"SUC" (space) message & send to 7575

روئے اُفق پہ صبح کے آثار دیکھنا

زخم زخم ملک شام کی خبریں پہنچتی ہیں اور وہاں کے حالات پڑھتا ہوں تو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کا نورانی چہرہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کا خوبصورت چہرہ ہی میرے نزدیک شام کا چہرہ تھا۔ یہ شاید 1977ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی کہ میرے مرحوم بھائی جان مفتی محمود اشرف عثمانی نے بتایا کہ حلب‘ شام کے ایک بزرگ ہمارے مہمان بننے والے ہیں۔ بڑے عالم اور فقیہ ہیں اور حکومت کے علما پر ظلم اور جبر کے باعث اُردن میں جلاوطنی اختیار کر لی ہے۔ کچھ دن بعد شیخ لاہور آئے تو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہیں اپنی گاڑی میں ایک دو جگہ ملاقات کیلئے لے جانے کا شرف بھی ملا۔ لاہور‘ شیش محل روڈ پر مشہور مدرسہ بھی ان میں شامل تھا۔ یہ سڑک تنگ بھی ہے اور گنجان بھی۔ میں گاڑی چلا رہا تھا اور ایک چھوٹا بچہ ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ گاڑی کو چھو بھی لیتا۔ میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شیخ عبدالفتاح بہت پریشان تھے۔ وہ بار بار بچے کی طرف دیکھتے اور اشارہ کرکے کہتے ''الطفل، الطفل‘‘ انہیں خطرہ تھا کہ بچے کو چوٹ نہ لگ جائے۔ ہم لاہوری اس طرح کی گنجان سڑکوں میں اس صورتحال کو معمول سمجھتے تھے اور بچوں کی اس چھیڑ خانی کے عادی تھے لیکن شیخ نے گاڑی رکوا دی۔ جب تک بچہ کافی دور نہیں نکل گیا ہم رکے رہے۔ ان کی خوش مزاجی‘ نرم دلی اور لطیف ذوق کے کئی منظر اس دورے میں دیکھنے کو ملے اور ہمیشہ کیلئے شام کے علما کی ایک تصویر ذہن میں بن گئی۔ کبھی تاریخ مرتب ہو تو پتا چلے کہ حافظ الاسد کے زمانے سے بشار الاسد کے اقتدار کے آخر تک عوام اور علما پر کیا کیا جبر کیا گیا اور کتنوں کو جلاوطنی کے بعد اپنی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی۔ حلب‘ ادلب‘ حمہ اور دیگر شہروں میں حکومت کی طرف سے عوام کے لرزہ خیز قتل عام کی تفصیلات پوری طرح سامنے نہیں آئیں ورنہ یہ شام کی تاریخ کے بھیانک ترین واقعات میں سے ہیں۔
جنگوں اور بالخصوص خانہ جنگی سے تباہ حال ملک شام نے گزشتہ کئی عشروں میں جتنے زخم اٹھائے ہیں ان کا سوچ کر بھی دل لرزتا ہے۔ حافظ الاسد اور بشار الاسد کی حکومت نے گزشتہ لگ بھگ 50 سال میں شام کو ذاتی جائیداد کی طرح بنا رکھا تھا۔ اس کے شہری یرغمالیوں کی طرح تھے۔ کسی بھی سیاسی‘ مذہبی مخالف کیلئے شام میں کوئی جگہ نہیں۔ جس طرح بشار الاسد کے فرار کے بعد شامی عوام نے خوشیاں منائیں وہ 50 سالہ تسلط سے نجات پر فطری ردعمل تھا۔ لیکن شام ابھی جس دور سے گزر رہا ہے اس کا سفر بہت طویل ہے۔ ایک دو دن قبل مسلح جنگجو گروپ ہیئۃ التحریر کے سربراہ احمد الشراع (سابقہ ابو محمد الجولانی) نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالا اور کئی ایک اعلانات کیے۔ اہم باتیں یہ ہیں کہ شام کا 2012ء کا دستور‘ پارلیمنٹ‘ فوج اور دیگر ادارے معطل ہو چکے ہیں۔ الاسد خانوادے کی بعث پارٹی اور منسلک ادارے ختم کر دیے گئے ہیں۔ بعث پارٹی کے لوگوں کو کسی اور نئے نام سے جماعت بنانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ان کے اثاثے شام کی حکومت کی تحویل میں ہوں گے۔ احمد الشراع نے سب طبقات کی رضامندی سے نیا آئین بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس وقت تک عرب جمہوریہ شام کی عبوری صدارت سنبھالی ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی اجتماعات اور ملاقاتوں میں وہی شام کی نمائندگی کریں گے۔ اعلان کے مطابق نیا آئین تشکیل پانے تک ایک لیجسلیٹو کونسل بنائی جا رہی ہے جو حکومتی معاملات میں معاونت کرے گی۔ لیکن نہ اس کونسل کی تشکیل کی کوئی مدت مقرر کی گئی ہے اور نہ عبوری صدر کے عہدے کا دورانیہ۔
بالآخر پاکستان کی طرف سے بھی شام کی تبدیل شدہ صورتحال پر خاموشی ٹوٹی ہے اور ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے شام کے عبوری صدر احمد الشراع کا خیر مقدم کیا ہے۔ جب سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا اور وہ ہیئۃ التحریر شام کے جنگجوؤں کی تاب نہ لا کر روس فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے پاکستان کی طرف سے یہ پہلا بیان ہے اور شام کے متعلق خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی بھی۔ پاکستان نے عشروں پرانی پالیسی ترک کر دی ہے اور ترکیہ اور کئی عرب ممالک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو احمد الشراع کے حق میں ہیں۔ کئی عرب ممالک پہلے ہی اس تبدیلی کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ چند دن پہلے قطر کے امیر نے شام کا دورہ بھی کیا۔ یہ کسی بھی عرب سربراہ کا بشار الاسد حکومت خاتمے کے بعد شام کا پہلا دورہ ہے۔ یہ جو میں نے کہا کہ پاکستان نے عشرو ں پرانی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ طویل خانہ جنگی کے دوران اگرچہ پاکستان نے غیر جانبدار رویہ اپنائے رکھا لیکن دیکھا جائے تو اس کا رجحان بشار الاسد حکومت کی حمایت کی طرف رہا تھا۔ شام کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ سیاسی اور فوجی روابط رہے ہیں۔ یاد ہو گا کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستانی پائلٹ رضاکارانہ بنیادوں پر شام گئے تھے اور شامی طیارے اڑائے تھے۔ ایک پرانے شامی طیارے سے جدید اسرائیلی طیارہ گرانے والے پاکستانی پائلٹ جناب عبدالستار علوی کا وہ طویل انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں انہوں نے شام جانے کے رضاکارانہ فیصلے سے لے کر اسرائیلی طیارہ گرانے کی تفصیلات بتائی ہیں اوراس خبر سے شامی ایئر فورس کی خوشی اور حکومتی سطح پر علوی صاحب کو اعزازات دینے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح شامی ملٹری اکیڈمیز میں بھی بہت سے پاکستانی افسروں نے تربیت حاصل کی اور بعد ازاں پاکستانی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ یہی سبب ہے کہ وزارتِ خارجہ نے اس پوری خانہ جنگی میں اسد حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کی کبھی حمایت نہیں کی اور محتاط بیانات دیے۔
42 سالہ احمد الشراع کا بین الاقوامی تاثر ابھی تک عمدہ ہے۔ ان کا آبائی علاقہ گولان کی پہاڑیوں میں ہے اور جن کے خاندان نے بار بار جلا وطنی کی طویل زندگی گزاری ہے‘ ابھی تک محتاط اور صلح کل پالیسی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ حلب میں اُن کی حکومت دمشق پر قبضے سے پہلے قائم تھی۔ انہوں نے وہاں امن قائم کیا اور عیسائی اقلیت کو یقین دلایا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے کردوں کو صلح کا پیغام بھیجا اور کہا کہ شام میں طبقات کا تنوع ہماری طاقت ہے۔ انہوں نے بار بار یہی کہا ہے کہ شام کے تمام گروپس کو ساتھ لے کر چلا جائے گا۔ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ امریکہ نے ہیئۃ التحریر کو دہشت گرد گروپ قرار دیا ہوا ہے اور احمد الشراع کے سر کی قیمت مقرر کی گئی تھی‘ نیز احمد الشراع کی جدوجہد کی کارروائیوں میں عراق میں موجود امریکی فوج سے مقابلہ بھی رہا ہے لیکن انہوں نے امریکہ یا مغربی اقوام کے خلاف بیان بازی سے گریز کیا ہے‘ بلکہ انہوں نے کسی بھی ملک کے خلاف بیان دینے سے اب تک گریز کیا ہے۔ بی بی سی سے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ وہ طالبان طرز کی کوئی حکومت بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور شام کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ افغانستان ایک قبائلی علاقہ ہے جبکہ شام کی اپنی تاریخ اور ثقافت ہے۔ احمد الشراع نے کہا کہ وہ بچیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں لگا رہے اور تمام فرقوں اور طبقات کو مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ شام کا اصل مسئلہ یہی طبقات میں بٹا ہونا ہے۔ انہوں نے ایک ماہ پہلے جامع مسجد اموی میں بھی ایک اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ ان کا بہت بڑا مقصد اسد خانوادے کو تخت سے اتار پھینکنا مکمل ہو چکا ہے اور اب تعمیر نو کے مرحلے شروع ہو چکے ہیں۔ ان کی تقاریر اور بیانات سے امید بندھتی ہے کہ وہ حالیہ مسائل کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور شام کو ایک روشن صبح کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔
روشن صبح؟ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کا نورانی حسین چہرہ آنکھوں میں گھومتا ہے اور مصطفی زیدی کا شعر کانوں میں گونجتا ہے:
شاید تمہیں نصیب ہو اے کشتگانِ شب
روئے افق پہ صبح کے آثار دیکھنا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں