متحدہ ہندوستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر، امریکہ کا ایلکا پون ، برطانیہ والا رابن ہُڈاور اپنے ہاں کے'' ڈان‘‘ گُر گے بڑے استاد ثابت ہوئے۔ اُن کے دریافت کردہ گُر بلکہ دائو پیچ آج دنیا میں لاتعداد غیر ریاستی گروہوں اور جرائم سینڈیکٹ کے راہ نما اصول بن چکے ہیں۔ سب سے مؤثر اور سب سے پہلا معاشی جرم (Financial Crime)ہے۔ مغربی ممالک سے شروع ہونے والا یہ جرم اب انہی ملکوں کا دروازہ کھٹکھٹارہا ہے۔ لہذا اس کا نام دہشت گردی کی فنڈنگ رکھا گیا۔ اور اسی دور میں ''جرائم کے پیسے، جرائم بڑھانے کے لیے‘‘ کا نیا عالمی نظریہ سامنے آیا۔
دو سال پہلے میں نے پارلیمنٹ میں یہی بات کہی۔ آج پھر اسے کھول کر عوام کے سامنے رکھتا ہوں۔ جدید دہشت اور وحشت کی بانی ضیا آمریت کے دور میں دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے گوریلوں نے اسی گُر کو آزمایا۔ مختلف حکومتوں نے کبھی انہیں مجاہد کہا کبھی باغی کبھی ہیرو بنا کر پیش کیا اور کبھی فتنہ گرقرار دیا۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے انتہائی غریب علاقوں میں شادیاں کیں اور جائیدادیں بنائیں۔ تین ، چار عشروں کے بعد ایسے عناصر ریاستی معاشی نظام سے بہتر متوازی معیشت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
میں نے آج تک کبھی کسی خاص طرح کی دہشت گردی کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ شدت پسندی یا لاقانونیت جس قدر جنگلوں اور پہاڑوں کو متاثر کرتی ہے، شہروں اور بستیوں میں اس کا اثر اور نتائج ویرانے سے زیادہ لرزا دینے والے ہیں۔کراچی میں 100فیصد یہی فارمولا استعمال ہوا جو پاکستان کی مغربی سرحد پر آزمایا جا چکا تھا۔ ثبوت کے لیے کراچی کے معاشی جرائم میں گرفتار ہونے والوں کے بیانات دیکھ لیں۔ ملک میں سندھ سمیت معاشی جرائم تین سطح پر جاری ہیں۔
پہلے نمبر پر چھوٹے موٹے چور،کلرک، پٹواری، نمبردار یا سرکاری محکموں کے معمولی اہلکار ہیں۔ یہ ''پَیٹی کرائم‘‘ یعنی چھوٹی واردات کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے اینٹی کرپشن ایکٹ 1947ء والا محکمۂ انسدادِ رشوت ستانی ، 1975ء کے ایکٹ والی ایف آئی اے اور 1999ء کے آرڈیننس کا قومی ادارۂِ احتساب اور صوبائی پولیس بھی معمولی چوروں پر ہی ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ بڑے گُرگے ، جرائم سینڈیکٹ کے سربراہ ، معاشی مافیا کے انچارج مکمل محفوظ ہیں بلکہ پاکستان کی بربادی میں دلچسپی لینے والے بے شمار ملکوں کے شہزادے اور حکمر ان ان کے دوست ہیں۔
دوسری سطح کے معاشی جرائم وہ ہیں جو دیہاتی علاقے کے ڈاکو، رسہ گیر ، جاگیردار ، زمیندار یا وڈیرے کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ ان میں تھانے اور پولیس کا کردار کمی کمین جیسا ہے جسے بچی ہو ئی روٹی یا بوٹی کا ٹکڑا تو ملتا ہے لیکن اسے چارپائی پر ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ان جرائم میں گھوڑی کھولنے سے لے کر لڑکی اٹھانے تک مافیا ہیڈ کی اجازت کے بغیرکوئی تھانہ پرچہ درج نہیںکرتا۔ ان جرائم کا مالیاتی نتیجہ محدود ہے۔ معاشرتی طور پر ایسے جرائم نے زرعی مزدور، ہاری، بھٹہ مزدور ، دیہاڑی دار، بے روزگاراور غریب کو دورِ غلامی میں دھکیل رکھا ہے۔
تیسری سطح کے جرائم منظم فنانشل کرائم ہیں۔ انہیں پچھلے 30 سال میںاس قدر فروغ ملا کہ اب دودھ پتی اور لکھ پتی میں کوئی فرق نہیںرہا۔ سندھ کے ڈی جی رینجرز نے جو کرائم چارٹ ، رپورٹ بنا کر میڈیا تک پہنچایا اس کا فوکس اسی سطح کے جرائم ہیں۔ اس دنیا کا پہلا دروازہ تاج محل کے انٹری گیٹ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے لیکن اس کے اندر وہ خدا کی بستی ہے جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
یہ کوچے، یہ نیلام گھر، دل کشی کے
یہ لُٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خُودی کے
تین دن پہلے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا، وہ قانون شکنوں کے فنانسرز کو پکڑیں گے۔ قوم کی جیب پر پڑنے والے معاشی ڈاکے کاسمیٹک قسم کی کارروائی سے نہیں رُک سکتے، اس کے لیے ساری دنیا میں آزمودہ کامیاب حکومتوں کے احتسابی ماڈل سامنے رکھنے ہوں گے جن کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ احتساب''ایکشن پروگرام‘‘ نہیں ہوتا بلکہ اسے مسلسل جاری ریاستی عمل بنایا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے احساسِ جوابدہی، بے لاگ قانون اور سیاست سے پاک عدالتی نظام ضروری ہے۔کیا پاکستان کی ریاست کے پاس یہ سب کچھ ہے؟
اگر نہیں تو پھر احتساب کے نعرے کا انجام یحییٰ کے احتسابی نظام ، اسحقٰ خان کی احتسابی عدالتوں ، نواز شریف کی سیف احتساب سیل اور پرویز مشرف کے نیب آرڈیننس کی شکل میں قوم پہلے آزما چکی ہے۔ انصاف ،احتساب اور شفاف حکمرانی اوپر سے شروع ہو کر نیچے آ ئے ہیں۔ 100روپیہ رشوت لینے والے کلرک یا500 روپے کی مرغی کا تحفہ مانگنے والے پٹواری کوگرفتارکرنے سے احتساب ہوگا نہ شفاف حکمرانی آئے گی اور نہ ہی عدل کے نظام پر لوگوںکا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
ساری دنیا میں انصاف اندھا ہوتا ہے، اسی لیے اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی اوراس کے فیصلے بے لاگ ۔ پاکستان میں انصاف کانا ہے۔ غریب مظلوم عوام کے دکھ دیکھنے والی موجودہ نظام کی آنکھ پتھر سے بنی ہے۔ بڑا وکیل ہو، بڑا سائل یا بڑا مجرم اسے دیکھ کر ملک کا قانون اور عدل دونوں'' سُرخ کارپٹ‘‘ بچھا نے لگتے ہیں۔
دل پر ہاتھ رکھیں، دنیا بھر کو دیکھیں پھر خود سے پوچھیںکیا جس نظام کے کنویں میں ایک نہیں 100مرے ہو ئے کُتّے پڑے ہوں، اس میں سے پانی کے جتنے مرضی لوٹے نکالیں، کُتّا نکالے بغیر پانی پاک نہیں ہو سکتا نہ کنواں حلال۔
نو سال پہلے شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت لکھا گیا۔
ایک آل پارٹی کانفرنس کے دوران لنچ بریک ہوئی۔ وزیراعظم ہائوس کے ڈائننگ میز پر میری کرسی موجودہ وزیراعظم نواز شریف کی کرسی کے عین سامنے تھی۔ میں نے میثاقِ جمہوریت نکالا اور نواز شریف سے درخواست کی، عینک نکالیں اور میرے ساتھ تیں لائنیں پڑھ لیں جن میں لکھا ہوا ہے، مشرف دور کے احتسابی نظام اور ادارے کا خاتمہ کیا جائے گا اور پاکستان میں غیر سیاسی ، آزاد، شفاف احتساب کے لیے قومی سطح کا پارلیمانی اور انتظامی ادارہ بنائیں گے۔ نواز شریف صاحب نے یہ کاغذ اسحٰق ڈار کے ہاتھ میں تھمایا پھر چودھری نثار سے کہا آپ دونوں اعوان صاحب کے پاس بیٹھیں، انہیں لاہور کی دعوت دیں تاکہ مجھے بھر پور بریفنگ مل سکے۔ اسی ہفتے میثاقِ جمہوریت کو نو سال بعد دفنایا گیا۔ نواز شریف کی حکومت کا سب سے بڑا چوکیدار آصف زرداری یہ کالم چھپنے تک واپس نوڈیرو میں ہوگا۔ میں نے بلاول سے پوچھا آپ کا کیا پروگرام ہے؟کہا رمضان لاہور میں گزرے گا۔
رمضان موجودہ حکومت کے لیے کتنا بھاری ہے اس پر پھر بات ہو گی۔ لیکن یہ طے ہے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اپوزیشن لیڈر مل کر بھی اب نواز حکومت کے غیر مشروط چوکیدار کو پچھلی تنخواہ پر یا نئی مراعات دے کر چوکیداری کی ڈیوٹی پر واپس نہیں لا سکیںگے۔ میں دو سال سے جو کچھ اردو میں کہتا رہا اب وہ چوکیدار پنجابی میں کہہ رہا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں پنجاب میں پنجابیوں نے پنجابی مار دی ، اس لیے اگر پنجابی میں ناقابلِ اشاعت گفتگو لکھ بھی دوں تو اسے چھاپیں گے کہاں؟ پنجابی کا نہ کوئی کمپوزر، نہ کمپیوٹر، نہ پرنٹرنہ پبلشر:
جو بھی ہونا تھا عزیزو، اِس چمن میں ہو چکا
اب یہ بہتر ہے، کوئی زہرہ جبیں دم ساز ہو
پھر منا لائیں، ربیعہ کو کسی ترکیب سے
اور دلِ درد آشنا کی، ہمنوا شہناز ہو
اس سے ہم پچھلے دِنوں کے پیار کی باتیں کریں
اور وہ اُن گم شدہ حالات کی، ہم راز ہو