"SUC" (space) message & send to 7575

دنیا سے لطف زیست جو دیوانہ لے گیا

میرے والد گرامی جناب محمد زکی کیفی کو(شاید میر کا ) ایک شعر بہت پسند تھا۔
وہ وہم میں نہ گزرا کبھی اہلِ ہوش کے
دنیا سے لطفِ زیست جو دیوانہ لے گیا
میں اپنے چچا مفتی رفیع عثمانی کے بارے میں سوچتا ہوں تولگتا ہے یہ شعر ان پر صادق تھا ۔ کیسی کمال زندگی بسر کی انہوں نے ۔کیسا لطفِ زیست لیا جو کسی بادشاہ کے وہم میں بھی نہ گزرا ہوگا۔اس لطف کانہ مال و دولت سے تعلق ہے ‘ نہ عہدے اور منصب سے اور نہ فراغت و مشغولیت سے۔یہ تو زندگی کا ایک چلن ‘ ایک سلیقہ ‘ ایک طرزِ فکرہے ۔اور کیا آپ نے کسی دکان پرزندگی کا چلن‘ سلیقہ ‘ طرزِ فکر فروخت ہوتے یا خریدے جاتے دیکھے ہیں؟جگر صاحب نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں /فیضان محبت عام سہی ‘ عرفان محبت عام نہیں
آخری بار لاہور کے سفر‘ نومبر 2020ء میں جب وہ میرے گھر بھی تشریف لائے تو ان کی صحت کے بارے میں میرے پوچھنے پر کچھ ذکر کے بعد کہا : '' خیر بھئی ! اللہ نے بہت اچھی گزروائی ۔خوب کھلایا ‘پلایا‘ پہنایا ‘ ہر طرح نوازا ۔ اب یہ صحت کے معمولی مسائل ہیں تو ان کا کیا ذکر کریں‘‘۔ اور یہ تشکر ان کی ساری زندگی کا چلن تھا۔زندگی سے شکوہ تھا ہی نہیں‘کچھ ہوتا بھی تو شکر کے سمندر میں اترجاتا۔ چچا رفیع کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ آہستہ رو زمانہ کتنا تیز رفتا ر ہے ۔ ہمارا ارد گرد کتنا کچھ بدل کر ہمیں بھی کتنا بدل چکا۔میری اولین یادوں میں چچا رفیع کی جو شبیہ موجود ہے اس میں ان کا ایک بال بھی سفید نہیں ہے ۔وہ ان کی بھرپور جوانی کی تصویر ہے ۔وجیہ‘ خوش پوشاک‘خوش مزاج اور خوش گفتار چچا رفیع جو پہننے اوڑھنے ‘کھانے پینے‘ملنے جلنے‘ گھومنے پھرنے کے شوقین تھے ۔جو سراپا محبت تھے اورمحبت کے اظہار پر یقین رکھتے تھے۔ زمانہ وہ تھا جب ہمارے وہ بڑے موجود تھے جو ان کے بھی بڑے تھے۔میرے عظیم المرتبت دادا مفتی ٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور میرے باکمال‘ صاحبِ دل والدجناب زکی کیفی خاندان کی سب سے بڑی شخصیات میں تھے۔چچا رفیع کی سسرال لاہور میں تھی اور تھی بھی ہمارے ہمسائے میں ۔ اس لیے ان کا اکثر لاہور آنا جانا رہتا تھا۔مجھے وہ منظر کل کی طرح یاد ہے جب چچا رفیع اور چچا تقی جنوبی افریقہ کے سفر سے واپسی پر لاہور تشریف لائے اور ان کے ساتھ ایک بڑی سی مشین تھی جس میں آواز محفوظ کرلی جاتی تھی ‘اسے ٹیپ ریکارڈر کہتے تھے اور اس میں چرخیوں کے فیتے پر آواز محفوظ ہوجایا کرتی تھی ۔ اسے سپول ٹیپ (Spool tape)کہتے تھے ۔ان دنوں ہمارا بہترین مشغلہ حیرانی اور خوشی سے وہ آواز یں سننا ہوتا تھا جو چند لمحوں قبل چچا رفیع اور چچا تقی نے اس میں ریکارڈ کی ہوتی تھیں ۔سال میں ایک دو بار ہمارا بھی کراچی جانا ہوتا تھا اوریہ ایسا ہی تھا جیسے اپنے ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہونا۔زمانہ ہی اور تھا ‘اب لگتا ہے کہ دنیا ہی اور تھی۔ ہفتوں اور مہینوں کے لیے کراچی جانا ہوتا تھا اور اس کے مواقع نکل ہی آتے تھے۔وہ محفلیں اب تک دلوں اور آنکھوں کے بہترین اثاثے ہیں جن میں دادے ابا کی تمام یا اکثر اولاد اکٹھی ہوتی تھی ۔پانچوں بیٹے ‘اکثر بیٹیاں اور ان کی اولادیں ۔ایک دوسرے سے نہایت بے تکلف اور محبت کرنے والے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بذلہ سنج‘ جملے باز‘ خوش مزاج ‘اور خوش گفتار۔میں گننا چاہوں تو ان محفلوں کو گن بھی نہیں سکتا ۔ایک محفل کی تصویر دوسری محفلوں کے ساتھ گڈ مڈ ہونے لگتی ہے۔کیا کچھ نہیں تھا ان میں۔بچپن اور ماضی کے قصے‘ واقعات‘ جملے ‘ اور یادیں ۔بات بے بات قہقہے گونجتے تھے اور مسکراہٹیں کھلتی تھیں۔شاعری ان محفلوں کا ایک اہم حصہ ہوتی تھی۔ ان دنوں بھی ہماری بہترین تفریح ان بڑوں کی محفلوں میں بیٹھنا تھا جہاں وہ کچھ ملتا تھا جو کہیں اور نصیب نہیں تھا۔انہی محفلوں کی ایک یاد چچا تقی کی شادی بھی ہے ۔چچا رفیع بھی ان محفلوں کی جان تھے۔وہ خود شاعر نہیں تھے لیکن باقی بہن بھائیوں ہی کی طرح شعر و ادب کا نہایت عمدہ ذوق رکھنے والے اور سخن شناس تھے۔البتہ ایک بار میں نے ان سے سنا تھا کہ میں نے زندگی میں ایک شعر ضرور کہا ہے ۔ اور انہوں نے وہ عمدہ شعر سنایا بھی تھا۔ممکن ہے کہیں محفوظ بھی ہو۔کراچی میں تو دراصل ہم دادا اور دادی جان کے مہمان ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ عمِ مکرم ‘مولانا محمد تقی عثمانی (اللہ انہیں صحت اور توانائیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے) بھی اپنے گھرانے کے ساتھ رہا کرتے تھے۔لیکن ہم بچوں کا اصل ٹھکانہ اس گھرسے ملحق چچا رفیع اور چچی جان کا گھر ہوا کرتا تھاجہاں ہمیں ہم عمروں کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور تفریح کے زیادہ مواقع ملتے تھے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے شور وغل سے دادے ابا ‘اور دادی اماں کے آرام میں خلل نہ ہو ‘جو اکثر صاحب ِفراش رہتی تھیں ۔ گھروں کے ملحق ہونے کی وجہ سے یہ گویا ایک ہی گھر تھا۔کھانا بھی اکثر و بیشتر ایک ہی جگہ ہوتا اور بڑوں کی محفلوں میں بھی سبھی موجود ہوا کرتے تھے۔
کیا کیا بدتمیزیاں کی ہیں ہم نے اس زمانے میں ۔ کیسی کیسی گستاخیاں ہوئی ہوں گی لاڈ اور پیار میں ۔ کچھ کا تو اچھی طرح پتہ ہے‘ کچھ کا شاید کبھی پتہ بھی نہ چلے کیوں کہ ہماری محبت میں سب کچھ ہنس کر ٹال دیا جاتا تھا۔چچا رفیع کا وہ گھر ایک بیٹھک‘ایک سونے کے کمرے ‘ ایک سٹور ‘ایک غسل خانے ‘باورچی خانے پر مشتمل تھا۔برآمدہ اور لان ان کے علاوہ ۔ لیکن اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس گھر میں جس میں دراصل صرف ایک کمرہ تھا‘چچا رفیع اور چچی جان نے بہت طویل عرصہ گزارا‘جبکہ ان کے چار بیٹے بیٹیاں بھی موجود تھے جو اس وقت سب چھوٹے تھے۔پھر ہم بھتیجے بھتیجیاں‘ بھانجے بھانجیاں بھی ان کی محبت کی وجہ سے وہاں پہنچ جاتے تھے بلکہ کہناچاہیے کہ مسلط ہوجاتے تھے۔اب خیال آتا ہے کہ ہمارے شور ہنگامے ‘بھاگ دوڑ سے وہ کتنے تنگ ہوتے ہوں گے۔لیکن مجھے کبھی یاد نہیں کہ انہوں نے ہمیں ڈانٹا ہو‘یا ہم نے ان کے ماتھے پر ناگواری کی شکن دیکھی ہو۔وہ تو خاندان کے ہم سب چھوٹے بڑے بچوں کو اکٹھا دیکھ کر نہال ہوجایا کرتے تھے اور ہم سب کی محبت ان کے رگ و ریشے سے پھوٹتی تھی۔ان کے ذرائع آمدن اس وقت بھی محدود تھے اور بہت بعد تک بھی یہی صورتحال رہی ۔ایسے میں ان کے اپنے شوق ‘ایک بڑی سسرال میں ربط ضبط‘مسلسل مہمان داری ۔حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہوگا۔انہیں کھانے پینے کا بھی شوق تھا اور کھلانے پلانے کا بھی ۔ہر شہر اور ہر جگہ کے اچھے کھانے ان کے علم میں ہوتے تھے۔اسی طرح انہیں پودوں ‘ پیڑوں اور باغبانی کا بھی بہت شوق تھا جس کیلئے وہ آخر عمر تک وقت نکالتے تھے۔میں نے بہت سے پودوں اور بیلوں کے نام پہلی بار انہی سے سنے۔ان کے پرانے گھر میں بھی اور بعد کی تعمیر میں بھی پھل دار‘ پھول دار‘ خوشبو دارپیڑوں اور پودوں کی بڑی تعداد تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے پرانے گھر میں جہاں ہم بچوں کازیادہ ٹھکانہ لان اور شہتوت ‘ شریفے کے درخت تھے‘چمپا کا ایک خوبصورت سفید پھولوں والا درخت بھی لگا ہوا تھا۔ایک بار میں کھیلتے ہوئے اس کے ایک بڑے ٹہنے پر چڑھ گیا۔ چمپا کی ٹہنیاں نازک ہوتی ہیں ۔وہ بڑا ٹہنا تڑاخ سے ٹوٹ گیا۔ہمیں اس درخت سے چچا کی محبت کا علم تھا اسلئے نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا تھا۔ عینی گواہ کم تھے اس لیے میں نے طے کرلیا کہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں صاف مکر جاؤں گا۔چچا شام کو آئے اور انہیں اطلاع ملی تو وہ چمپا کی طرف آئے ۔انہوں نے بچوں سے کچھ پوچھا نہ مجرم کا تعین کیا ۔ بس یہ کہا کہ ہائے ! کیسا خوبصورت پودا تھا۔کیسا نقصان ہوگیا۔بس اتنا ہی ۔ نہ ڈانٹ ‘نہ غصہ‘ نہ ہم پرپابندی ‘ لیکن ان کی دکھ بھری آنکھیں اور چہرہ مجھے اب تک یاد ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں