"SUC" (space) message & send to 7575

ایک الگ طرح کا دن

آج صبح جب آپ اٹھے ہیں اور نہا دھو کر تیار ہوئے ہیں تو اس سے پہلے نہائی دھوئی‘ سجی سجائی بقر عید آپ کے گھر داخل ہو چکی ہے۔ یہ عید الاضحی آپ کی زندگی میں کتنی ہی بار آئی ہے لیکن ہر بار ایک الگ روپ میں۔ بچپن میں یہ کچھ اور تھی‘ لڑکپن میں اور۔ جوانی تک آتے آتے یہ کئی رنگ بدل چکی تھی۔ اور ادھیڑ عمری میں‘ بشرطیکہ آپ اس دور میں داخل ہو چکے ہیں‘ ایک نئے ذائقے کے ساتھ۔ یہ وقت ہے کہ میں آپ سب کو اس بقر عید کی مبارک پیش کروں۔ عید الاضحی مبارک۔
میں نے کئی بار سوچا کہ عیدالفطر یا عیدالاضحی کی صبح ایک الگ طرح کی صبح کیوں ہوتی ہے؟ یہ باقی 365دنوں جیسی کیوں نہیں ہوتی؟ اور مجھے کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ عیدالفطر کی صبح کا تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ رمضان میں سحری‘ افطاری کے معمول کے بعد ایک دم پرانے معمول کی طرف واپسی نئی نئی لگتی ہے۔ لیکن عید الاضحی میں تو یہ معمول بھی نہیں بدلتا۔ پھر بھی ایک دم سب کچھ مختلف لگتا ہے۔ ہاں! صبح عیدین کی نماز کے لیے اکٹھے جانا‘ واپس آنا بھی ان دنوں کو بہت مختلف بنا دیتا ہے۔ اور اس دن آنے جانے میں ایک مختلف احساس یہ بھی ہوتا ہے کہ شہر ایک دم پُرسکون سا لگتا ہے۔ سڑکیں کھلی اور خالی۔ ٹریفک کم اور رواں۔ لوگ کم کم اور اجلے اجلے۔ یہ دن کافی کچھ بدل دیتا ہے۔ قربانی کے دن تو پُرسکون ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے اور اس کے نتیجے میں کتنی بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ کتنے لوگوں کو گوشت میسر آتا ہے اور کتنے لوگوں کو روزگار۔ اس پر مکمل اعداد وشمار کے ساتھ تجزیے موجود ہیں۔ یہ خالق کا حکم اور لوگوں کی فلاح کا انتظام ہے۔ یقینا کوئی انسان یہ نظام بنا ہی نہیں سکتا تھا۔
عید سے پہلے کے دو تین دنوں اور خاص طور پر راتوں میں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شہر کی الگ الگ ثقافت تو ہے ہی لیکن ایک ہی شہر میں ہر علاقے کا رنگ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ اندرون شہر اور طرح کی رونقیں ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں گھروں کی دہلیزوں پر بندھے مینڈھے‘ بکرے اور دنبے جو دروازے پر چوکیدار کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ نسبتاً کسی کھلی جگہ پر گائے اور بچھڑے بندھے ہوتے ہیں جو علاقے کے بچوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ اندرون شہر اونٹ کی قربانی کم ہے لیکن ان سب جانوروں کو رنگ رنگ کے ہاروں سے سجانا‘ مہندی اور رنگوں سے ان کی کھال پر نام لکھنا‘ ایک دوسرے کے جانور دیکھنے کے لیے جانا ان گلیوں محلوں کا معمول ہے۔ جانوروں کی مشترکہ چہل قدمی بھی اسی میں شامل ہے۔ اندرون شہر یا ملحقہ علاقوں کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ ایک مینڈھا یا بکرا سال بھر پالا جاتا ہے اور اسے بڑے ناز و نعم سے رکھا جاتا ہے۔ روز ٹہلانے کے لیے لے جانا لازمی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے‘ قدرے چھوٹے قد کا وہ گندمی رنگ شخص آجاتا ہے جو ایک فربہ مینڈھا پالتا تھا اور اسے روز شام ڈھلے انارکلی بازار سے گزار کر ٹہلانے لے جاتا تھا۔ وہ مینڈھا بھی اس راستے کو پہچانتا اور دوڑا چلا جاتا تھا۔ وہ شخص بمشکل اس کے ساتھ دوڑ رہا ہوتا تھا۔ لیکن اگلی شام ہمیں پھر یہی منظر دکھائی دیتا تھا۔ جب عید الاضحی پر یہ مینڈھا قربان کیا جاتا تو اس شخص کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے‘ بمشکل اسے قرار آتا تھا۔ مجھے کئی بار خیال آتا ہے کہ اس کی قربانی کتنی مشکل اور کتنی دل سے ہوتی ہوگی۔ اصل قربانی اگر اپنے دل پر خنجر چلانا ہے تو وہ اصل قربانی کرتا تھا۔ لیکن عید کے کچھ دن بعد پھر نیا دنبا یا مینڈھا اور پھر وہی معمول۔
ذرا کھلے اور متوسط طبقوں کے علاقوں کی طرف آجائیں تو ان کا ماحول قدرے مختلف ہے۔ یہاں گھر ایک دوسرے کے ساتھ اتنا قریبی ربط نہیں رکھتے کہ ہر وقت آنا جانا ہو لیکن دکھ سکھ میں بہرحال شریک رہتے ہیں۔ بہت بار جانوروں کی خریداری کے لیے بھی کئی ہمسائے اکٹھے نکلتے ہیں۔ عام طور پر چھوٹے گھروں کے پورچوں اور گیراجوں میں یہ جانور باندھے ہوتے ہیں اور ان دنوں گاڑیاں باہر گلی میں کھڑی ہوتی ہیں۔ کوئی ملنے والا گھر میں داخل ہو تو پہلے دنبوں‘ چھتروں اور بکروں سے سلام علیک کرنی پڑتی ہے لیکن جن گھروں میں یہ جگہ نہیں ہوتی‘ وہاں بکروں کو چھت پر باندھا جاتا ہے۔ کئی گھروں میں جہاں جانور پالنے کا شوق ہو‘ بچھڑے اور گائے بھی چھت پر رکھے جاتے ہیں۔ یہ یقینا بہت مشکل کام ہے۔ ہم نے تو وہ تصویریں اور وڈیوز بھی دیکھی ہیں جن میں کوئی موٹی تازی گائے یا فربہ بیل کرینوں کے ذریعے چھت سے اتارے جارہے ہیں اور گلی میں تماشائیوں کا ہجوم لگا ہے۔
پُر آسائش‘ کھلے اور جدید علاقوں کا حساب کتاب اور ہے۔ قربانیاں عام طور پر وہاں بھی ہوتی ہیں لیکن ان میں وہ مالدار لوگ بھی ہیں جو اس سے بے نیاز ہیں۔ عام طور پر عید سے دو تین دن پہلے ان گھروں سے بکروں کے ممیانے‘ بچھڑوں کے ڈکرانے اور اونٹوں کے بغبغانے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ گھر وسیع ہیں اس لیے اندر باندھنے میں کوئی مشکل نہیں۔ البتہ گند سے بچنے کے لیے یہ بھی ہو رہا ہے کہ قریبی کھلے پلاٹ یا پارک میں ایک ٹینٹ لگا کر اکٹھے بہت سے جانوروں کواس میں رکھا جائے اور دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے ایک دو آدمی رکھ لیے جائیں۔ گھروں میں گند‘ قصائی کا بروقت نہ پہنچنا اور نخرے‘ چارے کی مہنگائی‘ جانوروں کو سنبھالنا‘ گلیوں محلوں میں آلائشیں۔ یہ سب مسائل پورے معاشرے کو تبدیلیوں کی طرف لے جا رہے ہیں۔ مدارس اور مسجدوں کے مکاتب تو پہلے سے مشترکہ قربانی کے بندوبست اور بروقت حصے داروں میں گوشت تقسیم کردینے کا کام کر رہے تھے‘ پہلے گوشت خود لانا پڑتا تھا۔ اب اس میں تبدیلیاں بھی آگئی ہیں۔ اب گھروں میں بہت صفائی سے پیکنگ کرکے گوشت بروقت پہنچانے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔ جو ذمے دار ادارے ہیں‘ ان کا یہ بندوبست بھی اچھا ہے۔ اس سے لوگوں کو بہت سہولت بھی ہوئی ہے اور یہ کم خرچ بھی پڑتا ہے۔ مجھے دو تین سال سے ایسے ہی ایک ادارے کا تجربہ ہے اور یہ تجربہ کامیاب ہے۔ کچھ تجارتی کمپنیاں بھی انہی کی دیکھا دیکھی آگئی ہیں۔ میں نے دو سال ان کا تجربہ بھی کیا لیکن یہ ناکام رہا۔ اول تو گوشت کی مقدار کم ملتی ہے اس لیے مہنگا پڑتا ہے۔ دوسرے ایک سال یہ بھی ہوا کہ جب بھیجا گیا تو گوشت خراب ہونے کا شبہ تھا۔
لاہور میں قربانی کی آلائشیں اٹھانے کا بندوبست کئی سال سے بہتر ہو رہا ہے۔ اب متعلقہ عملہ ہر علاقے میں جاکر یہ اٹھا لیتا ہے۔ جو بہت اچھی بات ہے۔ ابھی تو اس میں شاید عشرے لگیں گے لیکن مجھے لگتا ہے کہ بالآخر پاک و ہند میں نظام وہی بن جائے گا جو عرب ممالک سمیت بہت سے اسلامی ملکوں میں بن چکا ہے۔ قربانی کی جگہیں مخصوص ہوں گی‘ آن لائن جانور خریدا اور بیچا جائے گا‘ گوشت بن کر گھروں میں پہنچ جائے گا یا منگوا لیا جائے گا۔ قصائی کے بہروپ میں پھرتے ہر طرح کے مزدور ختم ہو جائیں گے۔ مشکلات پیدا ہوں گی‘ آسانیاں بھی جنم لیں گی۔ میری خوشی اس میں یہ ہوگی کہ یہ جو قربانی میں نمود و نمائش کا عنصر کافی بڑی مقدار میں شامل ہو چکا ہے‘ ختم ہو جائے گا۔
بے شمارگردو غبار اور آندھیوں کے بیچ ایک بار پھر ہمیں بقر عید نصیب ہوئی ہے۔ میں گلی گلی‘ محلہ محلہ پھر رہا ہوں‘ قربانی کے سجے سجائے جانوروں کو دیکھ رہا ہوں‘ گھر والوں خاص طور پر بچوں کو انہیں پیار کرتے اور ذبح پر آنسو بہاتے دیکھ رہا ہوں۔ ان لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جنہیں اس مہنگائی میں ان چند دنوں میں گوشت ملتا ہے۔ میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ خود قربانی کرنا بھی ان کے نصیب میں کرے۔ بقر عید کی خوشیاں پورے معاشرے کے حصے میں آئیں۔ یہ پیارا ملک ہنستا بستا رہے کہ اسی سے ہمارا ہنسنا بسنا جڑا ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں