بوڑھے مریض کو اندازہ ہوگیا کہ اب اس کے صحت یاب ہونے کا امکان نہیں ہے اور آخری وقت آ پہنچا ہے۔وہ پیرانہ سالی میں گھر کے چین و آرام سے ہزاروں میل دور اس پُر مشقت سفر پر صرف ایک سبب سے آیا تھا۔ اس کے ساتھی‘اس کے دوست‘ اس کے نبی اور یثرب میں اس کے عزیز ترین مہمان نے کہا تھا کہ ''تم ضرور ایک دن قسطنطنیہ فتح کرو گے۔ پس کیا اچھا امیر ہوگا اس لشکر کا امیر بھی اور کیا لشکر ہوگا یہ لشکر بھی‘‘۔حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے جب اس جہاد میں شرکت کی تو وہ اچھی طرح اس کے نشیب و فراز سے واقف تھے لیکن اس لشکر میں حصہ لینے کی سعادت ان کے لیے ہر خطرے اور ہر فکر سے بالاتر تھی۔قسطنطنیہ کی فتح تواس وقت مقدر میں نہیں تھی لیکن لشکریوں کو اس فضیلت سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔محاصرہ لمبا ہوا اورحضرت ابو ایوب ؓ کا آخری وقت آگیا۔انہوں نے امیرِ لشکر کو بلایا اور وصیت کی کہ مجھے دشمن کے علاقے میں قسطنطنیہ کی فصیل کے جتنے قریب لے جانا ممکن ہو ‘لے جانا اور وہیں دفن کردینا۔یہ وصیت بھی تھی اور میزبانِ رسول کا حکم بھی ۔سو تعمیل ہوئی اور زمین کے اس ٹکڑے کوہمیشہ کے لیے ایک جلیل القدر صحابی کو اپنی آغوش میں سمانے کی فضیلت مل گئی۔
یاد آیا کہ کم و بیش یہی دن تھے جب سب سلطانوں سے بڑے سلطان کے حضور میری پہلی حاضری ہوئی تھی۔ قسطنطنیہ کے فتح کی یہ بشارت سلطان محمد فاتح اور ان کے لشکر کے ذریعے 29مئی1453ء کوپوری ہوئی۔قسطنطنیہ اب استنبول ہے اور اس کے یورپی ساحل کا ایک محلہ ' ' فاتح ‘ ‘کے نام سے موسوم ہے۔اسی علاقے میں سلطان محمد فاتح کی مسجد بھی ہے اور مزار بھی۔ترک روایت کے مطابق صاحب ِ مزار کے سرہانے کی طرف ایک بڑی سنگی دستار بنائی گئی ہے جو اس کے مرتبے اور مقام کو ظاہر کرتی ہے۔یہ دستارِ فضیلت خاص لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔اب تا قیامت یہ اعزاز اور یہ لقب فاتح سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ میں اس سنگی دستار کے سرہانے کھڑا فاتح کو ایصالِ ثواب کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کوئی بڑی سے بڑی دستارِ فضیلت بھی اس قابلِ صد رشک مرتبے کو بیان نہیں کرسکتی جو سلطان محمد فاتح کے حصے میں آچکا ہے ۔
آدمی استنبول آئے اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضر نہ ہو ‘ کیسے ہوسکتا ہے ۔ایک جمعے کی دوپہر بارہ بجے کے لگ بھگ میں مزار کے باہر پہنچ گیا۔میری توقع سے کافی زیادہ ہجوم تھا اور مرد عورتیں اور بچے آئے ہوئے تھے۔کچھ بچے باقاعدہ نیلے اور سفید روایتی ترکی فوجی لباس میں تھے اور ان کے پہلو میں چمکدار روپہلی تلواریں تھیں۔معلوم ہوا کہ بہت سے گھرانے بچے کی تعلیم یا کسی خاص مرحلے کا آغاز اس مزار پر حاضری سے کرتے ہیں ۔ یہ روایت ترکوں میں چلی آتی ہے ۔ اس سے پہلے مجھے یہ تو معلوم تھا کہ نیا سلطان سب سے پہلے مزارِ حضرت ابو ایوب انصاریؓ پر حاضری دینا باعثِ سعادت سمجھتا ہے اور یہ روایت تسلسل سے جاری تھی۔ میں باوضو اس حجرے میں داخل ہوا جہاں میزبان ِ رسولﷺ کی خواب گاہ تھی۔ہجوم کے باوجودمزار کے چاروں طرف پھر کر اسے دیکھنے اور دعائیں کرنے کا موقع مل گیا۔جن مرد‘ عورتوں کو اندرونی حجرے میں داخلے کا موقع نہیں مل رہا تھا وہ بیرونی جالیوں ہی سے اندر جھانک رہے تھے ۔ ان کے چہروں پر عقیدت جھلک رہی تھی اور وہ ترک لہجے میں دعائیں پڑھ رہے تھے ۔یہ محبت والہانہ تھی اور کیوں نہ ہوتی وہ سلطان ایوپ کے دربار میں آئے ہوئے تھے۔ مزار کے ساتھ مسجد میں جس طرح گھس کر اور ایک ڈیڑھ مربع فٹ میں کسی طرح بیٹھ کر میں نے نماز جمعہ پڑھی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ہجوم تھا کہ سیڑھیوں پر بھی مصلے بچھا کر بیٹھا تھا۔پتہ چلا کہ ہر جمعے کے دن یہاں اسی طرح لوگ پہنچتے ہیں۔کھدائی کے کام والی لکڑی کے بہت اونچے اور روایتی ترکی منبر پر امام نے خطبہ دیا جو اس کے ترک لہجے کے باوجود کافی حد تک سمجھ آ رہا تھا۔مزار اور مسجد کے احاطوں سے باہر نکلے تو لوگ ایک جگہ جمع تھے۔کچھ ہی دیر میں روایتی ینی چری (نئی فوج)کی وردیاں پہنے تنومند ترک نقارے ‘ بگل اور ڈرم بجاتے آپہنچے ۔یہ روایت بھی شاید پرانی چلی آتی ہے کہ ترک فوجی دستہ جمعہ کے دن یہاں پریڈ کرتا اور شاید صاحبِ مزار کو سلامی پیش کرتا ہے۔
استنبول کی تھوڈیسس کی بنائی ہوئی دہری فصیل اورسڑک کے درمیان بہت سے انجیر کے درخت ہیں۔ایک خوانچے والا یہ موٹا رسیلا انجیر بیچ رہا تھا۔ ایک انجیر کھایا توطبیعت ہری ہوگئی ۔یہ کہنا غلط ہوگا کہ شہد جیسی تھی کیونکہ شہد میں مٹھاس تو ہوتی ہے لذیذذائقہ نہیں ۔جبکہ یہ انجیر مٹھاس اور ذائقے دونوں میں کمال تھا۔میں استنبول میں ترک دوستوں سے مل رہا تھا۔طیب اردوان کے حامیوں کی طرح اس کے مخالفوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی ۔مخالف بھی ایسے ویسے نہیں ‘کٹر رائے رکھنے اور اردوان کے نام پر آنکھوں سے شعلے برسانے والے۔ لیکن یہ ظاہر تھا کہ زمانے کے مد و جزر ‘ترکی میں خلافت کا خاتمہ‘ماضی سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش‘زبان اور رسم الخط کی تبدیلی ‘فوج کا سیاسی کردار‘ رہنماؤں کا قتل اور بے توقیری ‘سیکولر شناخت پر اصرار‘ یہ سب مل کر بھی ایک عام ترک کے دل سے وہ محبت نہیں کھرچ سکے جو اسے اپنے مذہب اور اپنے ماضی سے تھی۔ وہ ''سلطان ایوپ‘‘ کہتے ہوئے آج بھی محبت سے بھر جاتا ہے ۔ترکمان ِ سخت کوش خاک و خوں میں مل کر بھی اپنے سرمائے پر نازاں رہا۔اس نے سزائیں بھگتیں لیکن وہ اپنی جزا کسی اور سے ہی مانگتا رہا ۔ اس کی استقامت اور عزیمت ناقابلِ تسخیر ہی رہی۔ مغرب اپنی پوری اوربے پناہ طاقت کے ساتھ طیب اردوان کی مخالفت میں کھڑا ہے ۔یورپی یونین میں ترکی کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ ترکی یورپ کا جغرافیائی حصہ ہے ۔ ترکی دنیا میں دو قومی نظریے کی ایک روشن مثال ہے جسے الگ محض اسی لیے رکھا گیا کہ یورپی اقوام سمجھتی ہیں کہ ترکی ان کے مذہب‘ ثقافت اور تمدن سے الگ ایک قوم ہے ۔ یہ دو قومی نظریہ ترکی میں مسلمانوں نے نہیں یورپی یونین نے پیش کیا ہے ۔ یورپ کے دہانے پر ایک مسلمان ملک ‘ وہ بھی خوددار اور باحمیت ملک۔ معاشی ‘انتظامی اور عسکری لحاظ سے مستحکم ملک جو آئینی تبدیلیوں سے بھی گزررہا ہے ‘کیسے برداشت ہوسکے گا ‘لیکن یہ بات طے ہے کہ طیب اردوان کی سوچ اور عمل کو برداشت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ترکی کے اندر اس وقت بھی ان لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور طاقتور ہے جو اردوان کی حکومت نہیں بلکہ اس کے نظریے سے نفرت کرتے ہیں ۔ حالیہ انتخاب میں اردوان نے فتح حاصل کی لیکن دوسرے مرحلے میں پہنچ کر ۔ یہ بھی ثابت ہوگیاکہ اس کے مخالفین کی بڑی تعداد موجود ہے۔
میں غلاطہ برج کے قریب کھڑا ترک دوستوں کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ قسطنطنیہ کی تھیوڈوسین فصیل کی دہری تہری سنگی دیواریں ‘فصیل کے قریب ' ' سلطان ایوپ ‘ ‘ کا مزار‘ فصیل کے باہر بڑے بڑ ے رسیلے انجیر کے باغات‘ شاخِ زریں ‘ بہتا پانی ‘باسفورس کا پُل اور دور بحیرہ ٔ مرمرا میں پرنسس آئی لینڈز کے سرسبز جزائر‘سب اس اسٹیج کے مناظر ہیں ۔ سیٹ تیار ہے۔سب دیکھ رہے ہیں کہ اب کون سا منظر نمودار ہونے کو ہے ۔ کن کرداروں کے کیا کردار نظر آنے کو ہیں ۔ترکی بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے ۔لیکن یہ طے ہے کہ ترکمان سخت کوش بہت سی مشکلات سے نکلتا آیا ہے وہ اس سے بھی نکل آئے گا۔