"RKC" (space) message & send to 7575

اس زرعی گروتھ کو چاٹیں

بچپن میں جب ہوش سنبھالا اور سکول گیا تو ایک ہی جملہ بار بار سنا اور آج تک سن رہا ہوں کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگرچہ میں کسان کا بیٹا ہوں لیکن مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ زراعت کیسے ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہو سکتی ہے۔ نہ اُس دور میں استادوں نے ہمیں سمجھایا‘ نہ ہم نے خود سمجھنے کی کوشش کی۔ بس امتحان پاس کرنے کیلئے زراعت کی اہمیت اور معیشت میں اس کے کردار جیسے موضوعات درسی کتب سے یاد کرکے لکھ آتے تھے۔
مجھے اس بات کی اصل سمجھ اُس وقت آنا شروع ہوئی جب میں نے صحافت کے شعبے میں قدم رکھا اور اسلام آباد میں 1998ء میں ہمارے ڈان کے بیوروچیف ضیاء الدین صاحب نے مجھے زراعت کی بیٹ دی۔ مجھ سے پہلے زراعت کو کور کرنے کیلئے کوئی رپورٹر نہیں تھا۔ میرے کچھ ساتھیوں کا خیال تھا کہ مجھے یہ بیٹ بس ایسی ہی دے دی گئی ہے‘ اس میں خبریں کہاں سے آئیں گی اور کس کو ان خبروں سے دلچسپی ہو گی۔ ان کی بات میں بھی وزن تھا کہ اسلام آباد 24کلو میٹر رقبے‘ اور افسروں اور حکمرانوں کا شہر ہے‘ یہاں کون زراعت کے مسائل بارے پڑھنا چاہے گا۔ اور سب سے بڑھ کر بندہ زراعت کے مسائل کہاں سے ڈھونڈ کر لائے اور مسائل بھی اتنے اہم اور دلچسپ ہوں کہ جو کسی بڑے انگریزی اخبار میں چھپ سکیں۔ میں دو حوالوں سے خوش قسمت رہا۔ ایک اُس وقت ڈاکٹر ظفر الطاف وفاقی سیکرٹری زراعت تھے اور دوسرے ڈان کے کراچی میں بزنس سیکشن کے انچارج جاوید بخاری صاحب تھے۔ میں نے ان دونوں سے بہت سیکھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اور جاوید بخاری میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید میں مشکلات کا شکار رہتا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا کھلا ڈُلا‘ پڑھا لکھا اور قابل بیوروکریٹ شاید ہی پاکستان میں دوبارہ پیدا ہو۔ وہ علم کا سمندر تھے‘ آپ اُن سے چاہے زراعت‘ کسانوں اور دیہات کے مسائل پر بات کرتے‘ یا کرکٹ پر بات کرتے‘ ایسے لگتا کہ ان سے زیادہ کسی کو کھیل اور کھلاڑیوں کا علم نہ ہو گا۔ لٹریچر‘ تاریخ‘ بیوروکریسی‘ گورننس اور حکمرانوں پر بات کرنا تو ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک ایسا بہادر انسان جو حکمرانوں کے سامنے بھی بول پڑتا تھا اور ہمیشہ کسانوں کیلئے لڑا اور اس کی سزا انہوں نے نواز شریف‘ پرویز مشرف‘ شوکت عزیز اور عبدالرزاق داؤد کے ہاتھوں بھگتی لیکن وہ ہمیشہ کسانوں کیلئے آواز اٹھاتے رہے۔ کئی دفعہ او ایس ڈی بنائے گئے لیکن سب حکومتوں کو علم تھا کہ ان کے بغیر محکمہ زراعت نہیں چل سکتا‘ لہٰذا انہیں دوبارہ سیکرٹری لگایا گیا تو انہوں نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں سے انہیں گھر بھیجا گیا تھا۔ ای سی سی کے ہر اجلاس میں شوکت عزیز کیساتھ ان کے پھڈے ہوتے تھے جب وہ کسانوں کے بارے سمریوں پر اعتراض کرتے۔ وہ شوکت عزیز کو اکثر یہ طعنہ مارتے کہ آپ نے کبھی کسی گاؤں میں ایک رات گزاری ہے یا کسی کسان کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے جو گرمی سردی میں محنت کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر یہ ملک چل رہا ہے۔
کون سا وزیراعظم یا وزیر ایسا ہوگا جس سے ان کا کسانوں کی حالتِ زار اور انہیں رعایتیں دلوانے کے مسئلے پر پھڈا نہ ہوا ہو۔ ایک دفعہ پوچھا کہ اگر دوبارہ موقع ملے تو کس وزیراعظم کے ساتھ کام کرنا پسند کریں گے؟ بلاجھجھک بولے: بینظیر بھٹو کے ساتھ۔ میں نے پوچھا: نواز شریف اور مشرف؟ بولے: نہیں‘ ان میں بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کم ہے۔ وہ کسی سرکاری افسر سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ ان کے سامنے کسی اجلاس میں اپنا مؤقف رکھیں۔ وہ یس باس ٹائپ افسروں کو پسند کرتے اور ڈاکٹر صاحب میں یہ بات نہیں تھی۔ کہتے تھے کہ بینظیر بھٹو واحد وزیراعظم تھیں جنہوں نے تین سالوں میں انہیں سیکرٹری زراعت کے عہدے سے نہیں ہٹایا حالانکہ ہر کابینہ اجلاس میں ان سے پھڈا ہوتا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے: دو باتیں تھیں۔ ایک تو وہ بہت پڑھی لکھی تھیں۔ کتابیں پڑھتی تھیں۔ ایسے لوگوں کا مزاج اور دماغ پروگریسو اور لچکدار ہوتا ہے۔ وہ کتابوں میں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں‘ لہٰذا انہیں عملی زندگی میں دوسرے لوگوں کی مختلف رائے ذاتی حملہ محسوس نہیں ہوتی۔ وہ رائے کو رائے کے طور پر لیتے ہیں۔ اس لیے وہ رگڑا تو بہت لگاتی تھیں لیکن سیکرٹری زراعت کے عہدے سے نہیں ہٹاتی تھیں۔ دوسرا‘ محترمہ کو اپنے کسانوں اور دیہات کے لوگوں کی بہت فکر رہتی تھی۔ وہ جب بھی کابینہ اجلاس میں آتی تھیں تو ان کے پاس خبروں کی پوری فائل ہوتی تھی‘ ہر سیکرٹری کی جواب طلبی ہوتی تھی اور زیادہ ان کی ہوتی تھی کیونکہ زراعت پر ان کا فوکس تھا کہ کسان اور دیہاتی بھوکا نہ مرے۔ اسلئے نواب یوسف تالپور اور ڈاکٹر ظفر الطاف نے مل کر ایک سال زراعت میں گیارہ فیصد گروتھ ریٹ حاصل کیا‘ جو آج تک ایک ریکارڈ ہے۔ وجہ یہی تھی کہ بینظیر بھٹو کو زراعت اور کسانوں کا خیال تھا۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کسانوں کیلئے اچھے کام کیے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب شوکت عزیز وزیراعظم تھے تو اس وقت کے سیکرٹری زراعت ایک سمری لے کر کابینہ اجلاس میں گئے کہ برسوں سے گندم کی امدادی قیمت نہیں بڑھی۔ تیل‘ کھاد اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ آپ مہربانی فرما کر گندم کی قیمت 25 روپے فی من بڑھا دیں۔ اس پر شیخ رشید اور ایم کیو ایم کے وزیروں نے مل کر رولا ڈال دیا کہ شہروں میں مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ ہمارے ووٹرز ناراض ہوں گے۔ شوکت عزیز پہلے ہی تیار بیٹھے تھے کہ کوئی آواز اٹھائے تو وہ سمری مسترد کردیں۔ یوں گندم کی قیمت نہ بڑھنے سے اگلے سال اس کی کاشت کم ہو گئی اور ایک ارب ڈالر کی گندم باہر سے منگوانا پڑی۔ اندازہ کریں کہ آسٹریلیا‘ کینیڈا وغیرہ سے گندم ڈالروں میں خرید لی گئی لیکن پاکستانی کسانوں کو 25 روپے اضافی نہ دیے گئے۔ پھر 2008ء میں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے فوراً گندم کی امدادی قیمت دو گنا کر دی جس سے کسانوں نے اتنی وافر گندم پیدا کی کہ 2019ء تک پاکستان کو ایک ڈالر کی گندم بھی باہر سے نہ منگوانا پڑی۔ 2019ء میں بھی ملک میں وافر گندم تھی لیکن ملکی ضروریات کا درست اندازہ لگائے بغیر جب گندم برآمد کر دی گئی تو ملک میں گندم کی قلت پیداہو گئی۔ پھر یوکرین اور روس سے ایک ارب ڈالر کی گندم منگوائی گئی۔ 2019-2020ء میں تو دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی‘ کپاس اور دالیں باہر سے منگوائی گئیں۔ وہ ملک جو گندم‘ کاٹن‘ گنا خود پیدا کرتا تھا وہ اب سب کچھ باہر سے منگوا رہا تھا۔ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا دور آیا۔ یوں زرعی رقبے کم ہوتے گئے۔ رہی سہی کسر 2023ء کی نگران حکومت نے لاکھوں ٹن گندم درآمد کرکے پوری کر دی کیونکہ نگران حکومت کے چند بڑوں نے اس درآمد میں مال بنانا تھا۔ ان چند بڑوں نے مال بنایا اور مقامی کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ گندم کے نرخ چار ہزار روپے فی من سے تین ہزار تک آ گئے۔ وہ پیسہ جو شہروں سے دیہات میں منتقل ہونا تھا تاکہ کسان کی زندگی اور دیہی معیشت کا پہیہ چلتا رہے‘ نہ صرف وہ منتقل نہ ہو سکا اُلٹا کسانوں کی جیب کاٹ لی گئی۔رہی سہی کسر اس سال پوری ہو گئی جب گندم کا ریٹ 2200 روپے فی من تک گر گیا اور کسانوں کو بھاری نقصان ہوا۔ اس لوٹ مار اور عدم توجہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ رواں مالی سال نہ صرف گندم اور دیگر بڑی فصلوں کا رقبہ اور پیداوار کم ہوئی ہے بلکہ زرعی شعبے کی شرح نمو (0.56فیصد) بھی زمین پر دھڑام سے آن گری ہے۔
اگلے سال حکمران ڈالرز میں قرضہ لے کر گندم‘ کپاس اور دیگر غذائی اجناس باہر سے منگوائیں گے۔ شاید یہی پلان تھا۔ کہاں گئے ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے بیوروکریٹ‘ نواب یوسف تالپور جیسے وزیر زراعت اور بینظیر بھٹو جیسی وزیراعظم جنہوں نے زراعت کی 11 فیصد گروتھ لی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں