اٹھارہ برس ہو گئے ہیں کالم لکھتے لیکن آج پہلی دفعہ لفظ کم پڑ گئے ہیں اور کافی دیر سے سوچ رہا ہوں کیا لکھوں۔ پہلے وسطی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے انسانی المیہ دیکھا تو دل دکھی ہوا۔ اب اس سے بڑا المیہ سرائیکی علاقوں میں جنم لے چکا ہے۔ سیلاب وسطی پنجاب کے علاقوں سیالکوٹ‘ نارووال‘ شکر گڑھ پھر لاہور کے قریبی علاقوں میں تباہی پھیلاتا آگے ملتان‘ مظفرگڑھ اور بہاولپور کی طرف نکل گیا۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ سیلاب بڑے عرصے بعد آیا ہے‘ لہٰذا نہ حکومت تیار تھی‘ نہ انتظامیہ اور نہ ہی عوام۔ یوں کہیں ان تینوں نے مل کر دریائوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا جیسے دریا اب سوکھ چکے ہیں اور کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ان تینوں نے مل کر بیورو کریسی اور ٹھیکیداروں کی مدد سے ہر جگہ ہاؤسنگ سکیمیں بنا کر زمینیں ہڑپ کر لیں۔ اس کھیل میں یقینا حکومتیں‘ بیورو کریسی یا بلڈرز تک امیر ہوئے لیکن جن لوگوں کو ان دریائوں کے اندر زمینیں پلاٹ بنا کر بیچے گئے تھے نقصان ان کا ہوا اور سوشل میڈیا پر جگتیں بھی سننے کو ملیں کہ دریا کو اپنی زمینوں سے غیر قانونی قبضہ چھڑانے کیلئے خود آنا پڑا۔ جن زمینوں کے قبضے پنجاب میں حکمران اور پولیس تک نہیں چھڑا سکتی تھی وہ دریا نے ایک ہی رات میں چھڑا لیے۔ چلیں مان لیا جو نقصان وسطی پنجاب میں ہوا وہ اچانک تھا لہٰذا پتا نہیں چلا اور اوپر سے ہم نے سب کچھ بھارت پر ڈال دیا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تو ذرا دیر نہیں لگائی اور فوراً فرما دیا کہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ وسطی پنجاب کو ڈبونے میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ منصوبہ بندی کے وزیر ہیں‘ نہ انکا قصور ہے اور نہ ہی ارب پتی بلڈرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جنہوں نے دریائوں کی زمینوں پر قبضے کر کے سرکاری زمینیں تک الاٹ کر کے اربوں روپے کے پلاٹ بیچ دیے اور اب سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر احسن اقبال نے بلڈرز کا کام آسان کر دیا کہ اب جن عوام کا نقصان ہوا تھا وہ جائیں اور بھارت کا گریبان پکڑیں۔ اگر بھارت پانی نہ بھیجتا تو کسی کا نقصان نہ ہوتا۔ اب پتا چلا ہے کہ خود بھارت کے اندر دریائوں اور بارشوں کی وجہ سے شاید پاکستان سے بھی زیادہ تباہی ہو چکی ہے۔ جو دانشور ہمیں بتا رہے تھے کہ بھارت چاہتا تو ڈیمز میں پانی روک سکتا تھا لیکن اس نے پاکستان کو ڈبونا مناسب سمجھا‘ ان کو کون سمجھائے کہ بھارت پانی روک سکتا تو ضرور روک لیتا کیونکہ پانی سے زیادہ قیمتی کیا چیز ہو سکتی ہے۔ بھارت میں بھی اب تک سینکڑوں لوگ سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ جانور اور گھروں کا سامان تک پاکستان کے اندر سیلاب میں بہتا ہوا دیکھا گیا۔ گائوں کے گائوں برباد ہو گئے‘ لیکن احسن اقبال ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں سب قصور بھارت کا ہے‘ نہ وہ پانی چھوڑتا نہ سیلاب آتا۔
اگر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے حریف ہمسائے نہ ہوتے تو ہمارے لیڈروں کا کیا بنتا؟ بھارتی حکمران اپنی ہر ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتے ہیں اور پاکستان اُن پر ڈال دیتا ہے‘ یوں دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو اپنے دکھوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں نہ کہ اپنے لیڈروں یا بیورو کریسی کی نالائقی اورکرپشن کو۔ یوں ان کے احتساب کا کوئی نعرہ نہیں لگتا۔ کوئی اس بات پر رولا نہیں ڈال رہا کہ آخر دریا کی زمین کیسے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو الاٹ ہوئی‘ کیسے بیچی گئی؟ بس بھارتی آبی جارحیت کا نام دے کر سب کا منہ بند کرا دو۔ یہی کام احسن اقبال صاحب نے کیا۔ انہوں نے حکومت اور اپنی نالائقیاں چھپانے کیلئے سارا ملبہ بھارت پر ڈال دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرام راجہ نے تو کمال ہی کر دیا۔ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب ہماری ناانصافیوں کی وجہ سے نازل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا‘ جو عوام کی آواز دبائی گئی‘ جو ووٹ چوری کیے گئے اور ووٹ چوری کرنیوالوں نے ظلم کیا یہ اسی کی سزا ہے۔ پہلے جب میں نے یہ پڑھا تو یقین نہ آیا کہ راجہ صاحب جیسا پڑھا لکھا آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے۔ جب میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کسی جگہ یہ خبر مل جائے تو مجھے سلمان اکرم راجہ کی پریس کانفرنس کا کلپ مل گیا اور یقین کریں میں ایک صدمے کی حالت میں بیٹھا انہیں سنتا رہا۔ میں حیران ہوا اگر دھاندلی کی گئی ہے تو اس میں شکر گڑھ‘ نارووال‘ لاہور‘ سیالکوٹ یا مظفرگڑھ؛ ملتان یا جلالپور پیروالا یا بہاولپور کے کسانوں اور غریبوں کا کیا قصور ہے جن کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی‘ فصلیں اور جانور سیلاب بہا کر لے گیا اور وہ اس وقت پانی میں بھوکے پیاسے درختوں سے لٹکے بیٹھے ہیں؟
اس وقت جو جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں سے تباہی اور بربادی کی خبریں آ رہی ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں۔ ملتان کے دوست جمشید رضوانی‘ شکیل انجم‘ رضا‘ ناصر محمود شیخ اور دیگر رپورٹرز جو رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ جہاں اپنی جگہ قابلِ تعریف ہے وہیں دل وہ مناظر دیکھ کر ڈوب جاتا ہے کہ لوگ اب ان علاقوں میں اپنے والدین اور بچوں کو چارپائیاں الٹی کر کے پانی سے نکال رہے ہیں۔ بچے ڈوب رہے ہیں‘ مائیں بہہ رہی ہیں۔ کہیں آپ کو ریسکیو کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔ ملتان اور مظفرگڑھ انتظامیہ اس حوالے سے نالائق نکلی ہے کہ ان کے پاس انتظامات کیلئے کافی وقت تھا۔ پندرہ سے بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب جب وسطی پنجاب میں تھا تو ان کے پاس تین‘ چار دن تھے کہ لائف جیکٹس اور کشتیوں کا انتظام کر لیتے۔ پاک فوج اور نیوی کو ہنگامی طور پر طلب کیا جاتا۔ پلان بنایا جاتا اور لوگوں کو نکالا جاتا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ مان لیا کہ لوگ بھی گھروں سے نہیں نکلتے‘ وہ ڈرتے ہیں کہ کہاں جا کر بیٹھیں۔ اپنے گھر کا سکون کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا اور اوپر سے جوان بیٹیاں لے کر سڑک پر کیسے بیٹھ جائیں‘ جہاں کھانے کو کچھ ملے یا نہ ملے۔ کم از کم گھر پر خود کچھ نہ کچھ پکا تو لیں گے۔ ایک دو دن کے بعد پانی اتر جائے گا‘ لیکن انتظامیہ یا حکومت کو تو علم ہوتا ہے کہ کتنا پانی آ رہا ہے۔ اس لیے بعض دفعہ آپ کو زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ مگر وہی بات کہ سب کچھ اللہ کے سہارے چل رہا ہوتا ہے وگرنہ‘ بقول شکیل انجم ہنگامی طور پر کشتیاں دبئی سے یا کراچی سے بھی منگوائی جا سکتی تھیں۔ لیکن ان غریبوں کے لیے اتنی کوشش کون کرے۔ اب تو سرائیکی علاقوں میں لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز حکومت نے انہیں بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔
دوسری طرف سلمان اکرم راجہ کو یہ بات اب یاد آئی ہے کہ دھاندلی کی وجہ سے وہ ایم این اے نہیں بن سکے لہٰذا عذاب آیا ہے۔ راجہ صاحب کو یہ بات کہتے ہوئے کچھ خیال کرنا چاہیے تھا کہ غریب مظلوم لوگ بچوں کی لاشیں اٹھائے وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب تک رو رہے ہیں اور راجہ صاحب انہیں بتا رہے ہیں کہ ان کے بچے اس لیے پانی میں ڈوب گئے کہ انہیں الیکشن میں ہرا دیا گیا۔ کیسے سنگدل لوگ ہیں کہ خوفناک انسانی المیے میں لاشوں پر کھڑے ہیں اور انہیں اپنا الیکشن ہارنے کا دکھ ہے‘ دوسروں کا نہیں جو اس المیے سے گزر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر میں کئی گائوں پتھروں کی بارش سے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ وہاں سے تو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جیتے تھے‘ وہاں تو دھاندلی نہیں ہوئی پھر وہاں پر یہ عذاب کیوں اترا؟ ویسے یہ خدا کا عذاب غریبوں پر ہی کیوں اترتا ہے‘ راجہ صاحب جیسے امیروں پر کیوں نہیں جو عہدوں کی تمنا رکھتے ہیں‘ محلات میں رہتے ہیں اور کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ بڑا سمجھدار عذاب ہے جو راجہ صاحب کو ہرانے کی سزا لاکھوں کسانوں اور غریبوں کو پانی میں ڈبکیاں دے کر دے رہا ہے‘ انہیں نہیں جن پر وہ الزام لگاتے ہیں۔