"SBA" (space) message & send to 7575

لندن پلان…(10)

سفر کے بارے میں بے شمار محاورے اور آسمانی احکامات بھی ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ یوں ہے۔پڈنگ کا ذائقہ پڈنگ کھانے سے ملتا ہے ایسے محاورے اورآفاقی آیات تبھی سمجھ آتی ہیں جب آدمی پردیس پہنچتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پہلے اندرونِ سندھ ایک خالص دیہاتی سماج میں پردیس کے بارے میں یہ لطیفہ مشہور تھا۔کچے کے دور درراز جھونپڑیوں والے گاؤں کا بابا کسی کام سے سکھر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ٹرین آئی تو مسافروں کے درمیان ہماری روایتی دھکم پیل شروع ہو گئی۔ٹرین کے اندر بیٹھے مسافر سامان اٹھا کر نیچے اترنے کے لیئے پائیدان پر پہنچے ۔پلیٹ فارم پر کھڑے مسافروں نے ریل کے ڈبوں میں گھسنے کے لیئے پائیدان پر حملہ کر دیا۔اسی دوران کسی نے بابے کو دھکا مارا۔بابے نے ٹھنڈی آہ بھری ٹرین کی طرف دیکھا اور اداس لہجے میں بولا"مار لو ۔جتنے چاہو دھکے مار لو پردیس میں جو آیا بیٹھا ہوں"۔
لندن میں ہر دیس ،رنگ،نسل ،عمر اور سائز کے پردیسی ملتے ہیں۔ مسافر نوازی کے لیے انگلستان کی حکومت اور تارکینِ وطن ہمہ وقت موجود ملتے ہیں۔انگلستان میں مسافرت کے دوران دو طرح سے تہذیبوں کا تصادم دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک یہ کہ جس علاقے میں گورے زیادہ تعداد میں بستے ہوں وہاں پاکستانی مشکل سے ہی رہتے ہیں۔ان کی اکثر شکایت گوروں کے طرزِ عمل سے نہیں بلکہ ان کے طرزِ زندگی سے ہوتی ہے۔اسی طرح جس گلی میں زیادہ پاکستانی رہتے ہوں گورے وہاں سے کھِسکنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔اس سلسلے میں کسی گورے سے بات نہیں ہو سکی۔اس لیئے فرض کر لیتے ہیں ان کا مسئلہ بھی پاکستانیوں جیسا ہی ہے۔اس تصادم کو چارلی ولسن اور جنرل ضیاء کا مشترکہ ورثہ سمجھ لیں۔جس میں خاصا حصہ افغانیوں سمیت ان غیر ملکیوں نے ڈالا جنہیں برادرانِ اسلام کہہ کر سیاسی مولویوں نے پاکستانی پاسپورٹ دلوا ئے تھے۔وہ انگلستان سمیت جہاں بھی پہنچے اپنے رہن سہن،تہذیب،عادتوں،حتیٰ کہ شلوار اور شٹل کاک برقعہ کو طرزِ زندگی کی بجائے جادۂ زندگی ٹھہرایااور اس سے انکاری لوگوں سے متصادم ہو گئے۔جب یہ سوچ رکھنے والی اقلیت کا کاروبار چمک اٹھا تو پھر بہت سے دوسرے بھی اس طرف متوجہ ہوگئے۔ امت اور عقیدے کے اظہار کی ساری علامتیںجُبہ،دستار ،پگڑی اور ٹوپیوں کے رنگوں میں تقسیم کر دی گئیں۔
لندن سے ڈبلن تک انڈین،بنگالی ،مراکشی ،عرب، ایرانی، انڈونیشیئن ،چینی،سوڈانی،ترک اورمصری مسلمان دور سے پہچانے جاتے ہیں۔تقریباََ ایک طرح کا لباس اور حلیہ۔ہمارا مذہبی تشخص ابھارنے والوں نے آپس میں تصادم کے ہزاروں ہتھیارایجاد کر لیے ہیں۔جہاں ایک پاسپورٹ ہولڈر ایک ملک کے شہری ایک دوسرے کوا بوجہل سے بڑا گمراہ سمجھتے ہوں وہاں دوسری تہذیبوں کے بارے میں ان کا رویہ انہیں تنہائی اور انسانوں کی محبت سے محرومی کے گہرے کنویں میں نہیں گرائے گا تو اور کیا ہو گا۔
میں نے وطن واپسی کا قصد کرتے وقت جب بھی ایسا تصادم دیکھا مجھے رؤف کلاسرہ یاد آئے۔جو سرائیکی ہونے کے باوجود پوٹھوہاری ہونے پر زور دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں جس علاقے میں جاؤ ،جس وسیب کا کھاؤ انہیں پسماندہ ،گنوار اور جاہل ثابت کرنے کی کوشش نہ کرو ۔بلکہ ان کا شکریہ ادا کرو کیونکہ ان کے حصے کا روزگار آپ کے قبضے میں ہے اس لیے ان کی روایت کا احترام سیکھو۔حکومت کو چاہیے سرکاری افغان وفد آئے تو اس کا استقبال رؤف کلاسرہ کے انہی لفظوں سے کیاکرے ۔شاید کابل کے باغِ بالا سے ذرا نیچے صدارتی محل کی دیواروں کے قیدی افغانی صدر اشرف غنی کو یہ بات سمجھ آ جائے۔جس کے 36لاکھ مہمانوں کا بِل پاکستان اداکررہا ہے ۔اور اس کا اپنا دل مودی کی مٹھی میں بندہے۔ 
یہ خیالات مجھے واپسی کے لئے سامان پیک کرتے وقت آئے۔سٹی سنٹر میں واقع ہوٹل کی لابی میں پہنچے تودھیان اپنے ملک میں واقع ڈھائی عدد پنج ستارہ ہوٹلوں کی طرف چلا گیا۔جہاں گاڑی کا دروازہ کھولنے والا ،گیٹ پر سلیوٹ مارنے والا اور استقبالیہ پر درجن ،ڈیڑھ درجن ملازم نظر آتے ہیں۔یورپ میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔کمرے سے لفٹ تک اور لفٹ سے لابی تک صرف ایک ویٹر ہوتا ہے ۔اگر آپ اس سے سامان اٹھواناچاہیں تو چند پاؤنڈ لے کر ہوٹل استقبالیہ والے کمرے تک اسے ضرور بھیجیں گے۔
مانچسٹر سٹی سنٹر میں واقع ہوٹل میں قیام کے دوران عبدالرحمن نے روم سروس کو فون کیا اور کہا پانی کی بڑی بوتل کمرے میں بھیج دیں۔یورپ میں پانی کی بڑی بوتلیں 100فیصد شیشے کی ہوتی ہیں پلاسٹک کی نہیں۔کیونکہ شیشے کو صحت کیلیئے پلاسٹک کے مقابلے میں محفوظ سمجھا جاتا ہے۔آپ کوشش کرکے پلاسٹک کا کوئی لفافہ پورے انگلستان میں شاید ہی ڈھونڈ سکیں۔ہاں البتہ پلاسٹک کے وہ لفافے جن میں میر پور،کلر سیداں،گجرات یا منڈی بہاؤالدین کی مٹھائیاں انگلستان میں پہنچتی ہیں وہ وافر مقدار میں مل جاتے ہیں۔باقی سب جگہ کاغذ کے بنے لفافے۔
یوکے میں آ ج کل ایک بحث میڈیا پر خوب رش لے رہی ہے ۔یہی کہ گھر اور پارک کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لئے والنٹیئرز کو اجازت دی جائے کہ نہیں۔۔۔؟اکثریت کا خیال ہے بالکل بھی نہیں۔اس اکثریت میں بلدیاتی،صحت ِعامہ کے ادارے اور ماحولیاتی ماہرین شامل ہیں۔آپ ان کے دلائل سن کر یقیناََ حیران ہوں گے۔ان کے مطابق غلہ کار خواتین و حضرات ایک ہی لفافے میں ہر طرح کا کوڑا کرکٹ ڈال دیتے ہیں۔شیشہ ،ٹین،پلاسٹک اور دیگر گندگی۔جبکہ بلدیاتی ادارے گھروں میں علیحدہ علیحدہ بیگ سپلائی کرتے ہیں۔ پھر وہ بیگ کوڑا اٹھا کر اسے ریسائیکلنگ پلانٹ تک پہنچانے کے لئے الگ الگ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ جس کے ذریعے شیشے کی کروڑوں بوتلیں لوہے اور ٹین وغیرہ کے ڈبے اور کھاد بنانے والی گندگی علیحدہ ریسائیکل کر کے دوبارہ نفع بخش استعمال میں آتی ہے۔مشرقی لندن میں گوروں کے علاقے بارگنگ میں رہائش پذیر ایک پاکستانی خاتون کو بلدیہ ہر مہینے اس بات پر جرمانہ کرتی ہے کہ وہ سارا گند ایک ہی بیگ میں ڈالتی ہے۔جب بلدیہ والے گند اٹھانے آتے ہیں دروازے پر کھڑے ہو کرانہیں یہ خاتون (Sorry) کہہ کر راضی کرتی ہے۔
اس دفعہ مانچسٹر ائیر پورٹ پر ایک ہی وقت میں قومی ائیر لائن اور اس کی جیب کاٹ کر پیدا ہونے والی ائیر لائن کی فلائٹ چیک ان ہو رہی تھی۔اس لیئے ائیر پورٹ پر انتظامی گوروں نے جگہ جگہ عجیب و غریب مگر شرمندہ کرنے والے بورڈ لگا رکھے تھے۔ ایک بورڈ پر لکھا تھا ثابت کریں آپ ان میں سے نہیں جو فلائٹ کو لیٹ کر وا رہے ہیں۔ڈسپلے بورڈ پر ان چیزوں کی تصویریں اورنام بھی لکھے تھے جو جہاز میں لے جانا منع ہیں۔شاید ہی کوئی ایسا مسافر نکلا ہو جس کے پاس سے ممنوعہ چیزیں نہ برآمد ہوئی ہوں۔اس لیئے جو مسافر ڈیڑھ منٹ میں چیک ان ہو جاتااس پر آدھا گھنٹہ لگا۔عورتوں،مردوں کو کئی دفعہ میٹل،ڈیٹیکٹر اور ایکسل مشین سے جوتے ،جرابیں اتار کر دونوں ہاتھ اوپر کر کے کئی کئی بار گزرنا پڑا۔ممنوعہ اشیاء کے ڈھیر مسافروں کا منہ چڑھانے کیلیئے سامنے لگے تھے۔تقریباََ سارے خواتین و حضرات اپنے پرس ،بیگ یا جیب میں 4,2ایسی چیزیں ضرور ڈالتے ہیں ۔جنہیں جہاز پر نہ لے جانے کا ائیر ٹکٹ پر بھی لکھا ہوتا ہے۔ائیر پورٹ پر پتلی گلی سے نکلنے کے خواہشمند و ں نے فلائٹ 100منٹ لیٹ کروا دی۔
وادی ء خیال کا گھوڑا دوڑتا آیا،بھائی صاحب پل صراط پر تلاشی ہو گی معلوم نہیں کس کس چیز کے ڈھیر لگے نظر آئیں گے۔تبھی تو شاعر نے یوں خیال آفرینی کی ؎
مجھ سے یہی پہ فیصلہ کر لو تو ٹھیک ہے
آپس کی بات جائے نہ پروردگار تک
(اگلے سفر تک ختم شد)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں