"RKC" (space) message & send to 7575

اگلا نشانہ اسلام آباد؟

مجھے اسلام آباد میں رہتے ہوئے 27 برس بیت چکے ہیں۔ یہیں کیریئر بنایا اور یہیں فیملی۔ بچے یہیں پیدا اور بڑے ہوئے۔ اسی شہر میں دوستیاں‘ دشمنیاں بنیں۔ پوٹھوہار کی اس دھرتی کا ہی کھایا پیا اور خود کو ہمیشہ اس دھرتی اور اس کے لوگوں کا وفادار محسوس کیا۔ انہی سے رشتے‘ دوستیاں گانٹھیں۔ کبھی مقامی لوگوں کے خلاف غصہ‘ نفرت یا بغض نہ رکھا جیسے عموماً باہر سے آنے والے لوگ ہر جگہ کرتے ہیں کہ خود کو مقامیوں سے بہتر سمجھو‘ یا ان کا مذاق اڑاؤ یا ان کے کلچر‘ زبان یا روایات کا احترام نہ کرو۔ اکثر لوگ احساسِ برتری کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ فطرتاً باہر سے آنے والا زیادہ محنتی اور ہوشیار ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس محنت کے علاوہ اور کوئی چانس نہیں ہوتا۔ اگر وہ محنت نہیں کرے گا تو وہ بھوکا مرے گا اور پھر واپس اپنے گاؤں چلا جائے گا۔ لہٰذا وہ ہر قسم کا کام کر لے گا اور خوب دل لگا کر کرے گا تاکہ جلدی وہ کامیاب ہو جائے۔ کامیاب ہو کر اکثر وہ مقامی لوگوں کو نالائق اور نکما سمجھ کر ان کی عزت نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ نالائق ہیں۔ اگر وہ کسی اہم عہدے یا کامیاب کاروبار کا مالک بن گیا ہے تو اب اسے سب لوگ نالائق اور نکٹھو لگتے ہیں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ امریکہ میں بھی جو امیر پاکستانی ہیں وہ اکثر گلہ کرتے ہیں کہ مقامی گورے جب انہیں بڑی بڑی گاڑیوں یا ملین ڈالر گھروں میں رہتے دیکھتے ہیں تو ان کی شکایتیں ایف بی آئی یا دیگر اداروں کو کر دیتے ہیں کیونکہ وہ خود بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ اس طرح محنت نہیں کرتے جس طرح باہر سے آنے والا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے۔ جبکہ مقامی لوگ اکثر اس لیے زیادہ متحرک نہیں ہوتے کہ ان کے پاس زندگی کی سب بنیادی ضروریات موجود ہوتی ہیں۔ وہ سیٹل ہوتے ہیں لہٰذا وہ ویسی محنت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جیسی باہر سے آنے والے کرتے ہیں۔ یا وہ اپنے حصے کی محنت بہت پہلے کر چکے ہوتے ہیں اور اب ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر کچھ مطمئن ہوتے ہیں اور زندگی کا پہیہ چلا ر ہے ہوتے ہیں۔ باہر سے آنے والے نے ابھی وہ طویل سفر طے کرنا ہوتا ہے لہٰذا وہ دن رات محنت کرتا ہے۔ مقامی لوگ کسی مرحلے پر بھی باہر سے آنے والوں کو آگے نکلتے دیکھ کر حسد اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں اور یوں دونوں طبقات کے درمیان ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی خطۂ پوٹھوہار کی‘ اس خطے کی اپنی خوبصورتی ہے جو آپ کو اپنے رومانس میں جکڑ لیتی ہے۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ یہ خوبصورتی شدید خطرے میں ہے۔ شہر کے اندر بھی اور شہر سے باہر بھی۔ اگر آپ شہر سے باہر کی خوبصورتی برباد ہونے کی تفصیل جاننے کی کوشش کریں تو اندازہ ہو گا کہ آپ اسلام آباد سے براستہ موٹر وے لاہور کی طرف جائیں تو معلوم ہو گا کہ ان چند برسوں میں وہاں کیا تباہی مچ گئی ہے۔ آپ کو ہر طرف رہائشی سکیمیں ہی نظر آتی ہیں۔ لوگوں نے پلاٹ لے کر رکھے ہیں کہ کسی دن ریٹ اچھا ملے گا تو بیچ کر مال کمائیں گے۔ کچھ نے وہاں رہائشی کالونیاں بنا لی ہیں‘ بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں۔ چکری کے قریب ہزاروں ایکڑ پر محیط پہاڑی علاقوں کو بلڈوز کرکے وہاں ہاؤسنگ سکیمیں بنا دی گئی ہیں۔ ابھی بارش ہوئی تو یہ سب نچلے علاقے ڈوب گئے کیونکہ وہ پہاڑی علاقوں میں بارشی پانی کے فطری راستے میں آتے تھے۔ ان ہاؤسنگ سکیموں نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ حیران ہوتا ہوں کہ اسلام آباد صرف چوبیس کلو میٹر پر محیط شہر ہے‘ وہاں سینکڑوں ہاؤسنگ سکیموں کی کیا تُک بنتی ہے۔ چلیں آٹھ دس کی سمجھ آتی ہے لیکن سینکڑوں کیوں؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند برس قبل قومی اسمبلی میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں 120 غیرقانونی ہاؤسنگ سکیمیں ہیں‘ مطلب جن کے پاس سی ڈی اے کا این او سی نہیں ہے۔ اب اندازہ کریں کہ 120 غیرقانونی سکیمیں تھیں تو قانونی کتنی ہوں گی۔ یوں اُس شہر میں جہاں نہ کوئی بڑی مل ہے‘ نہ انڈسٹری ہے‘ نہ ہی ساحلی علاقہ کہ وہاں سے تجارت ہوتی ہو‘ نہ ہی یہ کسی ایسے سنگم پر واقع ہے کہ یہاں سے دوسرے ملکوں کے قافلے یا تاجر گزرتے ہوں کہ یہاں تجارتی سرگرمیاں بہت زیادہ ہوں اور لیبر کی بہت ضرورت پڑتی ہو۔
دو‘ تین دہائیوں پہلے اسلام آباد چند کلومیٹرز پر مشتمل سرکاری ملازمین کا ایک شہر تھا‘ لیکن اب ایک بہت بڑا تجارتی شہر لگتا ہے‘ جو مزید پھیل رہا ہے۔ اس شہر میں پانی نہیں ہے لیکن ہر روز نئے پلازے تعمیر ہو رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اب اس شہر کا رُخ کر رہے ہیں۔ 1998ء میں اس شہر کی آبادی آٹھ لاکھ تھی جو اَب 30 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ شہر کا انفراسٹرکچر جو چند لاکھ افراد کیلئے بنایا گیا تھا‘ وہ بھی اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اب شہر کے اندر مزید گھروں کی گنجائش نہیں رہی تو لوگوں نے مارگلہ اور چکری کے پہاڑوں اور بارہ کہو کا رخ کر لیا ہے اور ہر طرف پہاڑوں کی کٹائی جاری ہے۔ اگر آپ ڈی12 سیکٹر میں کھڑے ہو کر سامنے شاہ اللہ دتہ میں مارگلہ پہاڑوں کو دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک بڑا سفید محل تعمیر ہو چکا ہے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ محل ایک افغان وار لارڈ کے کسی عزیز کا ہے جو اس نے مارگلہ پہاڑ کاٹ کر بنایا ہے۔ یہ اکیلا گھر نہیں ہے بلکہ اب پورا مارگلہ پہاڑ گھروں میں گھر گیا ہے۔ وہاں درختوں اور پتھروں کی کھدائی تیزی سے جاری ہے۔ ہر طرف آپ کو گھر ہی گھر نظر آتے ہیں۔ یہ سب گھر پچھلے ایک سال میں پہاڑوں کو گنجا کرکے اچانک تعمیر ہوئے ہیں۔ کل پرسوں میں حامد میر کے ایک پروگرام میں ایک ماہر کو سن رہا تھا‘ جس نے کہا کہ اب بونیر جیسا آسمانی طوفان یا کلاؤڈ برسٹ اسلام آباد میں بھی ہونے کا شدید خطرہ ہے اور وجہ وہی بونیر والی بتائی جا رہی ہے۔ بونیر میں بھی درخت کاٹے گئے‘ پہاڑوں سے درختوں کو نکالنے سے پتھروں کی جڑت کمزور ہوئی۔ یوں جب بارش شروع ہوئی تو پتھر‘ جو پہلے درختوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے‘ اب مٹی کے کھسکنے سے آسانی کے ساتھ پانی میں بہتے ہوئے انسانی آبادیوں کی طرف بڑھے اور یوں لگا جیسے بونیر میں پانی کی نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہوئی ہو۔ درخت ہی ان پتھروں کو روک سکتے تھے جو کاٹ کر بیچ دیے گئے تھے۔ اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جس طرح اسلام آباد کے گرد و نواح میں پہاڑوں کو گنجا کیا جا رہا ہے‘ ان کی کرشنگ کی جا رہی ہے‘ درخت کاٹے جا رہے ہیں اور مارگلہ پہاڑوں پر گھر تعمیر ہو رہے ہیں اور متعلقہ افسران سکون سے سو رہے ہیں‘ یہاں بھی اب خطرات بڑھ گئے ہیں کہ بونیر جیسی خطرناک صورتحال اسلام آباد میں بھی پیش آسکتی ہے۔ درختوں کے مسلسل کٹاؤ کی صورت میں مارگلہ اگر خدانخواستہ کسی کلاؤڈ برسٹ کو برداشت نہ کر سکا تو پورے شہر کو اس طرح پتھروں اور کیچڑ سے بھر دے گا جیسا بونیر میں ہوا ہے۔
یہ طے ہے کہ اس شہر کے حاکم ہوں یا سرکاری بابو‘ ان کے پاس نہ اتنا وژن ہے نہ ہی ان کی نیت ہے۔ اسلام آباد شہر کے اندر جو ترقیاتی کاموں کے نام پر کھدائی اور مارگلہ پہاڑوں پر درختوں اور پتھروں کی بربادی ہورہی ہے اور پہاڑوں پر گھر بسائے جارہے ہیں‘ ان کی وجہ سے ایک دن بے رحم فطرت پلٹ کر ہم سب پر حملہ آور ہو گی جیسے بونیر میں ہوئی ہے اور کسی کو نہیں چھوڑا۔ قدرت کے ساتھ چھیڑ خانی سب کو مہنگی پڑنے والی ہے کیونکہ قدرت اپنا انتقام کبھی نہیں بھولتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں