غیر ملکی ڈالروں پر پلنے والی دانش کی منطق عجیب ہے۔
فرماتے ہیں ڈیورنڈ لائن کی حیثیت قانونی ہے‘ مگر ریڈکلف باؤنڈری کمیشن والی لائن عارضی تھی بلکہ لچکدار بھی۔ ریڈکلف کمیشن بنا ہی ہندوستان کی تقسیم کے لیے تھا‘ جس میں دھاندلی‘ اور فرنگی سے ملی بھگت کرکے تحصیل اجنالہ بھارت نے ہتھیا لی۔ بھارتی فوج کے کشمیر پر قبضہ کے لیے دوسرا مؤثر راستہ دستیاب نہیں تھا۔
ڈیورنڈ نے جو لائن کھینچی وہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی بے معنی ہو گئی۔ آئین مجریہ 1973ء کے آرٹیکل نمبر ایک کے حصے (2) میں پاکستانی علاقوں کی وضاحت ہے۔ ذیلی آرٹیکل (c) اور (d) نے پاکستان میں شامل علاقے طے کر دیے۔ انہی علاقوں پر مشتمل پاکستان کو دنیا نے خود مختار ملک تسلیم کیا۔ اقوامِ متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم کی رکنیت بھی اسی کے تحت ملی۔ یہ بھی طے ہے ڈیورنڈ لائن کبھی عالمی تنازع تسلیم ہوئی‘ نہ ہی علاقائی تنازع؛ البتہ ادھار پر چلنے والی خارجہ پالیسی کی وجہ سے پہلی دفعہ اسلام آباد کی ''جلا وطن‘‘ قیادت نے افغان وفد کو بلا کر ایک طرح سے اس کو اہمیت دی۔
قارئین کو وہ 'وکالت نامہ‘ یاد ہو گا‘ جس میں‘ میں نے پارلیمنٹ میں دفاعی امور کے ایکٹنگ وزیر کی بریفنگ کا سرسری ذکر کیا تھا۔ اس موضوع پر سرکاری جگت بازی کے دوران دفاع کے پارٹ ٹائم وزیر نے یہ تک کہہ دیا: ''پاک افغان تنازع ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے ہے‘‘۔ یہ دلیل ویسی ہی ہے جیسی بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے فوجی حملے کو چھپانے کے لیے دی جاتی ہے۔ یہی کہ 'سب غلطی ہماری تھی ورنہ بنگلہ دیش نہ بنتا‘ نہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوتا‘۔
دنیا جانتی ہے‘ افغانستان بذریعہ ڈیورنڈ لائن پاکستان میں اسلحہ، انسانی سمگلنگ، ہیروئن اور ہر قسم کی قانون شکنی کے ماہرین ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اس بدیشی مال کو عشروں تک مقدس گائے بنا کر پیش کیا گیا۔ اب پاکستانی اس کی اصل حقیقت جان چکے‘ مگر اس کے لیے بہت بھاری قیمت ادا کی گئی۔ 50 ہزار سے زیادہ لاشیں، لاکھوں زخمی، کھربوں کا نقصان، ہیروئن کلچر، اغواء برائے تاوان، کلاشنکوف راج، پاکستانی شناختی کارڈ کی لنڈے میں فروخت، سبز پاسپورٹ کی لوٹ سیل، پاکستان میں رہ کر‘ پاکستان کا کھا کر، پاکستان کو گالیاں دینے والے پڑوسی اور برادرانِ اسلام اس کے چند نمونے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے ڈیورنڈ لائن کو چابک دستی سے گرفت میں لیا۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات مشرقی بارڈر سے مغربی بارڈر پر شفٹ ہو گئے ہیں۔ اسی لئے میجر جواد چنگیزی گیٹ پر تار اور دیوار بروقت اقدامات ہیں۔ دوسری جانب ہماری بے دل اور کبوتر ذہنیت کی قیادت ہے۔ مکار بلی سامنے کھڑی ہے اور کبوتر صاحب آنکھیں بند کر لینے کو مسئلے کا حل سمجھ رہے ہیں۔
پاکستانی پھر ناخوش ہیں۔ شہرِ اقتدار کی اطلا ع ہے کہ آئی ایم ایف کے علاقائی عہدیدار کے ذریعے سمدھی کو کان سے پکڑ کر کہا گیا ہے کہ معاہدے میں توسیع کرو۔ اس کا مطلب ہے افغان جاسوس، سابق فوجی، را کے ایجنٹ، قانون شکن، 32 سال پاکستان کا نمک کھا کھا کر ہونے والی بدہضمی کے مریض مزید پاک سر زمین پر ''براجمان‘‘ رہیں۔ کے پی کے حکومت نے بروقت آواز بلند کی۔ درست کہا: افغان مہاجر فوراً واپس بھیجو۔ وفاقی حکومت ٹال مٹول کرتی رہی۔ اسی لئے کے پی کے کو یہ بھی کہنا پڑا کہ نون لیگ کو مہمان نوازی کا زیادہ شوق ہے تو افغان مہاجرین کو اپنے گھر لے جائے۔ تیسری تجویز بھی انتہائی معقول تھی، مہاجروں کو فوری طور پر کیمپوں تک محدود کیا جائے۔
اس وقت افغانستان کے سرکاری اور غیر سرکاری نمائندے اسلام آباد، کوئٹہ میں لابنگ کر رہے ہیں‘ مہاجروں کا یہ بوجھ پاکستان کی پیٹھ پر زبردستی لادے رکھنے کے لیے۔ ہمدرد اور سہولت کار پھر ان کے کام آ گئے۔ غیر قانونی طور پر مقیم، غیر قانونی کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کے قیام میں توسیع کے مزید خوفناک نتائج نکلیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دوست مودی کے دباؤ کا واحد نشانہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اقتدار کا پہلا ڈیڑھ سال مشرقی بارڈر کو گرم رکھنے کے بعد مودی نے مغربی بارڈر کی طرف چھلانگ لگا دی۔ اس وقت ہماری مغربی سرحد پر بھارت، را، چاہ بہار والے تین ملکی اتحاد کے مفادات کے نگہبان بیٹھے ہیں۔ وہ اس بارڈر پر نئی ''مسلسل جنگ‘‘ چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مغربی بارڈر سے ہونے والے ہر حملے کے بارے میں عموماً دو آرا ظاہر ہوتی ہیں۔ حملہ بھارت نے کروایا یا پھر امریکہ نے۔ بہت دن پہلے حبیب جالب نے یہی بات یوں کہی۔
نام چلے ہرنام داس کا‘ کام چلے امریکہ کا
مورکھ اس کوشش میں ہیں‘ سورج نہ ڈھلے امریکہ کا
نردھن کی آنکھوں میں آنسو آج بھی ہیں اور کل بھی تھے
برلاؔ کے گھر دیوالی ہے‘ تیل جلے امریکہ کا
دنیا بھر کے مظلوموں نے بھید یہ سارا جان لیا
آج ہے ڈیرہ زرداروں کے سائے تلے امریکہ کا
سیانے کہتے ہیں ہر مصیبت میں ایک شاندار موقع بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہمارے مغربی بارڈرز پر یہ قول صادق آتا ہے۔ آج بلوچستان اور کے پی کے کے عوام میں پاک سرزمین کی قدر و قیمت پہلے سے کروڑوں گنا زیادہ ہے۔ ہمارے نام نہاد برادران اور شاندار ہمسایوں نے بے رحم زخم لگائے۔ اتنے زخم جن کی گنتی کرنا بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا اب لوگ زخم لگانے والوں کی میزبانی کرنے کے لئے تیار نہیں۔پاکستانی حکمران اشرافیہ قومی معاملات میں ترجیحات پر ''کمپرومائز‘‘ کرنا بند کرے۔ ہمارے لوگوں کی پہلی ضرورت اور ترجیح امن کی بحالی ہے۔ 32 لاکھ مشتبہ لوگ۔ روزانہ ہزاروں دوسرے بھی‘ جو جنگل اور نالوں سے بارڈر کراس کرتے ہیں۔ ان کو روکے بغیر دشمن کے وار کیسے روکے جا سکتے ہیں؟ پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے بارڈرز محفوظ کرے۔ انٹری پوائنٹس پر گیٹ، دیوار اور تار ہی نہیں لیزر لگائے جائیں۔ میگا پروجیکٹس بنانا اچھاکام ہو گا۔ ان کی حفاظت نہر والے پل پر کھڑے ہو کر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے بارڈر محفوظ رکھنا اور اسے مضبوط بنانا ضروری ہے۔
افغانستان میں بے شمار تہذیبوں کا مفتوحہ علاقہ شامل ہے۔ ڈیورنڈ لائن ضرور مؤثر ہوتی اگر افغانستان آج بھی تاجِ برطانیہ کا غلام ہوتا۔ جو لوگ دوست نہیں بن سکتے وہ پڑوسی بن کر جینا سیکھیں۔ پاکستان سے 4 عشروںکی قربانی کے بعد بھی شکایت رکھنے والے اس کا جاری کردہ شناختی کارڈ پھاڑ ڈالیں۔ اسے خدا حافظ کب کہیں گے؟
ڈیورنڈ لائن کو قائد اعظم نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بحیثیت گورنر جنرل بانیِء پاکستان نے ہمارے بارڈر کو ڈیورنڈ لائن سمجھ کر روندنے والے پائوندہ لشکریوں کی تاریخی مرمت کروائی۔ تاجر حکمران سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہہ کر کس کو راضی کر رہے ہیں؟ کیا کوئی پاکستانی، غزنی،کابل، ہرات یا زابِل میں پاکستان ریسٹورنٹ یا پاکستانی بریانی کا بورڈ لگا کر کاروبار کرسکتا ہے؟ چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں‘ تو پھر کون سا ڈیورنڈ اور کیسی لائن...؟
اس ملک کی سرحد کو کو ئی چھو نہیں سکتا
جس ملک کی سرحد کی نگہباں ہیں آنکھیں
آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ملتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں