گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی میں ہوں۔اپنے محبوب عم مکرم مفتی تقی عثمانی کے عزیز اور سجیلے پوتے کی شادی کے سلسلے میں۔ایسی ہی تقریبات میں خاندان بھر سے ملاقات ممکن ہوتی ہے۔ان عزیزوں سے بھی جن سے کئی کئی سال کے بعد ملاقات اسی طرح ہوا کرتی ہے۔لیکن یہ اصل میں اس شہر ِدلدار سے ایک بار پھر ملنے کا موقع ہوتا ہے جس کا نام کراچی ہے۔ اب کتنے ہی عشرے گزر چکے کہ اس ملاقات میں جلن کڑھن اور افسوس غالب رہتے ہیں۔ ویسے تو اپنی زمین کا ہر شہر ہر قصبہ ہر گاؤں اپنا ہی مسکن ہے لیکن جن شہروں اور علاقوں نے آپ کے بچپن‘لڑکپن اور جوانی پر سایہ کیے رکھا ہو‘انہیں برے حال میں دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے۔ کراچی نے مجھے بچپن سے لے کر زوالِ عمر کے موجودہ دور تک ہر طرح جیا ہے۔کورنگی‘لسبیلہ‘ گلشنِ اقبال‘بنوری ٹاؤن‘ گلستانِ جوہرسمیت کراچی کے بہت سے گوشوں سے میری یادیں وابستہ ہیں۔اس وقت سے کراچی آنا جانا ہے جب یہ دینی روایات‘ تہذیب‘ تمدن‘ ادب‘فنونِ لطیفہ کے حوالوں سے اپنے عروج پر تھا۔جب کراچی روشنیوں کا شہر تھا اور پورے ملک کو روشنی فراہم بھی کرتا تھا۔اتنا تہذیب یافتہ شہر پورے ملک میں کوئی اور نہ تھا۔یہ پر بہار شہر دارالحکومت بدل جانے کے باجوود بھی عملاًـ پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔پچاس کی دہائی سے اَسی کی دہائی کے وسط تک کا یہ دور کراچی میں ایسا تھا جس کو اب حسرت ہی سے سوچا جاسکتا ہے۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بعد کے ادوار میں کسی شہر کے ساتھ ایسی نا انصافیاں اور ظلم نہیں ہوئے جیسے کراچی کے ساتھ ہوئے۔کون سی زیادتی تھی جو اس کے ساتھ روا نہیں رکھی گئی۔ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہر اور قصبات تک ترقی کرتے گئے لیکن کراچی کو زوال در زوال کی طرف لے جایا جاتا رہا۔پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا‘ سب سے زیادہ معاشی سرگرمیوں والا‘سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ رکھنے والاشہر صاف پانی اور صاف ہواکو ترسنے لگا۔سب سے زیادہ قتل و غارت‘سب سے زیادہ بھتہ خوری‘سب سے زیادہ بد امنی اس شہر کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دی گئی جس کے شہری سب سے زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ تھے۔وہ نسلیں اور ان کی اولادیں جنہوں نے پاکستانی بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی تھی‘انہیں ایک بدبودار اور متعصب شناخت تک محدود رکھنے کی کوشش کی گئی۔مہاجر کے حقوق کا نعرہ لگا کر ان کے حقوق پر سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا۔ہجرت کرنے والوں کو ایک اور بلکہ کئی اور ہجرتوں پر مجبور کردیا گیا۔
کس کس کا نام لیں۔ کس کو ذمے دار ٹھہرائیں۔ کراچی کے معاملے میں سب کے نقاب اترے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ پی ٹی آئی۔مسلم لیگ (ن)۔ ہر ایک نے کراچی کو سونے کے انڈے دینے والی مرغی سمجھا۔ پیپلز پارٹی کے مسلسل کئی عشروں سے اقتدار میں کراچی نے کیا فیض پایا ہے ؟کوئی بتا سکتا ہے ؟ ایم کیو ایم نے ہر دور می صوبائی اقتدار میں شراکت کی لیکن کراچی کو کیافائدہ پہنچایا ؟کسی کو علم ہے ؟مسلم لیگ (ن) تو خیر سندھ میں نہ ہونے کے برابر ہے‘لیکن جتنی بھی اس کی نمائندگی ہے‘کیا کسی بھی درجے میں ان نے ملک گیر جماعت کا کوئی کردار ادا کیا ؟ رہی پی ٹی آئی اور عمران خان تو سب سے زیادہ غصہ مجھے ان پر ہے۔ اور غصے کی وجہ یہی ہے کہ باقی سے تو توقع ہی اُٹھ چکی تھی۔ ان سے کچھ امیدیں لگا لی تھیں۔ اور ان امیدوں کا جس طرح قتل عمران خان نے کیا‘اس کی کوئی مثال نہیں۔
2018ء اور اس سے قبل 2013ء کے انتخابات یاد کرلیں۔ کراچی نے جس طرح عمران خان کا ساتھ دیا‘ جس طرح انہیں نشستیں دلوائیں‘سفاک اور بے رحم جماعتوں کی دھمکیوں اور قتل و غارت برداشت کرکے بھی جس طرح عمران خان کو مقبولیت کے بام عروج تک پہنچایا‘کیاوہ پوری دنیا نے نہیں دیکھا تھا۔اہلِ کراچی کو بھی خان صاحب سے وہی توقع تھی جو پورے ملک کو تھی اور وہ یہ کہ برسر اقتدار آکر وہ نا انصافیوں اور زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔
2018ء میں عمران خان نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو ایسا لگتا تھا کہ صدیوں جیسے انتظار کے بعد اس ازالے کا وقت بالآخر آگیا ہے۔ہر وزیر اعظم کی روایت ہوا کرتی تھی کہ کہ حلف برادری کے بعد پہلا دورہ کراچی کا ہوتا تھا۔ مزارِ قائد پر حاضری اوراس عہدے کا عہد نبھانے کی یہ ایک اچھی روایت تھی۔ یہ اچھی روایت عمران خان نے پہلے ہی مہینے میں توڑ دی۔ خان صاحب نے کئی ماہ کراچی کا رُخ نہ کیا۔مزارِ قائد بھی وزیر اعظم کا انتظار کرتا رہااور اہلِ کراچی بھی اس عمران خان کا انتظار کرتے رہے جو ووٹ کی اپیل اور سبز وعدوں کے ساتھ کراچی میں بار بار آیا کرتے تھے۔ عمران خان نے کراچی کے معاملات میں وہی روش اپنا لی‘وہی مؤقف بنا لیا جو نواز شریف کا تھا۔ اور وہ یہ کہ وفاقی حکومت تو کام کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں کرنے دیتی۔یاد ہوگا کہ کراچی پر قدرتی آفتیں آپڑیں تو وزیر اعظم عمران خان کو مجبوری میں کراچی آنا پڑا۔وہ آئے تو ایک بار پھر سبز باغ ساتھ لائے۔کسی کو گیارہ ارب روپے کی خطیر رقم اور کاغذی منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان یاد ہیں ؟اگر یاد ہیں توکچھ بتائے کہ وہ منصوبے اور وہ گیارہ ارب روپے کدھر گئے ؟کبھی دوبارہ عمران خان کے منہ سے ان کا ذکر سنا ؟نہ سنا ہوگا‘ نہ کبھی سنیں گے۔
میں میں گزشتہ کئی دن سے متواتر کراچی کی سڑکوں پر گھومتا رہا ہوں۔کون سی سڑک ہے جو ادھڑی ہوئی نہیں ہے۔ وہ متمول علاقے ذرا دیکھ لیں جہاں لوگ لاکھوں روپے کا ٹیکس دیتے ہیں اور جن کی زمین کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی کروڑوں روپے میں جانچا جاتا ہے۔ان علاقوں میں سڑکیں گڑھوں میں بدل چکی ہیں اور غلیظ پانی جوہڑوں کی طرح ان سڑکوں اور گلیوں میں موجود ہے۔آپ انہی سے ان بستیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں جو متوسط یا کم حیثیت لوگوں کی رہائش گاہ ہیں۔ میں ایک عزیز دوست کے ساتھ نکلا‘ان کا دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر تھا۔ اورہمیں گلستان جوہر جانا تھا۔ کیا بتائیں کہ رات ساڑھے نوبجے بھی جب ٹریفک کم کم ہونی چاہیے‘ایک ایک گز عبور کرنا مشکل ہورہا تھا۔ ہمیں اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے کم و بیش دو گھنٹے لگے۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ شارع فیصل پر ایک سیاسی و مذہبی جماعت کا جلسہ ہورہا تھا۔ سڑک تنگ تھی اور ٹریفک بمشکل گزر رہی تھی۔یہ تکالیف‘یہ عذاب‘ یہ باتیں اس شہر کا معمول بن چکی ہیں۔ ان دنوں مئیر کا الیکشن سر پر ہے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ میئر شپ ان کا حق ہے او رپی ٹی آئی کے ارکان کے ساتھ مل کر وہ یہ الیکشن جیت لیں گے۔ لیکن دوسری طرف نو مئی کے واقعات کی آڑمیں پی ٹی آئی کے ان ارکان کو اغوااورگرفتار کیا جارہا ہے جو ووٹ پیپلز پارٹی کے خلاف ڈال سکتے تھے۔ایک واضح اکثریت کو پیچھے دھکیلنے کی یہ کوشش کس جمہوری روایات کا حصہ ہیں ؟لیکن یہ سب ہورہا ہے۔ کھلے عام ہورہا ہے اور کوئی والی وارث نہیں۔ جو معاملات ایوانوں میں طے کرنے کے تھے‘عدالتوں میں طے ہورہے ہیں۔اور طے بھی کہاں ہورہے ہیں۔ مزید الجھ رہے ہیں۔ مئیر طے ہو تو کچھ کام بھی ہو۔ سو نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
کراچی کو دیکھیں تو آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ دل کٹ جاتا ہے اور پاؤں من من بھر کے ہوجاتے ہیں۔ کب تک یہ شہر اسی طرح سسکتا رہے گا۔؟کب تک سبز باغ دیکھتا رہے گا؟ کب تک قربانی دیتا رہے گا؟