بے نظیر ایئر پورٹ کے باہر بے مثال ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم تھا۔ ہر گاڑی دوسروں کوکراس کر کے ایئر پورٹ پارکنگ تک پہنچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہی تھی۔کچھ گاڑیاں مسلسل ہارن بجا رہی تھیں۔کچھ بے تاب روحیں مُکہ بازی کے موڈ میں تھیں۔40 سیکنڈ کا یُو ٹرن 40 منٹ میں طے ہوا۔ امیگریشن کائونٹر پر انگریزی حُلیے والی آنٹی پنجابی میں احتجاجی تقریر فرما رہی تھی۔
راول لائونج کے دروازے پر فرزند راولپنڈی مل گئے۔ چائے کی دعوتِ شیخ پر گپ شپ شروع ہوگئی۔ جہازی عملہ، سرکاری کارندوں، کارِخاص والوں، باوردی یوتھ کے صرف دو مطالبے تھے۔ پہلا ،سیلفی سَر! اوردوسرا پاناما کیس میں اِنصاف کب ہوگا۔ ایک طالبہ جو ایمریٹس کی فلائٹ سے یورپ بذریعہ دبئی جارہی تھی، کہنے لگی، آپ وکیل کی بجائے جج کیوں نہیں بن جاتے؟ اس کے سوال پر مجھ سے پہلے کسی اور نے تبصرہ کرڈالا۔ کہا: ''ینگ لیڈی، آپ وکیل کرنا چاہتی ہیں یاجج۔۔۔؟‘‘
ایئر پورٹ کے ایک بڑے محرم راز نے بتایا، سول ایوی ایشن والے قومی فلیگ کیریئرکے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کرتے ہیں۔ اگر پرائیویٹ ایئر لائن اور پی آئی اے ساتھ ساتھ ہوں تو وہ لازماً پرائیویٹ جہاز کو پہلے اُڑان بھرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ پتا چلا، قوم کی طرح قومی ایئر لائن بھی انصاف کے تعاقب میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ ہوائی اڈہ، لاری اڈہ بن گیا ہے جہاں نمبر لگانے کے لیے بھی ''پرچی‘‘ چلتی ہے۔ ایمریٹس ایئر لائن کے جہاز میں بیٹھ کر پی آئی اے پر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے۔ جس فلائٹ میں ہم بیٹھے اس کا فلائٹ انجینئر پاکستانی تھا۔ وہ بھی انصاف کے تعاقب میں میری سیٹ تک پہنچ گیا۔کہنے لگا، اس کی بیگم غیر ملکی ہیں۔ پہلے ایسے جوڑوں کو شناختی کارڈ عارضی طورپر جاری ہوتا تھا، اب وہ بندکر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک خاندان پاکستان جانا چاہے تو اولاد کو صرف ٹکٹ خریدنا ہوتی ہے جبکہ بچوںکی ماںکو پہلے ویزہ اپلائی کرنا پڑتا ہے۔ میں نے فلائٹ انجینئر سے پوچھا کہ کتنے پا کستانیوںکا مسئلہ آپ جیسا ہے۔ جواب ملاصرف گلف میں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، جن کی پہلی، دوسری یا پھر تیسری بیوی غیر ملکی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مجھے اس جواب سے خوشگوار پریشانی ہوئی۔ مرد حضرات میری بات سمجھ گئے ہیں اورگلف میں رہائش پذیر مرد حضرات کوشش کریں کہ اس خوشگوار پریشانی کی خبر پاکستان میں مقیم خواتین تک نہ پہنچے ورنہ ان کا حال وہی ہوگا جو اورنج ٹرین کے ٹھیکیداروں کا ہے یا تخت لاہورکی جمہوریت کا۔ بے چاری جمہوریت جو کبھی کہا کرتی تھی کہ آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شریف نہیں۔ اس جمہوریت کی آج بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بے چاری کہہ رہی ہے، آصف صاحب کی گھر تشریف آوری سے جمہوریت مضبوط، تندرست اور توانا ہو گی۔ بات ہو رہی تھی غیر ملکی پری جمالوں کے پاکستانی خاوندوں کی۔ امید ہے نادرا اور وزیر داخلہ چوہدری نثار ان مظلوم مردوںکی مردانہ وار مدد کریں گے۔
دبئی کا ایئر پورٹ 1980ء میں تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ ایک مکمل شہر ہے۔ روزانہ لاکھوں لوگ یہاں آتے اور لاکھوں ہی واپس جاتے ہیں۔ سینکڑوں جہاز لینڈ کرتے اور سینکڑوں یہاں سے اڑان بھرتے ہیں۔ نہ کوئی شور، نہ آوازیں، نہ بحث، نہ تکرار، جہاز سے اترنے سے لے کر امیگریشن تک کسی بھی جگہ بدانتظامی کا کوئی منظر نظر نہیں آتا۔ صحرا کے بدوئوں نے مغرب سے وہ سب کچھ 30 سالوں میں سیکھ لیا جو 70 سال سے ہمارے ملک کے آقا سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اب سنا ہے تین سال بعد دبئی ایئرپورٹ جبلِ علی پر شفٹ ہوجائے گا۔ ایئرپورٹ کے دروازے کے باہر پرخلوص پاکستانیوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ کسی دوسرے ملک کے لوگ اتنے مہمان نواز نہیں جتنے ہم لوگ ہیں۔ لہٰذا ایک ایک مسافر کے استقبال کے لئے پاکستانیوںکی ایک سے زیادہ گاڑیاں ایئرپورٹ پہنچتی ہیں۔ یہ پاکستانی اپنے پسندیدہ لوگوںکا دیدار بھی کرتے ہیں اور پرجوش استقبال بھی۔ ظاہر ہے، میرے لیے ان کے پاس ایک ہی سوال تھا۔ یہی سوال کہ آیا پاناما کے چور پکڑے جائیں گے اور انہیں سزا ملے گی یا نہیں؟
ہوٹل کے بعد میرا اگلا پڑائو اٹلانٹس تھا، جس کے وسیع لان میں ڈاکٹر عشرت العباد کے بیٹے کی شادی کی تقریب برپا تھی۔ یہ خیمے کی شکل میں بنا ہوا مارکی ہال ہے، جہاں کراچی کے معروف تاجر اور ممتاز شخصیات موجود تھیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد اور ان کی بیگم صاحبہ دروازے پر استقبال کر رہے تھے۔ ہال کے اندر پاکستانی میڈیا اینکرز، رپورٹرز اور سیاست کار، سول ملٹری تعلقات، پاناما گیٹ کے مستقبل اور آصف زرداری کی واپسی پر طبع آزمائی کرتے رہے۔ مجھے آصف زرداری کے ذاتی سٹاف نے کان میں بتایا کہ وہ آ رہے ہیں اور آپ کھانا ان کے ساتھ کھائیںگے۔ ڈاکٹر قیوم سومرو نے دلچسپ مگر ُپر مغز گفتگو جاری رکھی۔ سابق صدر تقریب میں پہنچے، ڈاکٹر عشر ت العباد سے ملنے کے بعد بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ قابوکرلیا اور مختلف میزوں پر جا کر دیگر مہمانوں سے ملتے رہے۔
ہیڈ ٹیبل پر ان کی دائیں جانب بلاول بھٹو اور میزبان بیٹھے۔ بائیں طرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میں اور دیگر مہمان۔کھانا لگنا شروع ہوا تو آصف صاحب نے پھر میرا ہاتھ پکڑ ا اورکہا چلوگھر چل کر کھانا کھاتے ہیں۔گھر پر ملکی معاملات پر مباحثے نے رات 10بجے سے رات دو بجے تک کھانا بھلا دیا۔ رات اڑھائی بجے کے قریب کھانا شروع ہوا اور صبح چار بجے تک اسی میز پرگفتگو چلتی رہی۔ ایک طرف مزاحمت کار دماغ اور دوسری طرف مفاہمت کے دلائل تھے۔ ظاہر ہے ایسے میں دال چاول یا بھنڈی روٹی پر کس کی توجہ گئی ہوگی، یہ آپ اچھی طرح سے جانتے ہی ہیں۔ اگلے دن ہوٹل واپس آکر آنکھوںکو نیند سے ہمکنار کر نے کی ناکام کوشش جاری رکھی۔
جس علاقے میں میرا قیام ہے وہاں کراچی کے ایک معروف تجارتی گروپ نے تقریباً 30 سال پہلے دبئی کا اوّلین شاپنگ مال تعمیر کیا تھا۔ چند سال پہلے اسے تو سیع ملی۔ اس پراجیکٹ کے ٹھیکدار سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے حاجی امان ا ﷲہیں جبکہ علاقے کی بلدیہ کے چیف انسپکٹر بھی سیالکوٹی ہیں۔ یہ شاپنگ مال 50 ایکٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔حاجی امان اﷲ اور باجوہ صاحب نے تعمیرات کا شاندار اور نادر نمونہ دکھایا۔ 30 سال پہلے والی تعمیر کے فرش چپس سے پڑے ہوئے ہیں جبکہ تین سال پہلے کی تعمیر ماربل سے مکمل ہوئی ہے۔ ہماری حکومتوںکا طرزِ تعمیر یہ ہے کہ پہلے والی تعمیرگرائو اورکچھ نیا بناڈالو۔ ظاہر ہے، اس طرز تعمیرکے ذریعے لاکھوں،کروڑوں ٹن سریا مفت میں ہاتھ آ جاتا ہے، جس میں سے سریے سے جنگلہ بنا کر آ م کے آم اور گھٹلیوں کے دام دونوں وصول ہو جاتے ہیں۔
ہماری تازہ طرز تعمیر میں سے ٹریفک انجینئرنگ، ماحولیات اور پیدل چلنے والے شہریوں کی سہولت کو منفی کر دیا گیا ہے۔ اس کا احساس مجھے ہوٹل کے پانچویں فلور پر واقع دو عدد سوئمنگ پول میں جاکر ہوا۔ ایک لمبے اور دوسرے گول ذخیرہِ آب کے اردگرد چھت پر درجنوں لمبی، اصلی کھجوروں کے درخت جن کو اُگانے اور بچانے کے لیے بے پناہ کاری گری اور ٹیم ورک چاہیے۔ اس فلور کو نخیل کی شکل دی گئی ہے۔ میں نے شہرکے بیچوں بیچ صحرا کی زندگی کا ناقابلِ یقین مظاہرہ دیکھا۔ ایسا مظاہرہ جس نے مجھے یقین دلا دیا کہ دبئی کی ترقی کا راز یہی ہے۔ یہ راز تب کھلا جب مجھے سوئمنگ پول کے اندر انسانوں کے ہمراہ فاختہ کے جوڑ ے سوئمنگ کرتے نظر آئے۔(جاری)