ایک سرکاری محکمے کے دوست نے حکومتی گزٹ نما لمبا سا پیغام میرے واٹس ایپ پر بھیجا‘ جس میں سارک تنظیم کے خلاف بھارت کی سازشوں اور کارروائیوں کی لمبی تفصیل درج تھی۔ یہ طویل پیغام مجھے قسطوں میں پڑھنا پڑا۔ سخت الجھن ہوئی کیونکہ اس میں ہمارا کسی جگہ بھی ذکر نہیں تھا‘ یعنی ہماری ایشین ٹائیگر قیادت اور پاناما ٹائیگر جمہوریت دونوں کا۔ جواباًَ میں نے مختصر سا ٹیکسٹ بھیجا‘ جو یہ ہے: ''اگر آپ کی بات سچ مان لوں تب بھی ہمیں یہ سب کچھ پتا تھا کہ ہمارے خلاف کیا ہو رہا ہے۔ تو پھر ہم کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے؟ مودی ہمارا موذی دشمن اور بھارت ناراض پڑوسی۔ ان دونوں کو طعنے دینے یا ہومیوپیتھک سا گِلہ کرنے کے علاوہ سرکار کے پاس دوسرا کیا ایجنڈا تھا؟‘‘ جواب میں مجھے دوست کی طرف سے Smiley)) واپس آئی‘ یعنی مسکراہٹ سے بھرپور ایک کارٹون کا پیلا سا چہرہ۔ مجھے کارٹون کا یہ بے جان چہرہ لہراتا ہوا لگا۔ اس کے پیچھے بھی کئی برسرِ اقتدار کارٹون ناچتے نظر آئے۔ اور ساتھ ہی بابائے جمہوریت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کے یہ پسندیدہ شعر بھی:
شمع روشن ہوئی، محفل میں پتنگے ناچے
واہ رے تہذیب، تیری بزم میں ننگے ناچے
اہلِ مغرب کے تمدن کی، فسوں کاری سے
بن کے اشراف، سٹیجوں پہ لفنگے ناچے
اصل سوال یہ نہیں کہ اسلام آباد سارک کانفرنس کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے کون سے جتن کیے۔ قوم جاننا چاہتی ہے ایسے ماحول میں جب نریندر مودی پاکستان کو عالمی برادری میں اکیلا کرنے کی تقریریں کرکے اپنے اہداف بیان کر رہا تھا‘ تو ہماری جمہوریت کا حسن لشکارے مارنے کی بجائے مسلسل ماند کیوں پڑ رہا تھا۔ اس سفارتی یلغار کا آغاز دبئی سے ہوتا ہے۔ یو اے ای کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں ہندوستانی وزیر اعظم نے ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا‘ اور ساتھ ہی ہمیں الٹی میٹم دیا کہ اب پاکستان کو بدلی ہوئی دنیا کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ بھارت نئے دوست بنا رہا ہے اور پاکستان کو جلد ہی تنہا کر دیں گے۔
سوال یہ ہے اس اعلان کے بعد یو اے ای کو نیوٹرل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جواب آپ جانتے ہی ہیں۔ پاناما لیکس، احتجاج، بدترین مالی بدانتظامی، اندرونی، بیرونی قرض، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے نیچے دبی ہوئی جمہوریت حکمرانوں کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کرتی رہی۔ دوسرا سوال بھارتی وزیر اعظم کے دورہء سعودی عرب سے پیدا ہوا‘ جہاں بت شکن برادر اسلامی ملک نے بت فروش اور بت پرست بلکہ تشدد پرست ہندو وزیر اعظم کو اپنے سب سے بڑے ریاستی اعزاز سے نواز ڈالا۔ ساتھ ہی ہماری عزت مآب بہنوں نے سرکاری تقریب میں شیخ و شاہ کی موجودگی میں مودی کے ساتھ بے باکانہ سیلفیاں بنائیں‘ اور پھر انہیں سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹوں پر اپ لوڈ کرکے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
اس بارے میں مزید کچھ کہنا اپنے آپ کو مزید شرمندہ کرنے والی بات ہے‘ لیکن حج کے موقع پر ایک اور قابلِ توجہ بات سامنے آئی‘ جس پر جناب وزیر اعظم عرف محترم وزیرِ خارجہ کو ہنگامی بنیاد پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ حج کے موقع پر دیئے گئے سالانہ خطبے میں امام حرم نے جن مسلمان مظلوم خطوں کا درد مندی سے ذکر کیا اس فہرست میں کشمیر کے مظلوم عوام غائب تھے۔ پیلٹ گنوں سے چھلنی، سات لاکھ بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں زخمی نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں اور شہدائے کشمیر کے وارث میرے سمیت ایک ہی دعا کر رہے ہیں‘ اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرزندانِ کشمیر کی جدہ والی سٹیل فیکٹریوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے‘ جن کی وجہ سے فرزندانِ کشمیر پر لندن پارک لین والی برکتیں نازل ہوئیں اور پاناما والی نعمتیں بھی۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی رہے گا کہ سعودی عرب کو سفارتی طور پر راضی کرنے کے لیے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے کیا کوشش کی؟ گزشتہ روز تو حد ہی ہو گئی۔ بھارتی میڈیا نے ٹی وی سٹیشنوں کے ذریعے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کر ڈالا۔ فوجی ترجمان کو بولنا پڑا‘ ساتھ ہی دو ماؤں کے اصلی شیر بیٹے مادرِ وطن پر قربان ہو گئے۔ اس سے 24 گھنٹے پہلے ہماری تمام تر خوشامدی ساڑھیوں، بزدلانہ مٹھائیوں اور دوستی کی تابعدارانہ ودھائیوں کے باوجود مودی نے سارک کانفرنس کو بڑی کامیابی سے پوری طرح ناکام بنا ڈالا۔ دشمن سے گِلہ نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ علاقائی سفارتکاری میں شاید ہی کسی دوسرے ملک کی حکومت کو اس قدر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہو‘ جو ملکوں کی سیاسی تاریخ نے ایشیئن ٹائیگر صاحب کے حصے میں لکھ دی۔ بھارت کی طرف سے حالیہ کشیدگی شروع ہونے سے بہت ماہ پہلے طے ہو چکا تھا سارک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو گی۔ قوم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ پاناما، امریکہ، ترکی، عربستان، برطانیہ اور ان سارے ملکوں میں جہاں برسرِ اقتدار اشرافیہ کے ڈالروں سے بھرے ہوئے کنٹینر پارک کیے گئے ہیں‘ کے علاوہ سارک کے کس ملک میں جا کر نواز شریف صاحب نے اس کی قیادت کو اسلام آباد سارک کانفرنس میں شرکت کرنے کی باعزت دعوت دی‘ اور پُرخلوص میزبانی کا یقین بھی دلایا۔ ہماری جمہوریت کے حسن کا کمال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا سوال پوچھے تو اسے جواب ملتا ہے: اپنے گریبان میں جھانکو۔ ساتھ ہی حکمران سینہ تان کر کہتے ہیں: 5 سال کا مینڈیٹ ہمارے پاس ہے‘ ہم جو چاہیں کریں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
اندرونِ ملک تو حسن کے مظاہرے کسانوں سے نابینا افراد تک، لیڈی ٹیچرز سے بے روزگار نوجوانوں تک‘ اور فاٹا سے چک جھمرا تک ہر کوئی روزانہ دیکھتا رہتا ہے۔ سارک میں ہماری عزت افزائی کی تو حد ہو گئی۔ آئیے ایشین ٹائیگر کے جمہوریت کے بیرونی حسن کا ایک اور کرشمہ ملاحظہ کریں۔ یہی کہ وہ افغان حکومت نے‘ جس کا سفیر پاکستان میں 36 سال سے ہمارے ملکی وسائل پر پلنے والے افغانوں کے لیے نئے خدمت سنٹر کا افتتاح پر افتتاح کر رہا ہے‘ سارک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے اسلام آباد آنے سے انکار کیا۔
عقلمند فرزندانِ کشمیر کی جگہ اسلام آباد میں کوئی بیوقوف حکمران برسرِ اقتدار ہوتا تو کابل کے نئے میئر اشرف غنی سے کہہ دیتا کہ 15 دن میں اپنے لاڈلے مہمان 'افغان مہاجر‘ واپس لے جاؤ۔ باقی زندگی ان کی میزبانی خود کرو یا اپنے نئے کزن نریندر مودی سے کہو کہ اپنے ان ہمدردوں کو واہگہ بارڈر پر وصول کر لے۔ بھوٹان بھارت کے ساتھ ویسا ہی ''لینڈ لاک‘‘ ملک ہے جس طرح افغانستان ہمارے ساتھ۔ پاناما فو بیا میں ڈوبے ہوئے حکمران بتائیں بھوٹان کے بادشاہ کی خدمت میں دعوت نامہ لے کر کون گیا تھا؟
غنڈہ، گنڈاسہ، پرچہ اور ڈنڈا ملک کے اندر جمہوریت کا وہ حسن ہے جس کے ذریعے دنیا نے ٹی وی پر ریاستی سرپرستی میں اپنے لوگ قتل ہوتے دیکھے۔ علاقائی سیاست اور عالمی سفارت کاری دانش کا تقاضا کرتی ہے۔ میری مراد اجتماعی دانش سے ہے۔ دکانداری، سرمایہ کاری، چور بازاری اور سفارت کاری میں یہی بنیادی فرق ہے۔ سارک کانفرنس کو ناکامی سے روکا جا سکتا تھا‘ اگرکوئی دیدہ ور ہوتا۔ ہم سب نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کی خاتون اول مشل اوباما وزیٹرز گیلری میں بیٹھی تھی۔ ایشین ٹائیگر نے اقوامِ متحدہ میں نیا ریکارڈ بنایا۔ معصوم سکول پڑھتے بچوںکو پاکستان کے بین الاقوامی مندوب کا درجہ دے کر۔
کہنے دیجیے، آنے والے دن جمہوریت کے حسن کے کئی کمالات لے کر آ رہے ہیں۔ تفصیل میں جانے سے ڈرتا ہوں شورش کی طرح۔
اے مری قوم تیر ے حسنِ کمالا ت کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
(شورش کاشمیری کی نظم ''مسلمان دولت کے بھکاری، طاقت کے پجاری‘‘ سے ایک شعر)