"SUC" (space) message & send to 7575

اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے!

ذرا تاریخ پر مبنی کچھ فلمیں میرے ساتھ دیکھنے چلتے ہیں۔ کون سی تاریخی فلم ہے جو سو فیصد حقائق پر مبنی ہے‘ سو یہ تصوراتی فلمیں بھی دیکھ لیجیے۔ یہ تاریخ بدل دینے والی فلمیں ہیں۔
یہ 12 اکتوبر 1492ء ہے۔ کولمبس اور اس کے ساتھیوں نے اپنے جہاز سے اُفق پر ایک لکیر کی طرح سان سلواڈور‘ بہاماس کا ساحل دیکھا۔ مغرب کی طرف سے بحر اوقیانوس کو پار کر کے ہندوستان کا راستہ تلاش کرنے والا کولمبس دو ماہ سے زیادہ بحر اوقیانوس میں تھا۔ خشکی کو ترسے ہوئے ملاحوں کو اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہ ہندوستان نہیں‘ ایک نئے بر اعظم کی دریافت ہے اور اس کے سرخ فام باشندے ہندوستانی نہیں ایک الگ تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابتدائی زمانے کی بندوقوں اور روایتی تلواروں سے مسلح یہ سپینی باشندے بے خوف تھے کہ انہیں کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے عجیب وغریب قسم کی مشینیں اور ہتھیار ریڈ انڈینز کے ہاتھوں میں دیکھے جنہیں مقامی لوگ راکٹ لانچروں اور کلاشنکوفوں وغیرہ کے نام سے پکارتے تھے۔ ان ریڈ انڈینز نے کولمبس اور اس کے ساتھیوں سے واپس چلے جانے کو کہا اور انکار پر پہلی ہی لڑائی میں 80 میں سے 40 سپینیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ خوفناک ہتھیار کولمبس کے تصور سے ماورا تھے۔ باقی ماندہ ملاح خوف زدہ ہو کر بھاگے۔ اب سان سلواڈور ان کے پیچھے تھا اور سپین ان کے آگے۔ سپین پہنچتے ہی یہ خبر یورپی اقوام میں پھیل گئی کہ زندگی عزیز ہے تو نئی دنیا کا رخ نہ کرنا۔ امریکہ کے حقیقی باشندے اب کئی صدیوں تک کے خطروں سے محفوظ ہو چکے تھے۔
یہ 10 فروری 1606ء ہے۔ آسٹریلیا کے کیپ یارک ساحل پر آسٹریلیا کے مقامی اباریجنل باشندوں کا سکیورٹی اجلاس ہو رہا ہے۔ ان کا سردار انہیں بتاتا ہے کہ جس خطرے سے ان کے آبائو اجداد انہیں متنبہ کرتے چلے آئے تھے‘ وہ آن پہنچا ہے۔ ولندیزی جہاز ران ولیم جینس زون اپنے جہاز اور ساتھیوں کے ساتھ ساحل کی طرف آ رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ جو ہتھیار اباریجنیز نے اپنے دفاع کے لیے بنائے تھے‘ وہ حتمی اقدام کے لیے تیار کر لیے جائیں۔ ولیم کے پاس نسبتاً جدید ہتھیار اور بندوقیں ہیں۔ وہ ساحل پر اتر کر گہرے رنگ کے پست قامت‘ اجنبی خدوخال والے اباریجنل باشندوں سے ملتا ہے لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب وہ بڑی توپوں‘ سینکڑوں گولیاں داغنے والی مشین گنیں دیکھتا ہے۔ آناً فاناً وہیل مچھلی کی طرح تیرنے والے تار پیڈوز ان چھوٹے جہازوں کو غرق کر دیتے ہیں جو بڑے جہاز کے ساتھ ہیں۔ بیسیوں لوگ ان کے ساتھ ہی غرق ہو جاتے ہیں۔ ولیم کو اس تنبیہ کے ساتھ جان بچا کر بھاگنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ یورپی دنیاکو بتا دے کہ اباریجنیز 50 ہزار سالوں سے آسٹریلیا کے مالک ہیں اور اب اس ملکیت میں شراکت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خوفزدہ ولیم یہ پیغام یورپ کی سمندری طاقتوں تک پہنچا دیتا ہے۔ آسٹریلیا اور اباریجنیز اب کئی صدیوں تک خطروں سے محفوظ ہیں۔
یہ 10 اگست 1920ء ہے۔ ترکی چہار اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہے جو اس کے حصے بخرے کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ اس سے سیوریز کے معاہدے پر دستخط کرانا چاہتے ہیں۔ ترک خلیفہ کو علم ہے کہ سلطنت کا بہت چھوٹا سا حصہ اس کے پاس رہ جائے گا۔ ایسے میں وہ ترکی کا سب سے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ اتحادی طاقتوں برطانیہ‘ اٹلی اور یونان کے بڑے شہروں پر جوہری میزائل داغنے کا حکم دیتا ہے۔ آن کی آن میں میں لندن‘ روم اور ایتھنز راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ ہلاکتیں لاکھوں میں ہیں اور مالی نقصان بے حد وحساب۔ اتحادی راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں لیکن ترکی نے ان میزائلوں کے ذریعے اپنی زمین‘ اپنی سلطنت اور عرب ممالک سمیت اپنے علاقے بچا لیے ہیں۔ اگلے سو سال تک اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
یہ یکم ستمبر 1939ء ہے۔ جرمنی کی مہیب جنگی طاقت یورپ اور دنیا پر لرزہ طاری کیے ہوئے ہے۔ برلن میں ہٹلر اپنے قریبی جرنیلوں کے ساتھ اجلاس میں ہے۔ جرنیل ہٹلرکو بتاتے ہیں کہ پولینڈ چھوٹا ملک سہی‘ روایتی فوج کم سہی لیکن اس کے پاس وہ جدید ترین طیارے اور ہتھیار ہیں جو اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی پورا جرمنی ختم کر سکتے ہیں۔ ہٹلر کا جنون عروج پر ہے لیکن پولینڈ اپنی دھمکی پر عمل کرکے دکھا دیتا ہے۔ آن کی آن میں میونخ شہر زمین بوس ہو جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہلاک اور عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہٹلر فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پولینڈ نے مہلک ہتھیار استعمال کر کے دوسری عالمی جنگ روک دی ہے۔ سات کروڑ لوگ مرنے سے بچ گئے ہیں۔ یورپ‘ ایشیا‘ افریقہ اور امریکہ چھ سال پہ محیط دنیا کی مہلک ترین جنگ سے کم ازکم ایک صدی کے لیے دور ہو گئے ہیں۔
یہ دسمبر 1971ء ہے۔ پاکستان اپنے مشرقی حصے میں بدترین خانہ جنگی میں الجھا ہوا ہے۔ وہ ازلی دشمن بھارت کے عزائم سے ناواقف نہیں۔ جانتا ہے کہ کسی بھی وقت بھارتی فوجیں باغیوں کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہو جائیں گی۔ ایسے میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو پاکستانی جرنیل پیغام پہنچاتے ہیں کہ اگر بھارت نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی تو جوہری ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ یہ بڑی دھمکی ہے اور اس کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل نہیں ہوتی اور پاکستان اپنی داخلی بغاوت پر قابو پاکر اپنا مشرقی حصہ بچا لیتا ہے۔ ایک ملک دو ملکوں میں تبدیل ہونے سے بچ جاتا ہے۔
فلمیں بہت سی ہیں اور سینکڑوں جگہ ان کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ دور کیوں جاتے ہیں‘ پاکستان اور بھارت کی جنگیں ہی دیکھ لیجیے۔ 1965ء کی جنگ 17 دن چلی تھی۔ 1971ء کی جنگ شاید 15 دن۔ کیا یہ دونوں ملک جوہری طاقت ہوتے تو یہ جنگیں اتنے دنوں پر محیط ہوتیں؟ کیا یہ ہمہ جہت جنگیں ہوتیں؟ ذرا یہ سوچیے کہ 1947ء سے 1971ء تک یعنی صرف 24 سال میں تین جنگیں ہوئیں۔ اور 1971ء کے بعد سے اب تک‘ یعنی 54 سالوں میں کوئی ہمہ جہت‘ بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ 1984ء کے بعد ممکن ہی نہیں رہی۔ یعنی جوہری ہتھیار کتنے ہی ہلاکت خیز سہی‘ انہوں نے جنگیں ختم اور کم کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے۔ برصغیر کے وہ لوگ جن کی عمر 60 سال کے لگ بھگ ہے‘ وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے کلکتہ سے پشاور تک شہروں کو بلیک آئوٹ کی تاریکی میں ڈوبے دیکھا۔ نئی نسلوں کو تو یہ تجربہ ہی نہیں۔کیا ان دونوں ملکوں کی نفرتیں ختم ہو گئیں؟ حقیقتاً نفرتیں اب ایسی ہیں کہ بس چلے تو ایک دوسرے کو پھاڑ کھائیں لیکن مجبور ہیں کہ آگ کے دائرے میں قدم نہیں رکھ سکتے۔
آگ کا یہ دائرہ مہیب جنگی طاقت کے سوا کیا ہے۔ ہر انسانی گروہ اس پر مجبور ہے کہ یا تو طاقتور سے پٹتا رہے یا اپنے گرد آگ کا ایک دائرہ بنا لے جس میں بھیڑیے قدم نہ رکھ سکیں۔ کارگل ہو‘ پلوامہ ہو‘ یا پہلگام۔ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہو‘ آپریشن پراکرم ہو یا سوئفٹ ریٹارٹ۔ سب واقعات اسی نتیجے کی طرف لے جاتے ہیں کہ جرم ضعیفی مرگِ مفاجات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ جو آپ پہلگام واقعے سے اب تک بھارتی جنون کے باوجود سوچ بچار اور خوف دیکھ رہے ہیں‘ یہ جو ممکنہ حکمت عملیوں اور ان کے عواقب پر غور فکر ہو رہا ہے‘ کیا یہ عالمی طاقتوں کے ردعمل کے خوف سے ہے؟ یہ اخلاقی اصولوں کی وجہ سے ہے؟ کیا یہ ہمسائیگی کا لحاظ ہے؟ واحد سچ یہ ہے کہ پاکستان روایتی وغیر روایتی مہیب جنگی طاقت کا حامل نہ ہوتا توکون سا ملک‘ کون سی ہمسائیگی اور کون سے اصول؟ اپنا جانی ومالی نقصان ہی واحد خوف ہے اور ہمیشہ یہی رہے گا۔ پاکستان نے فتنے سے بچنے کیلئے آگ کا ایک دائرہ اپنے گرد بنا لیا ہے۔ قرآن کریم نے کہا کہ ''فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں