پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔
یہ فہرست محض کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ اتنی ہی خوف ناک ہے جتناکہ محدود ایٹمی دھماکہ۔(area specific atomic device)
جہاں ایٹم پھٹے وہاں پانی سوکھ جاتا ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ چاغی جھیل کی دو عدد تصویریں دیکھ لے۔ایک ایٹمی دھماکے سے پہلے کی اور دوسری بعد کی۔ یہ بلوچستان کی سب سے بڑی جھیل آج کٹی پھٹی زمین پر خشک اور بنجر نالوں کا نوحہ ہے۔ جہاں ایٹم توڑا جائے وہاں کے موسم ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چرنوبل دھماکے کے روسی متاثرین کی ویڈیو دیکھ لیں۔ ایٹم کا استعمال فلورا اور فانا یعنی پھول، پودے، پھل، چرند و پرند کی نسلوں کا صفایا کر دیتا ہے۔ یوں سمجھئے کچھ معدوم یعنی وجود سے عدم میں چلے جاتے ہیں۔ اور باقی نامعلوم افراد کے مقدر والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جانے والے کم نصیب۔ ایٹم کے دھماکے کی تابکاری جان لیوا بیماریوں کا تباہ کن طوفان لاتی ہے۔بھوک ، بے روز گاری،لاغر پن کی بہتات۔ بہاریں ،پھول،پتے،سبزہ دفنا دینے والا ایٹم جو تباہ کاری کرتا ہے،ویسی ہی قیامت کلائمیٹ چینج یا موسمی تبدیلی لے کر آتی ہے۔
ہمارے ہاں کُرئہ ارض پر موسمی تغیرات ایک '' مخولیہ‘‘ موضوع رہا ہے۔ہزارے وال وزیر کو ضیاء دور میںاس محکمے کی پہلی وفاقی وزارت ملی ۔وزیر مو صوف ماحولیات کے موضوع پر کس قدر سنجیدہ تھے،اس بات کا اندازہ ان کے اپنے ڈائیلاگ سے ہو جاتا ہے جس میںانھوں نے ہمیشہ اپنا محکمہ مخولیات ہی بتایا۔اس طرح دانش مند وزیر نے خالص مشرقی دُلہن کی طرح اپنے محکمے کا نام تک نہ لیا۔ اس سنجیدگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ایسا ہی ایک سنجیدہ فن کار پورے محلے میں تاریخ دان کے طور پر مشہور تھا۔بلا کا بد تمیز،ہتھ چھُٹ اور ندیدہ آدمی۔لوگ اس کی تاریخ دانی پر سوال کرنا چاہتے مگر ہمیشہ بے عزتی کے خوف سے چپ کر جاتے ۔آخر کار تاریخ دان سے اس کے پوتے نے یہ سوال پوچھ ہی لیا۔''دادا ابو آپ کو تاریخ سے اتنی دلچسپی کیسے ہے؟۔‘‘
دادا ابو پہلے سوال سن کر سٹ پٹا گیا پھر اپنے آپ کو سنبھالااور کہنے لگا، مجھے تاریخ سے ہمیشہ سے گہرالگائو ہے۔اسی لیے صبح سویرے جو شخص مجھے سب سے پہلے مل جائے، میں اس سے ایک ہی سوال پوچھتا ہوں ،اور وہ یہ کہ آج کیا تاریخ ہے؟
ٹمبر مافیاکے ہاتھوںجنگلات کی بے رحمانہ کٹائی ،محکمہ جنگلات کی مجرمانہ غفلت ،سیاسی دبائواور حکومتی اداروں کی مسلسل بے حسی نے ماحولیاتی تبدیلی جیسے انتہائی سنجیدہ موضوع کو قومی مذاق میں تبدیل کر رکھاہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کا وہ پہلا سر براہ جس نے کروڑوں پودے لگائے، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔عمران خان جب بھی سو نامی ٹری کی بات کرے یا بلین ٹری سکیم کا ذکر آئے تو بڑے ، بڑے سیاسی رہنما ، تجزیہ کاراور رپورٹر اس کا مذاق بناتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو شہر کے اندر نہر سے نفرت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے کنارے لگے ہوئے سیکڑوں سال پرانے درختوں کوسال میں تین ،تین دفعہ کاٹنے کو تعمیر و ترقی کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔پھر درختوں کی جگہ جنگلہ،سریا،اور کنکریٹ کے جنگل اُگانا ...تعلیم،صحت،روٹی،کپڑا اور مکان کا متبادل بنا کر پیش کرنے کا ہُنر جانتے ہیں۔
کاش کوئی تحقیقاتی رپوٹر یا ما حول دوست اینکر تھیلہ اور کیمرہ پکڑے ،ٹھوکر نیاز بیگ سے مغل پورہ تک یا پھر چھانگا مانگا درختوںکے ذخیرے میںایک سِرے سے دوسرے سِرے تک دیکھ لے ۔یا اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج سے بذریعہ بھارہ کہو گھوڑا گلی تک چلا جائے اور پھر قوم کو بتا ئے کہ پچھلے 30 سالوں میں ما حول دشمن حکومتوں نے کتنے کروڑوں،اربوں درخت کاٹ کر اپنے سیاسی مفادات کی نذر کردیے۔اسلام آباد سے لاہور تک M2 موٹر وے پر سڑک کی دو نوں جا نب کروڑوں درختوں کی کٹائی اس کی تازہ مثال ہے۔کاٹے ہوئے درخت کہاں گئے۔ انھیں کیوں کاٹا گیا۔20 سال پرانے درخت کاٹ کر ان کی جگہ چند فٹ کے چند ہزار پودے کس نے لگائے؟۔شاید میں اور آپ ان سوالوںکے جواب کبھی نہ جان سکیں۔لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اس منصوبے کو میگا پرا جیکٹس کے شوقین لیڈروں نے موٹروے M2 کیــ ''بحالی‘‘ کا نام دیا۔اس پر قومی خزانے سے کتنے ارب روپیہ لُٹایاگیا،سب جانتے ہیں ۔
کسی زمانے میں مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلرسیداں کا دریا کنارے علاقہ اونچے درختوں کا گھنا جنگل ہوتا تھا۔اب انسانوںکی طرح پہاڑ بھی گنجے ہو گئے۔انسان اگر روکڑا لگائیں،رزق حلال والی تھیلی کھولیں۔چند لاکھ روپیہ خرچ کریں تو ان کے گنجے سرپر بال اگائے جا سکتے ہیں۔نوٹوں کا یہ کھیل چند ہفتوں میں گنجے سر کی خزاں کو بالوں کی بہار واپس لوٹا دیتا ہے۔لیکن بے چارے پہاڑ ،وادیاں،چھانگا مانگا ایک بار گنجے ہو جائیں توپھر ان کا گنج کبھی دور نہیں ہو سکتا۔بلکہ اکثر گنجے پہاڑوں پر بلڈوزر چلتے نظر آتے ہیں۔پرانے زمانے کے پوٹھو ہار میں ایک مقولہ بڑا مشہور تھا۔ اور وہ یہ کہ درخت کی جس شاخ پر اونٹ منہ مار جائے وہ کبھی ہری نہیں ہوسکتی۔ اب پہاڑوں پر دندناتے ہوئے بلڈوزر چیخ چیخ کر کہتے ہیں جس درخت کو میں نے جڑوں سے اُکھاڑاوہ دوبارہ کبھی نہیں لگ سکتا۔اگر ہم مختلف حکومتوں ، وزارتوں، محکمہ جنگلات،محکمہ وائلڈ لائف ،محکمہ زراعت،محکمہ ما حولیات ،گرین پاکستان کے لیے بنائی گئی این جی اوز ما حولیات کے نام پرملنے والی بیرونی امداد ،اس مقصد کے لیے دی گئی گرانٹس اورمختلف شہر ی ا داروں کی سالانہ درخت لگائو مہم کو جمع کریں،پھر اس کے ساتھ ہی ان اداروں کے اخباری اور اشتہاری اعلانات کواکٹھا کریں تو یوں لگے گاجیسے 20 کروڑ لوگوں کے لیے ہر سال اربوں کی تعداد میں نئے درخت لگائے جاتے ہیں۔ان کاغذی کارروائیوں سے ظاہر ہو گا کہ پاکستان عملی طور پر پلاٹستان نہیںچمنستان میں یا پھرکسی گلستان و بوستان میں تبدیل ہو گیا ہے۔
میں نے ہزاروں مرتبہ مارگلہ،نیلور،ہزارہ اور کہوٹہ کی پہاڑیوں پر ہائکنگ کی۔اس ہائکنگ کا سلسلہ الحمدللہ ابھی جاری ہے۔ شہروں میں ہم سب گھومتے پھرتے ہیں۔سالانہ شجر کاری مہم کے نتائج صفر جمع صفر۔یا پھرفوٹو جمع گروپ فوٹوجمع اشتہاری فوٹوکے علاوہ کچھ نہیں۔درختوں کے حوالے سے اس بے رحمانہ پالیسی کے نتائج ہمارے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ملک کے آبی ذخیروں ،بھارت سے گزرنے والے دریائوںکے پانی اور خاص طور پرپاکستان کے شمالی علاقوں والے برف کے گلیشئرپگھلنے کی رفتار چھوٹا خوف ناک مسئلہ ہے۔ڈرا دینے والی موسمیاتی تبدیلیاںبلا شبہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں ہرسال بہار کے افتتاحی دنوں میںمختلف قسم کی تتلیاںہر روز ملین مارچ کرتی نظر آتی تھیں۔اس سال تتلیاں مارگلہ ایونیو سے روٹھ گئی ہیں۔اپریل کے مہینے میں برف باری،لمبی سردی سے موسمی چھلانگ نے گرمی تک کا سفر مکمل کیا۔اسلام آباد کی روٹھی ہوئی بہاریں پھول بننے کے لیے مچلتی کلیوں سے آنکھیں چُرا کربے گانہ ہو گئیں۔
جمہوریت سارا زور لگا کر ٹماٹروں کی لائنیں سیدھی کروانے اور پتنگوں کا مزاج درست کرنے میں مصروف ہے۔ایسے دور میں جہاں عربوں کے خط ،شہزادوں کے ہاتھوں مارے ہوئے تَلوروں کے ڈھیر، تاتارستان کے نقشِ قدم پر چل کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی مہم چل رہی ہو‘ وہاں پانی یا ماحولیات بھی کوئی مسئلہ ہے؟
ہر ایک شخص اُسی کی دہائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا منظر دکھائی دیتا ہے
محل کے سامنے اِک شور ہے قیامت کا
امیرِ شہر کو اُونچا سنائی دیتا ہے