"RKC" (space) message & send to 7575

Those who live by the gun

انگریزی کا یہ محاورہ بہت پہلے پڑھا تھا لیکن یقین اب آیا ہے کہ
Those who live by the gun, they die by the gun.
یہ محاورہ مجھے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد زیادہ یاد آ رہا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ دوسروں کو تشدد یا گولی کا نشانہ بنا رہے ہوں یا پھانسیاں دے رہے ہوں لیکن خود ان سزاؤں سے بچ جائیں۔ کتنے ہی بڑے بڑے بدمعاشوں یا غنڈوں کی مثالیں موجود ہیں کہ یا وہ پھانسی لگے یا پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ دہشت گردوں کو ہی دیکھ لیں جو دوسروں کو دہشت کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں ایک دن خود بھی کسی میزائل یا ڈرون حملے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو گولی وہ دوسروں کیلئے پسند کرتے ہیں‘ ایک دن وہی گولی ان کی اپنی طرف آ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں یہ احساس ہی نہ ہوتا ہو کہ ایک دن وہ بھی کسی کی گولی کا شکار بن سکتے ہیں۔ انسانوں پر حکمرانی کا جنون رکھنے والے کب سوچتے ہیں کہ ایک دن وہ خود بھی اس جنون کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ حکمرانی ایک پل صراط کی طرح ہے۔ آپ رحم دلی دکھائیں گے تو عوام آپ کو کھا جائیں گے‘ آپ کے خلاف سازشیں ہوں گی اور کسی دن آپ کے درباری ہی آپ کو مل کر قتل کر دیں گے‘ جیسے انسانی تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ لیکن اگر آپ بے رحم ہوں گے تو عوام آپ سے نفرت کریں گے اور موقع ملنے پر وہی حشر کریں گے جو کرنل قذافی کا ہوا یا حسینہ واجد کا ہو رہا ہے۔
اگر ہندوستان کی تاریخ میں سے مثالیں تلاش کرنی ہوں تو آپ سلطنتِ دلّی پر مسلم بادشاہوں کو دیکھ لیں۔ تین سو سال میں 33 بادشاہ گزرے‘ جن میں صرف تین رحم دل تھے اور وہ تین چار سال سے زیادہ حکمرانی نہ کر سکے۔ اوسطاً آپ دیکھ لیں کہ کسی بادشاہ کا دور دس برس سے زیادہ نہیں رہا کیونکہ دربار میں ہر وقت درباری‘ گورنر یا سپہ سالار سازشوں میں مصروف رہتے تھے کہ اپنا بادشاہ لانا ہے۔ یوں اپنا بادشاہ لانے کے جنون میں جنگیں لڑی جاتیں‘ سازشیں ہوتیں‘ بادشاہ قتل ہوتے اور ساتھ میں بادشاہ کا زنان خانہ قتل ہوتا یا نئے حرم میں داخل کر لیا جاتا۔ بادشاہ کے ساتھ اس کے درباری بھی قتل ہوتے۔ اگر تھوڑا سا بھی شک ہوتا کہ پرانے بادشاہ کا کوئی بچہ کل کلاں نئے بادشاہ کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے تو اس بچے کو بھی قتل کر دیا جاتا۔ یوں نئے بادشاہ بنتے رہے اور وہ بھی قتل ہوتے رہے اور ان کے درباری بھی۔ لیکن نہ بادشاہت کا جنون ختم ہوا نہ لوگوں نے بادشاہوں کا درباری بننے سے توبہ کی۔ بادشاہ کا درباری بننا اتنا بڑا نشہ تھا جو موت کے خوف پر بھی فتح پا لیتا تھا۔ انسانوں پر حکمرانی کرنے کا نشہ ہے ہی اتنا خوفناک کہ موت بھی اس کے سامنے ہیچ لگتی ہے۔ اس طرح اگر آپ ظلم اور دہشت کے ذریعے عوام پر حکومت کریں گے تو درباری سازشوں یا باغیوں کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ ممکن ہے کہ انہی عوام کے ہاتھوں مارے جائیں جن پر حکومت کرنا آپ اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لیبیا‘ مصر یا عراق کے لوگوں کو بھوک یا غربت کا مسئلہ تھا کہ وہاں جنگیں ہوئیں یا بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اس میں بیرونی طاقتوں یا امریکیوں کا ہاتھ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے عوام ہی اپنے حکمرانوں کے خلاف ہو گئے اور ایک دن کرنل قذافی اپنے عوام کے ہاتھوں مارے گئے۔ صدام حسین اور حسنی مبارک کا انجام بھی ملتا جلتا ہوا۔ اپنے اپنے دور میں انہوں نے کب سوچا ہو گا کہ جو ظلم وہ اپنے مخالفین پر کر رہے ہیں وہ خود بھی ایک دن اس کا شکار ہوں گے۔ وہی صدام حسین‘ جو دوسروں کی پھانسیوں کے ریڈ وارنٹ پر دستخط کرتے تھے‘ ایک روز خود بھی پھانسی لگ گئے۔
جدید دور میں ہمارے خطے میں ایسی مثالیں ڈھونڈنا ہوں تو اندرا گاندھی کی مثال موجود ہے۔ وہ گولڈن ٹیمپل میں خونیں آپریشن کے بعد قاتلانہ حملے کا نشانہ بنیں اور ماری گئیں۔ لیکن جس انداز میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو زوال آیا ہے‘ وہ بہت حیران کن ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس کی ڈھاکہ پر اتنی سخت گرفت ہے وہ راتوں رات اتنی غیرمقبول ہو جائے گی کہ اس کے خلاف ہنگامے شروع ہو جائیں گے اور اسے فرار ہو کر بھارت میں پناہ لینا پڑے گی۔ آپ اندازہ کریں کہ جب آپ کا وقت ختم ہوتا ہے تو پھر آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کب آپ کے نیچے سے زمین سرک گئی۔ طاقت کا حصول اور طاقت کا استعمال دو مختلف چیزیں ہیں۔ جو اِن میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتا وہ اسی طاقت کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اکثر حکمران حصولِ اقتدار کے بعد طاقت کے نشے میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ انہیں اُس دن احساس ہوتا ہے جب کسی عدالت کا جج انہیں پھانسی کی سزا سنا رہا ہوتا ہے‘ یا پھر جلاد ان کے چہرے پر کالا کپڑا ڈال کر نیچے سے یکدم لیور کھینچ لیتا ہے۔ وہ حکمران آخری دم تک یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے جیسے حسینہ واجد کو لگ رہا تھا۔ جماعت اسلامی یا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی ایسا سیاسی مخالف نہ تھا جسے حسینہ واجد نے پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔ وہ 1975ء میں اپنے والد شیخ مجیب الرحمن اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کی پُرتشدد موت کی یادوں سے چھٹکارا نہ پا سکیں۔ اس چیز کا بدلہ ہمیشہ ان کے سر پر سوار رہا‘ لہٰذا 2008ء میں لندن میں جلاوطنی میں الیکشن جیتنے کے بعد وہ واپس ڈھاکہ حکومت کرنے آئیں تو ان کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ وہ 1971ء میں واپس جائیں گی اور سب لوگوں کو پھانسیاں دیں گی‘ جو اُن کے خیال میں آرمی آپریشن میں ملوث تھے۔ وہ چاہتیں تو خود کو یقین دلا سکتی تھیں کہ 1971ء کا دور گزر گیا‘ ان کے والد نے حقائق کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کر لیے تھے۔ بنگالیوں کا بہت لہو بہہ چکا‘ یہ دھرتی مزید خون خرابہ یا تقسیم برداشت نہیں کر پائے گی لہٰذا وہ مخالفوں کو پھانسیاں لگانے کا خیال چھوڑ کرپورے بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں۔ لیکن وہی بات کہ طاقت اور انتقام ان کے ذہن پر سوار رہا۔ جو بھی مخالف ملا اس کو جنگی جرائم کا ملزم بنا کر اس کا کیس ٹربیونل میں بھیج کر مرضی کے ججوں سے پھانسی دلوا دی۔ جس پر شک ہوا کہ وہ اب بھی پاکستان سے کچھ تعلق محسوس کرتا ہے‘ اس پر مقدمات بنا کر اسے لٹکا دیا یا جیلوں میں ڈال دیا۔ یوں منہ کو ایسا خون لگا کہ جب آخری دنوں میں نوکریوں کے کوٹے پر طالبعلموں نے احتجاج شروع کیا تو 1400لاشیں نوجوانوں کی گرا دی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلی واردات یا پہلا جرم یا کسی کو پہلی دفعہ قتل کرنا مشکل ہوتا ہے‘ لیکن جب آپ ایک دفعہ وہ لکیر عبور کر جاتے ہیں تو پھر آپ کیلئے خون خرابہ یا مخالفوں کو قتل یا پھانسی لگانا ایک شغل بن جاتا ہے۔ حسینہ واجد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اتنے طویل اقتدار کے بعد وہ اب بے خوف ہو چکی تھیں۔ بے پناہ اختیارات اور زیرو سیاسی اپوزیشن نے ان کو ایک ایسی مخلوق کا درجہ دے دیا تھا جو نہ کسی کو جوابدہ تھی نہ کسی کو چھوڑنے پر تیار تھی۔ دیکھا جائے تو وہ ایک فاشسٹ اور آمر بن چکی تھیں۔
کہتے ہیں 'کرما‘ بڑی خطرناک چیز کا نام ہے۔ جو کچھ آپ دوسروں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ایک دن وہی سب کچھ آپ کی طرف لوٹ آتا ہے۔ یہ محاورے ایسے ہی نہیں بنے‘ ان کے پیچھے صدیوں کے تلخ تجربات اور نتائج ہیں۔ حسینہ واجد کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اپنے مخالفین کو پھانسیاں لگاتے لگاتے وہ خود اب پھانسی گھاٹ پر جا پہنچی ہیں۔ Those who live by the gun, they die by the gun۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں