خالد المعینہ دنیائے عرب کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو عالمی شناخت رکھتے ہیں اور وہ پاکستان دوستی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ اب خالد اپنے تعارف کے لیے سعودی گزٹ اخبار کی ایڈیٹر شپ کے حوالے کا محتاج نہیں۔
فرانس حملوں کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے سوچنے، بولنے اور اختیار رکھنے والی خواتین و حضرات کے لیے بہت سے سوالات سامنے آئے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا فرانس حملوں پر مسلمان امت کو معافی مانگنی چاہیے؟ یہی سوال ایک مغربی صحافی نے خالد المعینہ سے بھی پوچھا۔ صحرائے عرب کے اس معروف صحافی نے اس کا جرأت مندانہ جواب دیا جو دانش سے بھی خالی نہیں۔ خالد کا جواب درحقیقت مغرب کے دہرے معیار کے خلاف احتجاجی چارج شیٹ بھی ہے۔ آئیے پہلے اسے دیکھتے ہیں۔ خالد نے کہا، میں ساری دنیا میں بے رحمی سے ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں کے زیاں کی بآوازِ بلند مذمت کرتا ہوں، لیکن ساتھ یہ بھی کہتا ہوں:
نمبر1۔کیا یہودیوں نے نیتن یاہو کی طرف سے فلسطین کے عوام کا روزانہ قتلِ عام کرنے پر معافی مانگی؟
نمبر2۔کیا دلائی اور آنگ سان سوچی نے برما کے مسلمانوں کا بے رحمانہ ہولو کاسٹ کرنے پر معافی مانگی؟
نمبر3۔کیا بھارت کے وزیراعظم مودی نے گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام اور گائے کا گوشت کھانے والوں پر تشدد کے بعد معافی مانگی؟
نمبر4۔ کیا جارج بش، ٹونی بلیئر، رمز فیلڈ، ڈک چینی، وولف او وٹز اور پریمر نے لاکھوں عراقیوں کی ماورائے قانون ہلاکت پر معافی مانگی؟
خالد المعینہ کے اٹھائے ہوئے ان سوالوں کے جواب ہم سب جانتے ہیں، جس میں صرف اتنا اضافہ کافی رہے گا کہ طاقت اور دولت کا مذہب ہے نہ قانون اور نہ ہی کوئی اصول اس کے راستے کی دیواربنتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جو سوال عالمِ اسلام کی قیادت نہیں اٹھا سکی وہ خالد نے اٹھائے۔ اس کے ساتھ ہی میرے لیے بڑی پریشانی کے کئی اسباب ہیں۔
پہلا یہ کہ آج مسلمان امت کو عرب، عجم، افریقہ یا شرق و غرب کی تمیز کیے بغیر گھیر گھار کر بند گلی میں پہنچا دیا گیا ہے۔ ایک ایسی بند گلی جس کے ایک طرف آگ اور بارود ہے جبکہ اس کے دوسرے کنارے پر غصہ، انتقام اور مایوسی! کوئی مسلم فورم یا تِھنک ٹینک ایسا نہیں جو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے روڈ میپ یا رہنمائی فراہم کر سکے۔ اس پریشانی کا ایک اور بھی سبب ہے، وہ یہ کہ آج طلوع ِاسلام کو 1ہزار438 سال ہو چکے ہیں، لیکن مسلم زمینوں پر مسلمان بچوں، عورتوں اور شہریوں کی لاشوں کی جو فصل اگائی گئی اس کی مثال پچھلی ساری جنگوں میں نہیں ملتی۔ پچھلی جنگوں میں مرنے والے اور مارے جانے والے زیادہ تر عسکری شاہسوار تھے، حالیہ جنگوں میں مرنے والوں کو معلوم ہی نہیں ان کو کیوں مارا جا رہا ہے۔ ایک اور پہلو بھی غور کرنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ چارلی وِلسن نے براستہ ضیاء الحق افغانستان کو جس جنگ میں جھونکا تھا، آج اس جنگ کے بچے دنیا کے سارے بر اعظموں میں پیدا ہو چکے ہیں۔ مسلم اقتدار کی نہ کوئی مرکزیت ہے نہ اجتماعی سیاسی سوچ اور نہ ہی بحث و تمحیص کا کوئی مؤثر فورم۔ بڑ ی ہو شیاری سے عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کو فرقوں اور سیاسی امورِسلطنت کے خانوں میں بند کر دیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کے صرف دو مسلم ملک بڑے تصادم سے باہر نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے بھی ایک یعنی ترکی کو مغرب نے کمال ہوشیاری سے ایک بار پھر بلقان کی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں پھنسا دیا۔ کون نہیں جانتا کہ ترکی مغرب میں واقع نیٹو اتحادی ہے۔ روس کی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ روسی جہاز پر حملے کی معلومات او ر رہنمائی امریکہ نے فراہم کی۔ ترک لیڈر شپ کو صورت حال کا درست اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی، اسے معلوم نہیں تھا کہ روس اپنا جہاز گِرائے جانے کے بعد اس قدر شدید ردِ عمل ظاہر کرے گا۔ جب روس کا ردِ عمل سامنے آیا تو امریکہ نے دامن بچا لیا۔
اب ترکی کے لیڈروں کو آنے والے دنوں کی ہلکی سی تصویر نظر آنا شروع ہوئی ہے، جس میں وہ روس کے مقابلے میں تنہا کھڑے ہیں۔ دوسری طرف روس نے ترکی پر معاشی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ روسی جہاز کے گِرنے کے ساتھ ساتھ روس کا مشرقِ وسطیٰ میں شام، لبنان، ایران اور عراق والا اتحاد اور مضبوط ہو گیا ہے۔ ترک لیڈروں کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ روس جہازگِرائے جانے کے ردِ عمل میں کوئی انتقامی کارروائی کرے گا۔ روس کے صدر پیوٹن اس وقت دنیا بھر میں سب سے تجربہ کار اور منجھے ہوئے پاور پلے کے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے ترکی کے عوام اور حکمرانوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے مخاطب کیا، جو اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ آنے والے دن ترکی کے لیے زیتون کی شاخ لے کر نہیں آئیں گے۔ اس کے ساتھ مغربی اتحادی پاکستان کی طرف بھی متوجہ ہیں۔ اب پاکستانی قیادت کو دو عملی، دو رخی سیاست سے نکلنا ہو گا کیونکہ مغرب کا اتحاد چین اور روس کی پھیلتی ہوئی عالمی طاقت کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مغربی طاقتوں کے لیے بھارت میں بنیاد پرست اورمتعصب ہندو کے آنے کے بعد بھارت کی عالمی سفارتکاری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس میں کم از کم اتنی اہلیت ہو کہ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی اور ایشیائی صورت حال کا ادراک کر سکے۔
عالمی سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑا چیلنج پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے ساتھ بڑے مواقع بھی لے کر آتا ہے۔ لیڈر شپ کا امتحان ہمیشہ تاریخ میں دو طرح سے ہوا۔ اوّل، اسے پتا ہو کہ میری قوم اور میرے ملک کے لیے کس واقعے میں کون سے مواقع موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔دوم، لیڈر شپ کا فوکس اپنی ذات، اپنا شکم، اپنا کاروبار، اپنی برادری اور اپنے دوست نہیں ہو سکتا۔ آرٹ آف گورننس میں اقربا پروری، دوست نوازی اور برادری ازم کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور اگر یہ سب کچھ ہو تو ایسا دور اہلِ وطن کے لیے نیا محمد شاہ رنگیلا لے کر آتا ہے۔
میری رائے تو آپ سب جانتے ہیں۔ میں کسی قومی ایشو یا عوامی معاملے میں مصلحت کے پیچھے چھپنا گناہ سمجھتا ہوں۔ آپ ذرا خود سوچیے، کیا پاکستان میں ایسی لیڈر شپ موجود ہے جو ذاتی دولت کے انبار اور اَنا کے پہاڑ سے نیچے اتر سکے۔ غریب آدمی اور دھرتی ماں اس کا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ میں کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتا، یہ کالم میں نے اتوار کے دن کراچی جاتے ہوئے جہاز میں لکھا۔ جس ہوٹل میں قیام کے لیے اترا وہیں کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ظلِ الٰہی نے قدم رنجہ فرمایا۔ میں یہ سن کر سکتے میں آگیا کہ موصوف نصف شب کے بعد ہوٹل پہنچے تو ان کے ایجنڈے پر آئٹم نمبر ون اگلے دن کا ناشتہ تھا۔ شاہی ناشتے کے لیے رات بھر ایک وفاقی ادارے کی گاڑیاں دیسی انڈے تلاش کرتی رہیں۔ دہی، کلچہ، نان، سری پایہ، حریسہ اور تافتان ماضی کی داستان ہے۔
میرا المیہ یہ ہے کہ میں اس صورت حال کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول نہیں کر سکتا اور مسلم ملکوں کے عوام کو بھی مصنوعی بد بختی قبول نہیں کرنی چاہیے۔ حکمر انوں کا مسئلہ اور ہے اور عوام کی ترجیحات دوسری۔