یہ دنیا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تیزی سے بدلی ہے اور مسلسل بدل رہی ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں۔ صرف پندرہ بیس سال پرانی چیزیں فرسودہ دکھائی دیتی ہیں۔ صرف ایک عشرہ پہلے کی عالمی صورتحال ماضی بعید کی بات لگنے لگی ہے۔ وہ تبدیلیاں جو دس سال پہلے ناممکن نظر آتی تھیں‘ دنیا کی آنکھیں اب ان کا مشاہدہ کر رہی ہیں۔ ہر چیز بدل گئی ہے اور ہر روز خود کو نیا کر رہی ہے۔ صرف تاریخ کے سبق اسی طرح ناقابلِ تغیر اور وقت کی دسترس سے دور ہیں۔ تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ جب کوئی ظلم پر مبنی تہذیب یا سلطنت اپنے عروج پر پہنچ جائے تو اس وقت ڈرنا چاہیے کہ یہیں سے اگلا سفر زوال کا شروع ہوتا ہے۔
بہت کچھ شواہد بتا رہے ہیں کہ ہم اور آپ ہندوتوا اور صہیونیت کے زوال کے آغاز پر کھڑے ہیں۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ بات ذہنیت کی ہے اور ذہنیت کے لحاظ سے بھارت میں نیتن یاہو حکمران ہے اور اسرائیل میں نریندرا مودی۔ قالب الگ الگ ہیں لیکن روح ایک ہے۔ مسلم دشمنی‘ بے رحمی‘ مکاری اور جنگی جنون دونوں جسموں کی روحوں میں ایک جیسے ہیں۔ کمزور پر بدترین مظالم ان کا وتیرہ ہے اور وہ اپنی طاقت اور تعلقات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ مسلمان نومولود‘ کمسن بچے دراصل دہشت گرد ہیں۔ انسان ترقی کرکے بظاہر اخلاقی اور تہذیبی بلندی پر پہنچ چکا ہے لیکن اسرائیل اور بھارت کے مذہبی جنونیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا آج بھی دولت اور طاقت کی پجاری ہے۔ اگر دنیا سے احترام کروانا ہے تو اصول مت پیش کیجئے۔ اخلاقیات کی بات مت کیجئے۔ پیسہ دکھائیے یا طاقت دکھائیے۔ دنیا بس یہی دیکھتی ہے اور کچھ نہیں۔
دو خطوں کے مسلمانوں نے دنیا بدل کے رکھ دی ہے۔ فلسطینیوں‘ خاص طور پر غزہ کے لوگوں نے بے سر وسامان‘ بے وسائل ہونے کے باوجود‘ اَن گنت شہادتوں کے باوجود استقامت کیساتھ رہ کر اور پاکستان کے مسلمانوں نے مضبوط دفاع اور حوصلے کی مدد سے ہندوتوا کے خواب چکنا چور کرکے۔ آپ مادی وسائل کے لحاظ سے سوچیں تو حیران ہوکر رہ جاتے ہیں کہ کیسے ممکن ہوا کہ چند ہزار جنگجو فلسطینی پورا غزہ مسمار ہو جانے کے باوجود‘ قیادتوں کے یکے بعد دیگرے شہید ہوجانے کے باوجود کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اب تک اسرائیلی یرغمالی انکے پاس ہیں۔ نیتن یاہو اپنا ہر حربہ آزما چکا لیکن جنگجو ؤں کو شکست نہیں دے پایا۔ امریکہ تک کو اپنے یرغمالی چھڑانے کیلئے انہی سے بات کرنا پڑتی ہے۔ اسرائیل ہر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے اور تمام انسانی اور اخلاقی اقدار بے بس ہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے بھی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے‘ طاقتور‘ مالدار اور مسلح طاقت کو کس طرح ایک چھوٹے سے ملک نے ہزیمت اور شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ معاشی مشکلات سے دوچار اس ملک نے دنیا کو جنگی طریق کاراور حکمت عملی کے نئے سبق پڑھائے ہیں۔ دنیا اس کا اعتراف کر رہی ہے اور برملا کہہ رہی ہے کہ 6اور 7مئی کی درمیانی رات 125کے قریب جدید ترین جنگی ہوائی جہازوں کی لڑائی دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی جنگ تھی جو پاک فضائیہ نے جیتی ہے۔ میزائلوں کی لڑائی میں بھی پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ دشمن کے جدید ترین ہتھیاروں اور علاقوں تک اسکی رسائی ہے اور وہ کسی بھی جگہ کو نشانہ بنانے کے قابل ہے۔ اس جنگ میں اگرچہ پاکستان نے زخم بھی سہے اور شہیدوں کے جنازے بھی اٹھائے ہیں لیکن یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں بھارت کی جارحیت برداشت نہیں کرے گا۔ دنیا اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرے یا نہ کرے‘ خواہ زبان سے کچھ نہ کہے لیکن کسی قوم کی بہادری کا اعتراف دل ہی دل میں کیا جاتا ہے اور یہ اعتراف ہر زبان پر ہے۔
فلسطین اور پاکستان کے ان واقعات نے دنیا بدل دی ہے۔ پرانی صف بندیاں ختم ہو کر نئی جنم لے رہی ہیں‘ پرانے حلیف اپنی حکمت عملیوں کا جائزہ لے کر اپنے اپنے مفادات کے تحت پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ دنیا کی سپر پاور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا آنا خود ایک بڑی تبدیلی تھی۔ ٹرمپ ایک یکسر مختلف شخص ہے۔ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے جدا سوچ بھی رکھتا ہے اور اپنے ارادوں پر عمل بھی کر دکھاتا ہے۔ حال ہی میں عرب ملکوں کا دورہ تو ایک رخ ہے۔ اسی دورے میں اسرائیل کو یکسر نظر انداز کر دینا اور نیتن یاہو کے مفادات کے خلاف اقدامات کرنا اس دورے کا ایک بہت اہم پہلو ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ پوری طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا اور بہترین حلیفوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اب اگر امریکہ اسرائیل سے فاصلہ بڑھاتا ہے تو اسرائیل بقا کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس پورے منظر میں شام کے سربراہ احمد الشرع کی شمولیت اور ٹرمپ سے ملاقات ایک اور اہم ترین پہلو ہے۔ ترکیہ اور سعودی عرب احمد الشرع کی حمایت میں ہیں۔ ٹرمپ نے شام سے پابندیاں ہٹا لی ہیں اور ایک طرح سے اس نئی حکومت کے ساتھ خود کو جوڑدیا ہے۔ یہ بھی بڑی اسرائیلی شکست ہے۔ خود نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل داؤ پر ہے اور بہت امکان ہے کہ یہ حکومت ختم ہوجائے اور اسرائیل کی نئی پالیسیاں موجودہ پالیسیوں سے مختلف ہوں۔
ادھر پاک بھارت قضیے میں ٹرمپ نے ہر تازہ بیان سے بھارت کو سخت شرمندہ کیا ہے۔ ہر نیا بیان بھارت میں ایک نیا بحران پیدا کر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی مسلسل تعریفیں کرکے ٹرمپ نے بھارت کو زخم لگائے ہیں۔ اس کا دونوں ملکوں کو برابری کی سطح پر کھڑا کردینا بھارت کیلئے گہرا زخم ہے۔ ٹرمپ نے سیز فائر کا کریڈٹ بھی لے لیا جو بھارت میں مودی کے خلاف ایک مسئلے کے طور پر دیکھاگیا ہے۔ دوسری طرف مسئلہ کشمیر کا ذکر اور اپنی ثالثی کی پیشکش کرکے ٹرمپ نے بھارت کی اس بیانیے کی نفی کردی ہے جو بھارت کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہ کرکے مسلسل اپنی پالیسی کے طور پر بتاتا رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اگرچہ امریکہ کا نام لیے بغیر اپنی پالیسی کو دہرایا ہے اور سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر اس بات کی تردید کی ہے کہ امریکہ نے سیز فائر کرایا تھا‘لیکن عالمی رائے عامہ جانتی ہے کہ امریکہ ‘ سعودی عرب وغیرہ کے بغیر یہ سیز فائر جو 10 مئی کے بعد بھارت کی شدید ضرورت بن چکا تھا‘ ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ اب ایک طرف چین جیسی بڑی طاقت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور بھارت میں سفارتی فاصلے بڑھ گئے ہیں۔مودی حکومت کو اندرونی سیاسی خطرہ بھی ہے اور وہ بے شمار فوری مسائل سے دوچار ہوگئی ہے۔ ایک طرف اسے اپنی فضائیہ اور بری فوج کے نقصانات کا اعتراف کسی طرح کرنا پڑے گاجس کا راہول گاندھی بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔ سیز فائر کے بارے میں بھی وضاحت کرنا ہوگی۔دوسری طرف امریکہ جیسی بڑی طاقت کی مخالفت مول لینا نہایت دشوار ہے۔ اسے مئی کی چار روزہ جنگ کے بارے میں بھی اپنے عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ جیت مودی کی ہوئی ہے۔ ان متضاد چیزوں کولے کر چلنا مودی کی اس وقت سب سے بڑی پریشانی ہے۔
سب آثار بتاتے ہیں کہ اسرائیل میں نیتن یاہو کا اور بھارت میں نریندر مودی کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ بڑے بحری جہاز ڈوبتے ڈوبتے وقت لیتے ہیں لیکن جن جہازوں کے پیندوں میں بڑے شگاف پڑ چکے ہوں ‘ وہاں پانی روکا نہیں جاسکتا۔ تاریخ نے ان بحری جہازوں کو بھی برف کے تیرتے ٹکڑو ں سے ٹکرا کر ڈوبتے دیکھا ہے جن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ غرق نہیں ہوسکتے۔ تاریخ نے ایک بار پھر یہ سبق دیا ہے کہ ظلم کتنا ہی طاقتور ہوجائے‘ اس کا عروج اس کے زوال کی ایک نشانی ہوتی ہے۔