٹس کی وہ کلاس بھی نہیں رہی۔ اب تو ایوریج سے بھی نیچے کی لاٹ آ گئی ہے۔ بعض فیڈرل سیکرٹریز سے مل کر لگتا ہے کہ وزارت کا کلرک ترقی کر کے سسٹم کی مہربانی کی وجہ سے فیڈرل سیکرٹری لگ گیا ہے۔ اسی لیے اب شہباز شریف کو کام کرنے والے وزیر درکار ہیں۔
نواز شریف کابینہ کے اجلاس تک نہیں بلاتے تھے لہٰذا انہیں وزیروں کی پرفارمنس سے کوئی غرض نہ تھی۔ کابینہ کے اجلاس تو رہے ایک طرف‘ نواز شریف ایک ایک سال تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں بھی نہیں جاتے تھے۔ ان کی حکومت اسحاق ڈار چلاتے تھے۔ یوں نواز شریف کو کبھی اپنے وزیروں سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی‘ نہ انہوں نے کبھی کابینہ اجلاسوں سے‘ شہباز شریف کی طرح طویل خطاب کرکے کابینہ پر رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ اس لیے سب لوگ نواز شریف کی ملنساری کی ہمیشہ تعریف کرتے ہیں‘ جبکہ شہباز شریف مختلف طریقے سے کام چلا رہے ہیں۔ جب تک ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز نہ چلے کہ وزیراعظم برہم ہو گئے‘ افسران کو ڈانٹ دیا‘ شدید غصے کا اظہار کیا‘ چھٹی کرانے کی دھمکی دے دی وغیرہ وغیرہ‘ وہ اپنی کارکردگی سے خوش نہیں ہوتے۔ اس لیے روزانہ ان کی میڈیا ٹیم ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا پر اور کچھ چلوائے یا نہ چلوائے‘ یہ خبر ضرور چلواتی ہے کہ فلاں اجلاس میں وزیراعظم برہم ہو گئے‘ افسران پر برس پڑے‘ وزیروں کو وارننگ دے دی۔ ان کے خیال میں اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وزیراعظم ملک اور قوم کیلئے کتنے پریشان ہیں‘ وہ راتوں رات ملک کی ترقی چاہتے ہیں اس لیے کسی نالائق کو برداشت نہیں کریں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن وزیروں اور افسران پر وہ برہم ہورہے ہوتے ہیں وہ سب ان کے لاڈلے ہیں۔ اس دفعہ تو کابینہ کی ساری ٹیم ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی یا دیگر پارٹیوں کے وزیر نہیں‘ جن پر ان کا پی ڈی ایم حکومت میں زور نہیں چلتا تھا۔ اُس وقت بہانہ تھا کہ یہ مخلوط حکومت ہے لہٰذا وہ پرفارم نہیں کر پا رہے‘ اسی لیے وہ دو تہائی سیٹیں مانگتے تھے تاکہ اپنے وزیر اور اپنی حکومت ہو اور وہ کسی سے بلیک میل نہ ہوں۔ اب تو سب اُن کے اپنے وزیر‘ اپنے بندے ہیں‘ پھر وہ پرفارم کیوں نہیں کررہے؟ کہاں گئی وہ قابلیت‘ کہاں گئے وہ دعوے کہ ہم تجربہ کار ہیں۔ عمران خان کے خلاف ان کا سب سے بڑا نعرہ یہی تھا کہ وہ ناتجربہ کار ہے‘ ملک کو ڈبو دے گا‘ اسے کیا پتا کہ ملک کیسے چلانا ہے کیونکہ اس نے تو کبھی زندگی میں ایک یونین کونسل تک نہیں چلائی‘ نہ ہاؤس کی پارلیمانی کمیٹی۔ اسی لیے اُس وقت کہا جاتا تھا کہ حکومت نواز شریف کی تجربہ کار ٹیم کو دیں۔ جب عمران خان اپنے دورِ حکومت میں عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر ر ہے تھے اور مسائل بڑھ رہے تھے تو اُس وقت بڑے فخر سے نواز لیگ کہتی تھی کہ ہم نا کہتے تھے کہ یہ ناتجربہ کار ملک کو ڈبو دیں گے۔ آخرکار باجوہ صاحب مان گئے کہ ''تجربہ کاروں‘‘ کو ہی واپس لایا جائے۔ یوں اناڑی سے جان چھڑا کر تجربہ کار سیاسی مستری لائے گئے۔ پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں وہ کچھ نہ کر سکے تو نئے الیکشن کے بعد پھر اُنہی کو حکومت دے دی گئی کہ آپ ہی ملک چلائیں۔ اب وہ تجربہ کار کہہ رہے ہیں کہ ان کی ٹیم نالائق ہے‘ وزیر کام نہیں کر رہے‘ وہ سہل پسند ہو گئے ہیں۔ وہ سہل پسند کیسے نہ ہوں جب انہیں علم ہے کہ نالائقی کے باوجود انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہیں ہارنے کے باوجود جتوا دیا جائے گا۔ اگر موجودہ وزیر نالائق ہیں تو جو اُن کی جگہ لیں گے وہ کون سے لائق ہیں؟ لائق ہوتے تو ان سے پہلے وزیر نہ بنے ہوتے۔ اس دفعہ کارکردگی کا مقابلہ لائق وزیروں میں نہیں بلکہ نالائقوں میں ہے۔