"SBA" (space) message & send to 7575

عام آدمی کی سکیورٹی

سینٹر فار گلوبل اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیزنسبتاـََ نو عمر لیکن بہت بڑا تھنک ٹینک ہے‘ جس کے افتتاحی سیشن میں مجھے خصوصی مقررکی حیثیت سے بلایاگیا تھا۔میں نے تین سوالات حاضرین کے سامنے رکھے۔ اجتماع میں کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، لارنس کالج گھوڑا گلی جیسے تعلیمی ادارے کے سربراہ،سول سوسائٹی،بہت سارے جرنیل،قلم کار،وکلاء اور پارلیمینٹرین شامل تھے ۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور میجرجنرل خالد جعفری اجتماع کے روح ورواں تھے ۔موضوع تھا "قوم کی تعمیر میں علمی اشرافیہ کاکردار "، میرے اٹھا ئے گئے سوال یہ تھے۔
پہلایہ کہ، پاکستان میں نظام حکومت اورامورسلطنت غیر شراکتی ہے۔ اس لیے ملکی آبادی کا بڑاحصہ باغیانہ رجحانات کوطاقت کا سرچشمہ سمجھنا شروع ہوگیا ہے۔دوسراسوال، طبقاتی تفریق اورسرمایہ کی غیر منصفانہ تقسیم دن بدن جس سپیڈ سے آگے بڑھ رہی ہے ۔یوتھ مختلف غیرریاستی اورغیر قانونی ذرائع سے اسے متبادل معاشی نظام سمجھ بیٹھی ہے ۔تیسراسوال، ملک کانظام تعلیم تین شاخوں پر مشتمل ہے ۔سرکاری تعلیمی ادارے،پرائیویٹ سیکٹراوردینی مدارس۔تینوں کے درمیان ربط ہے نہ ہم آہنگی اورنہ کوئی نقطۂ اتصال۔
اس پس منظر کے ساتھ قومی اداروں پر نظرڈالی جائے توبے ربط بیانات ،بے تُکے منصوبے ،بے ڈھنگے اعلانات،بے ہُنرماہرین، سفارش ،رشوت اور بیک ڈور سے سب جگہ چھائے ہوئے نا اہل نظرآتے ہیں۔میرٹ کا قتلِ عام ہے کہ رُکنے کانام ہی نہیں لیتا۔جس طرح مرغی، انڈے، چینی،سریے اورسیمنٹ کاریٹ 
سرکارکے بڑوں کے چھوٹے بچے نکالتے ہیں ۔اسی طرح جمہوریت کے سب سے چھوٹے یونٹ،لوکل باڈیزکے الیکشن میں یوسی کے چیئرمین کاالیکشن ریٹ جو تازہ بلدیات میں سامنے آیا وہ مبلغ تین کروڑروپے پاکستانی سکہ رائج الوقت عندالطلب (Pay on Demand)ہے ۔اس ادارہ جاتی بربادی کے تسلسل میں پارلیمنٹ کے تینوں ایوانوں، ریاست کی پالیسی سازی اورقومی وسائل خرچ کرنے کی ترجیحات والی فیصلہ سازی میں عام آدمی کی شرکت یااُس کی خواہشوں کی شمولیت کے سارے جائز راستے بند ہو چکے ہیں۔
مغرب کے ایک سیانے نے کہا تھاجس قوم کے کھیل کے میدان خالی ہوجائیںاُس کے ہسپتال بھرجاتے ہیں۔بسنت قاتل ہے یاوہ اشرافیہ جن کی حویلیوں میں اُن کے سپورٹر اور فنانسر قاتل ڈوربناکر گھر گھر پہنچاتے ہیں۔پنجاب کے خالصتاًزرعی تہوار بسنت پرسیاسی فتویٰ بازی کی گولہ باری ہوئی ۔ جس دن چیئرنگ کراس کا سانحہ ہوااُس دن پنجاب پولیس نے پورے صوبے میں بسنت روکنے کے لیے جان کی بازی لگائی ہوئی تھی۔بسنت نا پہلے رُکی تھی نااب رُکے گی ناآئندہ ‘کیونکہ اس کاتعلق بیساکھی کی پنجابی روایت کے ساتھ ہے۔جوقاتل ڈور بنواکرپیسے کماتے ہیںوہ ہی با اثر پتنگ اُڑانے والے بچوں پرچھاپے بھی پڑ واتے ہیں ،ماشاء اللہ قانون نافذکرنے والے ادارے اقتدارپرست توپہلے ہی تھے اب خیر سے حُسن پرست بھی ہوگئے ہیں۔جسے یقین نہ آئے وہ ان کے بوٹوں تلے دل کی شکل والے سفید غبارے پھٹنے کی تصویر دیکھ لیںیاسرخ رنگ کے ٹی روز اورگلابی رنگ کے دیسی گلاب کے پھولوں کی اُلٹی ہوئی ریڑ ھیاں گلیوں میں بھاگتے پھول بیچنے والے مزدوربچے 
اوراُن کی گردن پر ہاتھ ڈالے ہوئے شیرجوان۔یہ سب دیکھ کر مجھے تویقین ہو چلاہے کہ وزیراعظم نوازشریف کا 2025ء کاوژن انشاء اللہ پاکستان کوزمین سے بھی اُوپر لے جائے گاغالباًمریخ تک جہاں آگ ہی آگ ہے ۔ناآکسیجن ناہوا ،نابیسا کھی کے تہوار کاخطرہ اورناسُرخ گلاب کی کوئی کیاری حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرنے کے لیے موجودہوگی۔ پچھلے دور کے ایک کاروباری وزیر نے اسلام آباد کو سیف سیٹی بنانے کے لئے کمال کر دیا۔ چین کی دو نمبر کمپنی سے دو نمبر سکینر کے دو یونٹ دو ارب روپے سے خرید ے ۔ ساتھ کہا اسلام آباد اب سیف سٹی ہے۔ ایک سکینر گولڑہ چوک کے پاس اور دوسرا راوت ٹی چوک پر نئے پلیٹ فارم بنا کر کھڑے کیے گئے۔ ان دنوں سکینر کی باقیات میں کوے گھونسلے بنا کر رہتے ہیں ۔ 
لاہور کے ساتھ اس سے بھی بڑا ہاتھ ہوا۔ 8 سال میں کبھی ایلیٹ فورس، کبھی کمانڈو دستہ، کبھی اینٹی دہشت گردی، کبھی کویئک رسپانس فورس، کبھی ڈالفن فورس، کبھی ریپڈ رسپانس ایکشن، دو نمبر نمائشی سازو سا مان سمیت ‘ چیئرنگ کراس سانحہ کے دن پتہ نہیں کہاں غائب تھا۔ دوا ساز اور دوا فروش مظاہرین کی تعداد سینکڑوں نہیں درجنوں میں تھی۔ ان سے مذاکرات کے لئے نہ لاہور کا بہادر میئر باہر نکلا نہ ڈپٹی میئرز کی فوج اور نہ ہی کابینہ کے کلاکار ۔ لوگ حیرا ن ہیں کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ڈی آئی جی ٹریفک دنیا کے کس ملک میں مٹھی بھرمظا ہرین سے مذاکرات کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ دونوں بد قسمت افسروں کے ساتھ انکے اردلی اور معاون تھے۔ لاہور کی کل سکیورٹی برلن جیسی دو دیواروں کے اندر سمٹ گئی ہے۔ پہلی دیوار جی او آر والی اور دوسری جاتی عمرا کی ان دو حفاظتی دیواروں کے اندر رہنے والی سپیشل مخلو ق کی حفاظت پر بھاری اخراجات ہو رہے ہیں۔ ایک شہر کی دو حویلیوںکی سکیورٹی کے مقابلے میں اگر عام آدمی کی سکیورٹی پر اُٹھنے والے اخراجات سامنے 
رکھیں تو وہ غالباً چند روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ہمارے VIPکلچر کی بنیاد بلیو بک ایسے اخراجات دیکھ کر روزانہ شرماتی ہے۔ اس بلیو بُک میں صرفVIPاور VVIPکے پروٹوکول عرف خوشامدی کلچر کے طریقے درج ہیں۔ اس بلیو بک میں اور نہ ہی پاکستان کے کسی دوسرے ادارے کی کتاب میں عام آدمی کو سکیورٹی فراہم کرنے کا SOPنظر آتا ہے۔ سکیورٹی اور تحفظ کے نام پر ساری میٹنگز اور اجلاس زبانی جمع خرچ پر ہوتے 
ہیں۔ ان اجلاسوں میں عام آدمی کی سکیورٹی کا نہ ذکر ہو تا ہے اور نہ کوئی منصوبہ تیار ، سارا زور بڑے خادم ، درمیانے خادم، چھوٹے خادم اور ان کے خادموں اور خادمائوں کی خوشنودی پر لگتا ہے۔ ہم وہ واحد قوم ہیں جس میں ریڈ ایریا، نو گو ایریا، ریڈ زون اور نو انٹری زون پائے جاتے ہیں۔ انٹری سے یاد آیا جس دن چیئرنگ کراس سانحہ ہوا اسی روز صبح کے وقت سپیکر پنجاب اسمبلی کے نوٹس پر مجھے اسمبلی جانا پڑا۔ میرے ساتھ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور دو درجن ایم پی اے بھی تھے۔ انٹری گیٹ پر کہا گیا کہ صرف آپ اندر جا سکتے ہیں۔ وہاں سکیورٹی دیکھ کر ڈیڑھ بجے دن میں چیئرنگ کراس سے گزرا اور مسجد شہداء کے ساتھ واقع لاہور اپنے لاء آفس کی طرف گیا۔ شام کو ہم وطنوں کے زخموں سے تار تار لاشیں دیکھ کر مجھے خیال آتا رہا کاش کوئی لاہوریوں کے لیے اتنی سکیورٹی کی اجازت دے دیتا جتنی سکیورٹی پنجاب اسمبلی کی خالی بلڈنگ کو محفوظ بنانے پر ڈیوٹی دیتی ہے۔ اگلے روز ایک خاتون اینکر نے پہلے حکمرانوں کے وعدوں کی ویڈیو چلائی اور پھر سوال کیاکہ آپ کا تبصرہ ۔ میں نے کہا یہ وعدے نہیں کرتے عوام کو جگتیں مارتے ہیں۔ آپ اسے بڑھکیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ مرحوم مظہر شاہ والی بڑھک ''اڈی مار کے دھرتی ہلا دیاں گا‘‘ (ایڑی مار کر کرہ ارض ہلا کر رکھ دوں گا)۔ ذرا تازہ بڑھکیں سن لیں شہیدوں کا بدلہ لیں گے‘افغانی ملزم گرفتار کر لئے۔ کیا قوم پوچھنے کی جسارت کر سکتی ہے کہ ایک طرف افغانی مجرموں کی گرفتاری کا دعویٰ ہے دوسری طرف افغان سفارت کار کی طلبی اور دہشت گردی کی چارج شیٹ ۔ لیکن یہ کیا کھلا تضاد ہے کہ اسی ہفتے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں 36سال سے پاکستانیوں کے سروں پر سوارافغانیوں کی رہائش میں 31دسمبر2017ء تک توسیع دے دی گئی۔ جرم کی نرسریوں کو سینے سے لگا کر کون کس کا بدلہ لے گا۔ ؎
عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم، حسینؓ کو بھی سلام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں