آخرکار نئی آئینی ترمیم کے نکات سامنے آ گئے ہے۔ اس کیلئے ہمیں بلاول بھٹو کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس پر ٹویٹ کر کے میڈیا اور عوام کو حیران کر دیا بلکہ میرے خیال میں سب سے زیادہ حیران تو وزیراعظم شہباز شریف اور مقتدرہ ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ یہ توقع نہیں کر رہے ہوں گے کہ بلاول ان ترامیم کو یوں اٹھا کر عوامی کٹہرے یا میڈیا کے سامنے لے آئیں گے اور فوری طور پر اس حوالے سے بحث شروع ہو جائے گی۔ یقینا بلاول بھٹو نے یہ ترامیم عوام اور میڈیا کے سامنے بہت سوچ سمجھ کر رکھی ہوں گی اور انہیں متوقع نتائج کا بھی اندازہ ہو گا۔ شاید یہ مشورہ انہیں صدر زرداری نے دیا ہو گا کہ ان کی پارٹی اتنی ترامیم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی لہٰذا دبائو کا رخ کسی اور طرف کر دیا جائے‘ اور اب تک کے ردعمل سے لگتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف چونکے تو ہوں گے کہ بلاول نے سب کچھ سب کو بتا دیا اور اب چھبیسویں ترمیم کی طرح خاموشی سے نئی ترمیم کرانا شاید کچھ مشکل ہو۔ اگرچہ گزشتہ ترمیم کے وقت بھی مشکلات پیش آئی تھیں‘ بہت سے تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔ اُس وقت آئینی عدالت کا قیام اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کا سربراہ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں‘ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت اور دیگر اہم ایشوز ترمیمی پیکیج کا حصہ تھے۔ اُس وقت شہباز شریف حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس عددی اکثریت نہ تھی لہٰذا انہیں مولانا فضل الرحمن کی حمایت درکار تھی۔ مولانا کو راضی کرنے کیلئے کئی وزیروں نے چکر کاٹے۔ انہی دنوں عمران خان کی پارٹی کے لوگ بھی مولانا صاحب کے گھر ڈیرہ جما کر بیٹھ گئے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پی پی پی کا وفد مولانا صاحب سے مل کر نکلتا تو باہر پی ٹی آئی کا وفد انتظار کر رہا ہوتا اور پی ٹی آئی والے ابھی اندر ہی بیٹھے ہوتے تو پتا چلتا کہ حکومتی وفد باہر پہنچ گیا ہے۔ اُن دنوں مولانا صاحب کا کچن قہوہ پلانے اور ڈرائی فروٹ کھلانے میں مصروف تھا۔ اب مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حالات بڑی حد تک حکومت کے حق میں ہیں تو شاید مولانا صاحب کی وہ اہمیت نہیں رہے گی ‘اسی لیے مولانا صاحب نے ابھی سے فائر ورک شروع کر دیا ہے اور وہ لانگ مارچ کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
عوام کو بھی داد دیں کہ انہیں پاکستان میں استحکام اور ترقی بھی درکار ہے لیکن ہر ماہ کوئی نہ کوئی جتھہ سڑکوں پر نکلا ہوتا ہے۔ ہنگامے‘ مار دھاڑ‘ لوٹ مار‘ گرفتاریاں‘ گولیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ عوام کو بھی سکون ان دنگوں ہی میں ملتا ہے اور ہر پارٹی اپنے جتھے سڑکوں پر نکال کر اسلام آباد لے آتی ہے۔ میں ایک دیہاتی ہوں لہٰذا مجھے اندازہ ہے کہ کبھی یہ سب ہمارے لیے بھی شغل ہوتا تھا کہ چلیں مفت کی بس مل رہی ہے‘ کھانا پینا بھی مل جائے گا‘ بڑا شہر بھی دیکھ لیں گے‘ دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی ہوتی رہے گی۔ یوں جلسے جلوس کامیاب ہو جاتے تھے۔ اب بھی دیکھیں تو اکثر یہی ہوتا ہے کہ اگر چند سو کارکن نظریاتی ہوتے ہیں تو بہت سے میری طرح شغل میلے والے بھی ہوتے ہیں کہ چلیں شہر کی سیر کر آتے ہیں‘ ہمیں کون سا آنے جانے کا کرایہ یا خرچہ اٹھانا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ جلسے‘ جلوس ہنگاموں کی شکل میں بدلنے سے حالات بھی اب بدل گئے ہیں‘ لہٰذا اب شغل تو باقی نہیں رہا بلکہ اب معاملہ جان دینے اور جان لینے تک پہنچ چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیہاڑی پر بھی کچھ لوگ بھرتی کرنا پڑتے ہیں۔ یقینا سب پارٹیوں کے کارکن پیسے لے کر شریک نہیں ہوتے‘ وہ تو اپنے تئیں بڑے مقصد کیلئے جان دے رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا مقصد اکثر اقتدار یا اپنے خاندان اور دوستوں کا مفاد ہی ہوتا ہے۔
میں 2002ء سے پارلیمنٹ کَور کر رہا ہوں اور ہر سیاستدان کو بڑے قریب سے دیکھا اور کچھ کو تو بھگتا بھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا اداکار اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا ماہر۔ اپوزیشن دور کی عاجزی بھری گفتگو اور حکومت ملنے کے بعد رعونت اور تکبر کو بھی دیکھا ہے لیکن داد دیں کہ وہ برسوں سے ان عوام کو چارہ ڈال رہے ہیں اور ہر بار بڑے آرام سے اپنا سودا بیچ لیتے ہیں اور عوام خرید بھی لیتے ہیں۔ موجودہ نسل سے پہلے بھی عوام کو چَرانے والے موجود تھے اور اب بھی ہیں۔ لہٰذا جونہی ترامیم کا شور اٹھے گا آپ دیکھیں گے کہ ہر طرف ہر پارٹی کو ملکی مفاد نظر آنے لگے گا حالانکہ اس میں ملکی سے زیادہ ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ اب سیاسی پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر لچک نہیں دکھائیں گی کہ صوبوں کا شیئر کم کر کے مرکز کا بڑھا دیا جائے۔ مرکز کہتا ہے کہ ہم کیا کریں‘ 2500 ارب دفاعی بجٹ‘ ایک ہزار ارب پی ایس ڈی پی‘ صوبوں کو تین چار ہزار ارب کے فنڈز‘ ایک ہزار ارب فوج کی پنشن‘ لاکھوں وفاقی ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی اربوں کی پنشن اور غیر ملکی قرضوں اور سود کی آٹھ ہزار ارب کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس تو کچھ بچتا ہی نہیں اور ان اخراجات کیلئے سود پر مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔
2010ء تک صوبوں کے پاس کم اور مرکز کے پاس این ایف سی ایوارڈ کا زیادہ شیئر ہوتا تھا۔ پھر اٹھارہویں ترمیم آئی کہ مرکز سے اختیارات اور وزارتیں صوبوں کو منتقل کی جائیں۔ مرکز کے پاس صرف آٹھ دس وزارتیں رہنے دیں کہ چوبیس کلومیٹر کے مرکز کو کھربوں کے فنڈز کی کیا ضرورت ہے۔ یوں سب وزارتیں اور ان کے فنکشنز نیچے شفٹ کر دیے گئے کہ مرکز کا بوجھ کم ہوگا ۔تو کیا بوجھ کم ہوا؟ اب بھی وہی چالیس وزارتیں چل رہی ہیں۔ بلکہ اب تو چالیس مشیروں‘ خصوصی مشیروں اور کنسلٹنٹس کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ یوں ایک دلچسپ کام یہ ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مرکز سے وزارتیں کم نہ ہوئیں بلکہ الٹا صوبوں میں نئی وزارتیں بن گئیں۔ جو کام چوبیس کلومیٹر میں ڈپٹی کمشنر دفتر میں بیٹھے ایک کلرک کا تھا وہی کام اب ایک وفاقی وزیر‘ وزیر مملکت‘ پھر مشیر اور پارلیمانی سیکرٹری مل کرکر رہے ہیں۔ سیکرٹری‘ سپیشل سیکرٹری‘ جوائنٹ سیکرٹریز اور ان کے ذیلی محکمے اور سینکڑوں سٹاف اور ملازمین اور ان کا بجٹ الگ سے ہے۔ پھر ایسی ترمیم کا کیا فائدہ‘ اگر آپ نے چوبیس کلومیٹر کے شہر میں چالیس وزارتیں ہی رکھنی ہیں اور لاکھوں ملازمین؟ مزید سن لیں! جب صوبائی حکومتیں این ایف سی ایوارڈ کے شیئر پر لڑنے مرنے پر تُل جاتی ہیں کہ ساڈا حق ایتھے رکھ تو کیا وہ یہ حق آگے صوبے میں سبھی اضلاع کو دیتی ہیں یا سارا پیسہ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ پر لگ رہا ہے؟ سب کو این ایف سی تو زبانی طور پر یاد ہے کیونکہ روز سیاستدان یہ قصہ سناتے ہیں مگر کیا کسی کو پی ایف سی کا مطلب بھی آتا ہے یا کبھی کسی حکمران یا سیاستدان کے منہ سے اس بارے سنا ہے؟ پروونشل فنانس کمیشن بھی آئین کا حصہ ہے۔ ایک صوبے کو مرکز سے این ایف سی فنڈز کی تقسیم سے جو کچھ ملتا ہے وہ صوبہ اسے صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے ہر ضلع میں آبادی‘ غربت‘ ریونیو اور پسماندگی کو مدنظر رکھ کر ان اضلاع کو فنڈز دینے کا پابند ہے۔ آپ نے کبھی سنا کہ کسی صوبے میں صوبائی فنانس کمیشن کا اجلاس ہوا ہو اور اضلاع میں پیسے بانٹے گئے ؟ اس لیے ساری ترقی آپ کو بڑے شہروں میں نظر آتی ہے۔ سارا پیسہ شہروں میں لگ رہا ہے‘ دیہات سے ہجرت ہو رہی ہے اور شہر پھٹ رہے ہیں۔ اب پھر سارے لیڈر این ایف سی ایوارڈ کے نام پر کٹ مرنے کی قسمیں کھائیں گے لیکن کبھی ان کے منہ سے پی ایف سی کا نام تک نہیں سنیں گے کیونکہ پی ایف سی ہی حق مارنے کا اصل فورم ہے‘ جہاں غریب عوام کا حق اور پیسہ دونوں کھایا جاتا ہے۔ عوام کو این ایف سی دکھا کر پی ایف سی کھانے والوں کا اپنا الگ ہی لیول ہے۔