"SBA" (space) message & send to 7575

مک مکا....رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

عربی زبان کا ناز،اعجاز اور سب سے بڑا افتخار یہ ہے کہ اپنی آخری کتاب کے ذریعے مالکِ ارض و سماء نے انسانیت کو مخاطب کر نے کا ذریعہ ''لسان العربی ‘‘کو بنایا۔
اس زبان میں ابیض کا مطلب ہے سفیداور لون رنگ کو کہتے ہیں۔عربی کا ایک مشہور مقولہ یوں ہے ۔''لون ابیض فاتح‘‘ جس کا ترجمہ ہے ،سفید رنگ ،رنگوں کا فاتح یا سردار ۔پوٹھوہاری اور ہندکو زبان کا ایک مشہور لوک گیت ''لٹھے دی چادر‘‘صدیوں سے گایا جا رہا ہے۔منو بھائی نے اس گیت کی سفید چادر میں لپیٹ کر سونا چاندی جیسا شاہکار لکھ ڈالا۔جو آج بھی اس قدر مقبول ہے کہ اس کی موسیقی کو سگنیچر ٹیون بنا کر ٹی وی چینلز پر پروگرام چلتے ہیں۔
دو دن پہلے میں آئین میں ترمیم کا ایک تازہ پرائیویٹ ممبر بِل سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروا کے نکلا،تو قومی اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا۔اس بِل کے ذریعے تجویز کیا گیا ۔آئین سے اعلیٰ عدلیہ میں ایڈہاک جج حضرات لگانے کا صدارتی اختیار ختم کر دیا جائے۔جس کی کئی اہم وجوہ بل کے مقاصد کے طور پر (Statement of Objectives)شامل ہیں۔ان میں سے کچھ آپ بھی پڑھ لیں۔
نمبرایک : آئین کے آرٹیکل 181میں جب بھی ضرورت ہو سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایکٹنگ جج تعینات کیا جا سکتا ہے۔یہ ایکٹنگ جج ملک کی پانچوں ہائیکورٹس میں سے کو ئی بھی چیف جسٹس ہوگا۔اور ظاہر ہے چیف جسٹس صوبے کا سینیئر ترین حاضر سروس جج بھی ہے‘ جو خواہ تھوڑے عرصے کے لیے ہی سپریم کورٹ میں بیٹھے اسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں پروفیشنل تربیت اور تجربہ حاصل ہو جائے گا۔
نمبردو:اس کے مقابلے میں آئین کے آرٹیکل 182کے مطابق ایڈہاک جج ریٹائرڈ پنشنرز میں سے لگائے جاتے ہیں‘اس لیے بار ایسے ججز کو وہ مقام نہیں دے سکتی جو میرٹ پر آئے ہوئے ججز کوملتا ہے۔
نمبر تین:ایڈہاک جج ،جج ہوتے ہوئے بھی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں جج نہیں ہوتے اور یوں بنچ اور بار عجیب غیر ضروری کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نمبرچار:سپریم کورٹ میںایڈہاک جج لگائے جانے کی صورت میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان اور سینئر پیونی ججز میں احساسِ محرومی پیدا ہونا قدرتی عمل ہے‘جن کو LEGITIMATE EXPECTANCY کے نظریے کے تحت یہ جائز اور قانونی توقع ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ میں جب بھی جج کے عہدے کی کوئی اسامی خالی ہو ئی تو صوبائی چیف جسٹس صاحبان میں ہی سے کسی کو سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔
نمبر پانچ:ملک کی بار کونسلیں اور بار ایسوسی ایشنز عمومی طور پر ایڈہاک جج تعینات کرنے کی مخالف رہی ہیں۔بلکہ عدل کے ایوانوں میں ایڈہاک ازم کے تصور کو خود عدلیہ نے تحریری فیصلوں میںدرست طور پر مسترد کر رکھا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی منو بھائی کے حوالے سے جن کا بچپن میری والدہ محترمہ کے آبائی گاؤں کلیام اعوان میں گزرا۔اس دن قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں پارلیمینٹرینز کی گیلری میں بیٹھا تو سارجنٹ ایٹ آرمز آئے اور کہنے لگے ایک صاحب آپ کو سپیکر گیلری میں یاد کر رہے ہیں۔میں نے مڑ کر دیکھا تو منو بھائی ہاتھ ہلا رہے تھے۔ ان سے ملنے گیاتو حسبِ سابق ان کی گفتگو کا آغاز کلیام اعوان سے ہوا۔انہوں نے بہت تپاک سے امی جی کی خیریت پوچھی۔پھر کہنے لگے عام لوگوں کے لیے بات کرنا مت چھوڑنا‘کیونکہ عوام کے حق میں کی گئی بات کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔میں نے پوچھا کوئی مشورہ ،کوئی رہنمائی ‘کوئی ہدایت؟ منو بھائی جواباََ بولے، صرف عام آدمی کی بات جاری رکھیں۔یہ بظاہر سادہ سے جملے ہیں ۔اگر موجودہ طرزِ حکمرانی اور سیاست کی ڈکشنری میں ان پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کا حل۔
آج دنیا کے معیار دوہرے ہیں۔ایک معیار اسرائیل اور من پسند بادشاہتوں کے لیے،جبکہ دوسرا معیار برما اور لیبیاء کے لیے۔ایک جگہ انسانی حقوق کا مطلب ہے زندگی اور موت ۔ دوسری جگہ انسانی حقوق کو ویڈیو گیم سمجھا جا رہا ہے۔ایسے میں ساری دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ غریب اور بے آسرا عوام ہیں۔پاکستان کی سیاست میں شہید بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی نے ساتھ ہی تین چیزوں کو قتل کر دیا۔سب سے پہلی پاکستان کی فیڈریشن ۔آج کوئی سیاسی قوت نہ چاروں صوبوں کی زنجیر ہے‘ نہ چاروں صوبوں کی زنجیر موجودہ سیاست کی بنیاد۔ثانیاََ،شہید بی بی کے ساتھ ہی روشن دماغی پر مبنی عوامی سیاست بھی کئی من مٹی تلے دفنا دی گئی۔تیسرے،عوام کی بجائے طاقت کا نیا سرچشمہ، کرپشن مافیا،نو دولتیے ،پراپرٹی قبضہ گروپ ،سیاسی انویسٹر ،بیرونِ ملک دورے کروانے والے ۔ ایک طبقہ اور بھی ہے۔اس طبقے کو اسلام آباد کی ڈپلومیٹک دنیا میں ڈبلیو ڈبلیو کہا جاتا ہے۔اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ جس مہمان کو ڈبلیو ڈبلیو کہا گیا ‘اس کا مطلب کیا ہے؟ کہنے والا ہنس کر کہے گا‘ واکس ویگن۔لیکن اس کا اصل مطلب دوسرا ہوتا ہے۔ جس کا ترجمہ میں وکالت نامے کے لیے نہیں کر سکتا۔البتہ یہ مغربی دنیا کے دو معروف آئٹم سمجھ لیں۔یا اپنے حسنِ خیال کے مطابق کچھ اور سمجھنا چاہیں تب بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔کیونکہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔
پاکستانی برانڈ جمہوریت کے تا حیات قائدین کا سب سے بڑا ''رخت سفر‘‘ علامہ اقبال کے میرِ کارواں والا نہیں ‘بلکہ آج کے میرِ کارواں مک مکا کو رختِ سفر مانتے ہیں۔ تازہ ترین ثبوت میرے بلوچستانی دوست ڈاکٹر مالک کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے۔ اس ریٹائرڈ سینیٹر کو جس با عزت طریقے سے وزارتِ اعلیٰ سے محروم کیا جا رہا ہے ، آپ آسانی سے اندازہ لگا لیں کہ مک مکا اس ملک میں کسی کی بھی نگاہ بلند نہیں رہنے دیتا۔ورنہ خودی کو بلند کرنے والوں کی پہچان ہی سخن دل نواز اور''پرسوز جان‘‘ ہوتی ہے۔ 
اگلے روز میں نے پی آئی اے کے ورکرز اور لیڈروں سے کہا، اپنے مفاد اور مطالبے کی خود رکھوالی کرنا ۔یہ نہ ہو تم پارلیمانی جدو جہد پر آسرا کر بیٹھو۔ پھر پتہ لگے کہ تمہارا ادارہ، تمہاری پنشن اور بچوں کے مستقبل کو بھی مفاہمت کھا گئی ہے۔مفاہمتی اقتدار کے فارمولے میں ہر چیز فروخت ہوتی ہے۔یہ خریدار کی مرضی ہے وہ کیا خریدے۔میرِکارواں برائے فروخت کا بورڈ لگائے پھرتے ہیں:
اس فتنۂ جدید پہ خوفِ خدا کرو
یوں بے لگام ہو کہ نہ سودے کیا کرو
اس پر ہے تاجرانہ عقیدت کا انحصار
اربابِ روز گار کی مدح و ثنا کرو
در پردہ اقتدار کی شہ ہے، تو کیا خطر؟
جو کچھ کرو، ضرور کرو، برملا کرو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں