"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد سے مانچسٹر‘ برمنگھم تک کی کہانیاں

ایک دوست کہنے لگا‘ آپ پاکستان سے باہر تھے تو پیچھے بہت سارا فن آپ نے مِس کیا۔ میں نے جواب دیا ‘اس ملک میں آپ کبھی کچھ مِس نہیں کرتے چاہے آپ ایک سال کے بعد بھی واپس آئیں تو بھی حالات وہیں کھڑے ہوں گے۔ وہی سیاسی پارٹیوں کا دنگل‘وہی عوام کے ہنگامے‘ وہی اسلام آباد پر چڑھائی ‘توڑ پھوڑ اور ماردھاڑ اور جلائو گھیرائو‘ وہی ہمارے چیختے چلاتے اینکرز‘ تباہ ہوگئے برباد ہوگئے‘حکمران لوٹ گئے‘ عمران خان کے حامیوں کے نعرے کپتان کے بغیر ملک نہیں چل سکتا‘ وہی خان کے حمایتی جو اُن سب کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں جو اُن کے دیوتا کا پجاری بننے سے انکاری ہیں اور وہی خان جس کے ایک فیصلے کی وجہ سے پی آئی اے پانچ سال لندن یورپ نہ چل سکی اور لاکھوں مسافر خوار ہوکر دبئی‘ قطر‘ استنبول اور پتہ نہیں کون کون سے ملک سے پھرتے پھراتے زیادہ کرایہ بھرتے سات گھنٹوں کا سفر سولہ ‘ اٹھارہ گھنٹوں تک کرنے کے بعد لندن پہنچتے ہیں۔ اب میتیں وہیں دفن کی جاتی ہیں کیونکہ پی آئی اے بند ہے اور پہلے وہ مفت لائی جاتی تھیں۔ اب کون ڈالروں میں کسی وفات پانے والے عزیز کی آخری خواہش پورے کرے اور پاکستان لا کر دفن کرے۔ لیکن اس کے باوجود سب چاہتے ہیں کہ خان کو دوبارہ لائو۔ میں تو بہت پہلے اس حق میں تھا کہ خان کو مزید پانچ سال حکمران بنایا جائے اگرچہ ان کا منصوبہ تاحیات حکمران رہنے کا تھا۔ وہ بس جنرل فیض حمید کی محبت میں زیادہ ہی دھنستے چلے گئے۔ عمران خان کے پی آئی اے پائلٹس کی فیصلے سے یاد آیا کہ پاکستان واپسی پر اگلے دن ہی کام شروع کر دیا اور دو اہم کمیٹیوں کے اجلاس میں گیا۔ دونوں اجلاس ایک ایک گھنٹے سے آگے پیچھے تھے۔ پہلا اجلاس سینیٹ کی کمیٹی برائے نجکاری کا تھا جس کے نوجوان چیئرمین سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان ہیں اور دوسرا اجلاس قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے کامرس کا تھا جس کے کنوینر ایم این اے مرزا اختیار بیگ ہیں جہاں شوگر سکینڈل پر بات ہونی تھی۔ اگر نجکاری کمیشن کے اجلاس میں پی آئی اے کی فروخت‘ نیویارک میں روزویلٹ ہوٹل کے مستقبل اورمانچسٹر کی ڈائریکٹ فلائٹس کا جائزہ پیش ہونا تھا تو کامرس میں شوگر سکینڈل میں ملوث بڑے لوگوں کے نام سامنے آنے کی امید تھی۔ ایک اجلاس ڈھائی بجے تو دوسرا ساڑھے تین بجے تھا اور دونوں بہت اہم تھے لہٰذا فیصلہ کیا دونوں میں جانا چاہیے۔ پہلے میں پی آئی اے کی نجکاری والے اجلاس میں گیا تو وہاں بڑے بڑے انکشافات منتظر تھے۔ پتہ چلا کہ پی آئی اے خریدنے کے لیے سیمنٹ فیکٹریوں‘ کھاد فیکٹریوں‘ پرائیویٹ سکولز کے مالکان‘ بلڈرز اور کنسٹرکشن کے ماہر لوگ پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک بھی غیرملکی ایئرلائن نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ پتہ چلا کہ فارن ایئرلائنز کو پہلے دن سے ہی دور رکھنے کی پالیسی ہے کہ وہ نہ آئیں۔نجکاری کے افسران کے جواز سُن کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی کیسے نالائق اور نکمی ہوچکی ہے۔ نجکاری کے بڑے افسر نے کچھ عرصہ پہلے ایک اجلاس میں بتایا تھا کہ فارن ایئرلائنز ہمیں سوٹ نہیں کرتیں کہ وہ پھر پرافٹ ڈالروں میں باہر لے جائیں گے اور ہمارے پاس ڈالروں کی کمی ہے۔ اب اس اعلیٰ افسر سے کسی نے نہ پوچھا جو اس اجلاس میں پھر بریفنگ دے رہے تھے کہ اگر یہ خوف ہے تو پھر دنیا بھر میں ڈھول گلے میں باندھ کر آپ ہر ملک کے پاس سرمایہ کاری کیلئے کیوں جارہے ہیں؟ پھر فارن انویسٹر کو کیوں لانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنا پیسہ اس ملک میں لگائیں؟ کیا وہ فارن انویسٹر اپنا پرافٹ پاکستانی روپوں میں لیں گے؟ اگر فارن ایئرلائنز ڈالروں میں پرافٹ باہر لے جائیں گی تو وہ پانچ چھ سو ملین ڈالرز آپ کو پی آئی اے خریدنے کیلئے بھی تو دیں گی جو ویسے آئی ایم ایف یا سعودی عرب‘ چین یا دبئی سے چار سے چھ فیصد مارک اَپ پر ملتا ہے۔ آپ ان ملکوں کو تو مارک اَپ ڈالروں میں دے رہے ہیں لیکن اگر فارن ایئرلائن پی آئی اے خرید لیتی تو اسے ڈالر دیتے وقت ہم دیوالیہ ہو جاتے؟ اب بھی تو فارن ایئرلائنز کوپاکستانیوں کو ٹکٹوں کی سیل کے بدلے ڈالروں میں ہی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اندازہ کریں یہ گفتگو یا جواز وہ اعلیٰ افسر اُن اجلاسوں میں دیتا رہا ہے جس کے ذمے پی آئی اے کی نجکاری تھی اور وہ بڑی محنت سے کھاد فیکٹری‘ سیمنٹ پلانٹس‘ پرائیوٹ سکولز مالکان کو ڈھونڈ لایا اور اجلاس کو بتایا کہ ان کے پاس بہت پیسہ ہے۔ ہمیں اس وقت روپوں سے زیادہ ڈالروں کی ضرورت ہے تاکہ ہم باہر سے قرض نہ لیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ نجکاری کمیشن کے افسران کی نیت پہلے دن سے فارن خریدار کی نہ تھی۔ وہ روپوں میں ہی خوش ہیں۔ دوسری طرف پتہ چلا کہ پی آئی اے کی مانچسٹر کیلئے براہِ راست فلائٹ شروع ہونے کے بعد راتوں رات اگلے چار ماہ کی بکنگ ہوگئی ہے لیکن ساتھ میں بتایا گیا کہ یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کیلئے طیارے پرانے ہیں جن کی مرمت ہونی ہے لیکن پیسے نہیں ہیں۔ ابھی پی آئی اے نے لندن کا سفر شروع کرنا ہے جو مانچسٹر سے بھی زیادہ مصروف رُوٹ ہے۔ اب اگر پی آئی اے کو بزنس ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے تو طیارے نہیں ہیں اور اگر طیارے ہیں تو ان کی مرمت کے پیسے نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے لاڈلے عمران خان کے جعلی پائلٹس والی سٹوری کے بعد پی آئی اے بین ہوئی تو اب تک چھ سو ملین ڈالرز بزنس نقصان ہوچکا ہے جو وہ ان روٹس پر کماتی تھی۔ اب شہباز شریف کے پاس ان طیاروں کی مرمت کے پیسے نہیں۔ ویسے اگر کبھی وہ دنیا بھر کے دوروں سے کوئی ایک دن نکال کرپاکستان کا دورہ کریں تو انہیں بتایا جائے کہ عالمی لیڈروں کے ساتھ سیلفیاں لینے کے بعد کچھ توجہ ان ایشوز پر بھی دیں۔ ایک وزیراعظم عمران خان اپنے ایک فیصلے سے پورے یورپ میں پی آئی اے فلائٹس بند کرا دیتا ہے اور سینکڑوں پاکستانی پائلٹس دنیا بھر کی ایئرلائنز سے نکال دیے جاتے ہیں تو دوسرا وزیراعظم دنیا بھر کے دورے ختم کرنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک جہاز سے اترتا ہے تو دوسرے پر سوار ہوجاتا ہے اور اس کی ترجیحات میں یہ اہم ایشوز نہیں کہ پی آئی اے کو دوبارہ بزنس ملنے کا موقع مل رہا ہے تو کچھ پیسے کمانے دیں۔ اندازہ کریں شہباز شریف کے پاس پی آئی اے کے طیاروں کی مرمت کیلئے پیسے نہیں ورنہ بجلی گھروں کو وہ اربوں روپے کی ادائیگیاں کررہے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کے بجلی گھروں میں شیئر ہیں‘ شوگر ملیں ہیں جس بارے ایک اور کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا‘ کی ذمہ داری بھی شہباز شریف حکومت پر ہے۔ اس ملک کو چھبیس ہزار میگا واٹ کی ضرورت تھی لیکن اکتالیس ہزار میگا واٹ کے پلانٹ لگا کر باقی سترہ ہزار میگاواٹ بجلی استعمال نہ ہونے کے باوجود ان مالکان کو اربوں روپے دیے جارہے ہیں۔ وہی بات کہ شوگر ملز اور بجلی گھر اپنے بچوں کے ہیں۔ فلائٹس کی بات چلی ہے تو سن لیں برمنگھم ایئرپورٹ پر ایک 67سالہ پاکستانی نژاد برطانوی خاتون جو پاکستان سے فلائٹ لے کر پہنچی تھی کے بیگ سے پچیس کلو گرام ہیروئین برآمد ہوئی ۔ اندازہ کریں کہ پچیس کلوگرام ہیروئین پاکستانی ایئرپورٹ سے کسٹمز‘ اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر ایجنسیوں سے کلیئر ہو کر برمنگھم پہنچ گئی۔ پھر ہم ناراض ہوتے ہیں کہ پاکستانی جہاز جب ہیتھرو اترتا ہے تو گورے جہاز کے گیٹ پر ڈرگ سونگھنے والے کتے لے کر پاکستانیوں کی اس کے آگے پریڈ کیوں کراتے ہیں۔ برسوں پہلے ہیتھرو ایئرپورٹ پر میں اترا تھا تو گورے کتے لے کر جہاز کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ شرمندگی سے برا حال ہوا۔ اس کے بعد چھ سال لندن نہ گیا۔ آج جن برطانوی پاکستانیوں نے اپنی67سالہ ماں یا رشتہ دار خاتون کو بھی نہیں بخشا اور اسے ڈرگ سمگلنگ کے لیے استعمال کیا اس کے بعد ان گوروں اور ان کے کتوں سے شکوہ دور ہوگیا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں