"SBA" (space) message & send to 7575

حسبِ ضرورت یا نظریہء ضرورت؟

یہ جمعہ کا دن تھا‘ تاریخ 24 جولائی۔ 'اختلافی نوٹ‘ میں بیٹھا تو موضوع ایسا تھا‘ جس نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کو نئے موڑ سے روشناس کرایا۔ عدالت کا وہ فیصلہ جو محفوظ ہو جائے اور ابھی صادرہونا باقی ہو‘ اس کے بارے میں رائے زنی کرنا انتہائی حساس معاملہ ہے۔ یہ مجھے معلوم تھا۔ لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ اطلاعات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے۔ بطور وفاقی وزیر قانون اس آئینی حق کی میں نے ہی تدوین کی تھی‘ آئین پاکستان مجریہ 1973ء میں آرٹیکل 19-A کا اضافہ کر کے۔ اس لیے میں نے اللہ کا نام لیا اور جو کچھ جانتا تھا وہ قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ مالکِ ارض و سماء بھی یہی چاہتے ہیں اسی لیے ارشاد فرمایا: قُولُو قَولاً سدیدََا (اور سیدھی بات کہو) سورۃ الاحزاب آیت: 70۔
2010ء میں ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم اور پشاور میں بچوں کی 2014ء والی کربلا کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں فیصلہ قوم کے سامنے ہے۔ اختلافی نوٹ میں سو فیصد اسی فیصلے کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ جب تازہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا‘ تب تازہ فیصلے پر تبصروں، تجزیوں کا سونامی بھی ساتھ آئے گا۔ آج میں آپ سے وہ باتیں کرتا ہوں‘ جو مختلف ہیں اور آپ کے لیے نئی بھی ہوں گی۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پچھلے سیاسی چیف جسٹس کے دور میں پاکستان کی عدلیہ کے ایک، دو، چار نہیں بلکہ سینکڑوں فیصلے مشترکہ یا متفقہ صادر ہوئے۔ دنیا کی عدالتی، وکالتی، قانونی اور آئینی تاریخ میں ایسا ریکارڈ شاید ہی کسی اور ملک کے حصے میں آیا ہو۔ فیصلے مشترکہ یا متفقہ صادر کرنے کے لیے سیاسی چیف جسٹس سپریم کورٹ میں بڑے سیاسی مقدمات کی سماعت کے لیے بنچ بنانے کے اختیارا ت کو سیاسی طور پر استعمال کرتا۔ جو جج جسٹس جاوید اقبال یا جسٹس سردار رضا کی طرح اس سے اختلاف کرتے ان کو ایسے بنچوں میں شامل ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی روایت یہ بھی ڈالی گئی کہ سینئر بنچ میں سینئر ججوں کو بٹھانے کے بجائے کبھی ایڈہاک جج اور کبھی جونیئر جج صاحبان بٹھائے جاتے۔ پھر جس ایل ایف او کے ذریعے یہ شخص خود جج بنا اور جس کی حمایت میں فیصلہ دے کر اس نے جنرل مشرف کو ''ون مین‘‘ پارلیمنٹ اور ساتھ آئین میں ترمیم کا اختیار دیا بلکہ ساتھ ساتھ تین سال کے لیے ملک کی خدمت کا سرٹیفکیٹ بھی‘ اسی کو بنیاد بنا کر اس نے ملک بھر کی عدالتوں سے 200 قابل ترین ججوں کو غیر آئینی طور پر گھر بھجوا دیا۔ ان فاضل ججوںکو وہ اپنا ''مخالف کیمپ‘‘ کہتا تھا۔ پھر وہ اپنے مخالف وکیلوں پر حملہ آور ہوا۔ اس قبیلے کی سربراہی خدا نے میرے نام لکھی‘ جس پر اس کا لاکھ لاکھ شکر۔ وہ یہیں نہیں رکا‘ اس نے نکالے گئے ججوں اور عدالتی ہستیوں کو پینشن کے حق سے بھی محروم کر ڈالا۔ وہ جج کم اور سیاسی ٹریڈ یونین کا لیڈر زیادہ لگتا تھا۔ بے معنی نعرے، لایعنی بڑھکیں اور سرکاری خرچ پر سیاست اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔
آئیے آپ کو لندن لے چلوں‘ جہاں رائل ہائی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز کی چھوٹی سی عمارت ہے۔ اس کے ایک فلور پر تین جج بیٹھے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔ وکلا سمیت سائل ایسے لکڑی کے پھٹے نما بنچوں پر بیٹھے ہیں‘ جو ہمارے دیہی ریلوے سٹیشن کی نشست گاہ یا جنگل ہوٹل کی کرسیوں جیسے ہیں۔ تینوں جج عدالت میں خود داخل ہوئے۔ ہمارے ہاں کُلّہ پہنے تین آدمی آگے ہوتے ہیں جو جج صاحب کی عینک، پنسل، ریشمی غلاف والا پانی کا گلاس لا کر رکھتے ہیں‘ پھر زمین پر انتہائی تکّبر سے جُوتا مار کر جج صاحب کی آمد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر یہ سفید پوش ملازم جج کی کرسی پیچھے کھینچ کر اسے بٹھا کر نیچے آتا ہے۔ ہائی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں جج اپنی کرسی پر خود بیٹھے۔ ان کے درمیان کم از کم آٹھ سے دس فٹ کا فاصلہ ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے۔ عدالت کی اکلوتی معاون ٹائپ رائٹر والی ایک خاتون سی او سی یعنی کلرک آف کورٹ کہلاتی ہے۔ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا: آل رائیز۔ جج آئے، جج انصاف کی کرسی پر بیٹھے اور تمام حاضرین کھڑے ہو گئے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی بعض عدالتوں میں انصاف کا لٹھ اٹھا کر جج صاحب کے آگے چلنے کا رواج ہے۔ ہائی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے جج وقفہ کر کے خود ہی اُٹھ گئے‘ پھر واپس آئے اور اپنی اپنی زبان سے اپنا اپنا فیصلہ سنایا۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترمیم جیسے اہم مقدمہ پر بڑے لمبے عرصے کے بعد اختلافی فیصلہ دیا۔ جن جج حضرات نے آئینی ترمیم کو بحال رکھا‘ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 238 کو مدِنظر رکھا۔
238; subject to this part, the constitution may be amended by Act of [majlis-e-shoora (parliament)] 
آرٹیکل 238 آئین میں ترمیم کا اختیار پاکستان کی پارلیمنٹ کو دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ اس آرٹیکل کی منشاء کے مطابق ہے‘ لیکن جو فاضل جج حضرات اس فیصلے سے متفق نہیں تھے‘ انہوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ اختلافی نوٹ لکھ ڈالے۔ natural justice یعنی فطری انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جج علیحدہ علیحدہ واقعات، قانون، شہادت اور آئین کا جائزہ لے۔ اس پر اپنا دماغ لگائے پھر انصاف کے کٹہرے میں کھڑے دونوں فریقوں کے نقصانات، تکلیف اور حرج یا خرچ کا تحمینہ لگا کر فیصلہ صادر کرے۔ اس لیے اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان کو میری طرف سے خراجِ تحسین پیش ہے۔ ان کے لکھے ہوئے اختلافی نوٹ بھی عدالتی تاریخ کا ریکارڈ اور اثاثہ ہیں۔ جو انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے درست سمجھا‘ وہ کھل کر لکھ ڈالا۔ ان دونوں فیصلوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں عدل کا چہرہ شفاف کر دیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے باب نمبر11‘ آرٹیکل 239 میں ذیلی آرٹیکل 6 شامل کی گئی، جس نے آئین میں خیالی طور پر بعض عدالتی فیصلوں کے بعد ''بنیادی سٹرکچر‘‘ کے نظریے کو مسلط کرنے کا تصور نہ صرف مسمار کیا بلکہ اسے آئین سے بے دخل بھی کر دیا۔ اسے واضح طور پر سمجھنے کے لیے آئین کا آرٹیکل 239 ذیلی آرٹیکل6 کے مطابق ''شک و شبہ دور کرنے کے لیے یہ ڈیکلیئر کیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ پر آئین کی کسی بھی دفعہ کو ترمیم کرتے وقت کسی حد بندی کا سامنا نہیں‘‘ یعنی
(6) For the removal of doubt ,it is hereby declared that there is no limitation whtaever on the power of the majlis-e-shoora (parliament) to amend any of the provisions of the constitutuon.]
فیصلے کے بعد عوام نے فرمائشی پٹیشنیں کرنے والے وکیلوں کے ٹولے اور رپورٹروں اور اینکرز کے اُترے ہوئے چہرے دیکھے۔ یوں لگا جیسے ان کے ہاتھ میں آیا ہوا بٹیر پِھسل کر اُڑ گیا۔ ایک بات نوٹ کر لیں آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے چیلنج مزید بڑھ جائیں گے۔ اس لیے کہ جس لیڈرشپ میں چیلنج سے نمٹنے کی اہلیت ہی نہ ہو‘ وہ وہی کرتی ہے جو ایاز صادق نے وزیر داخلہ کے ساتھ کیا۔ پہلے نے لندن میں غداری کے الزام کا ریفرنس بنایا۔ دوسرے نے برطانیہ ٹیلیفون کر کے ترلہ پروگرام شروع کر دیا۔ دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی ریاست کے سیاسی منیجر حسبِ ضرورت نظریۂ ضرورت بنانے والی فیکٹری ہیں۔ ایسی فیکٹری جو بحران تیار اور فروخت کرتی ہے۔
آج بجلی سے بھی کچھ تیز ہے آوازِ خطیب
آج شمشیر کی مانند قلم اُٹھے ہیں
خاکِ لاہور سے خیبر کی گزرگاہوں تک
آج پھر نغمہ سرایانِ صنم اُٹھے ہیں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں