''عقل پر جب طبعی خواہش غالب آ جاتی ہے تو یہ نہایت خطرناک مستقبل کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے‘‘۔
ایک دفعہ ندی کے کنارے چوہے اور مینڈک کی ملاقات ہو گئی ، ایک دوسرے کے تعارف کے بعد ندی کے قریب خوشگوار ماحول میں کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ چند دنوں کے بعد یہ دوستی کی گرہ محبت میں تبدیل ہو گئی۔یہ محبت عشق و آشنائی تک جا پہنچی۔ پھر یہ چاہت اور بے تابی اس حد تک بڑھ گئی کہ دونوں وقتِ معین پر ہر صبح کو ملاقات کے پابند ہو گئے اور دیر تک دونوں تبادلۂ خیالات کرتے رہتے۔کچھ جگ بیتی اور کچھ آپ بیتی کے متعلق آپس میں باتیں کر کے ایک دوسرے کا دل خوش کرتے، آپس میں راز گوتھے ، بے زبان بھی تھے اور بازبان بھی۔ ؎
جوش نطق از دل نشان دوستی است
بستگی نطق از بے الفتی است
گویائی اور گفتگوکا جوش دل سے اٹھنا علامتِ محبت ہے اور گویائی میں رکاوٹ علامتِ بے الفتی ہے ۔ جس نے دل بر کو دیکھ لیا تو وہ ترش رو کب رہ سکتا ہے اور جب بلبل پھول کو دیکھ لیتا ہے تو خاموش کیسے رہ سکتا ہے ۔
یار کی پیشانی لوح ِ محفوظ کی مانند ہے جو عاشق پر کونین کے اسرار آشکارا کر دیتی ہے۔اب عاشقِ زار پر جدائی اور فرقت کے لمحے بھاری ہو گئے ۔ ایک دن چوہے نے کہا آپ تو پانی کے اندر دوڑ لگا دیتے ہیں اور ہم خشکی پر آپ کی جدائی کا غم کھاتے رہتے ہیں ۔ ندی کے کنارے جا کر تجھے آواز دیتا ہوں تو پانی کے اندر ہماری آواز سنتا ہی نہیں۔ میں اب اتنے وقت کی گفتگو سے سیر نہیں ہوتا، یار کی پیشانی لوح ِ محفوظ کی مانند ہے جو عاشق پر کونین کے اسرار آشکارا کر دیتی ہے۔اب عاشقِ زار پر جدائی اور فرقت کے لمحے بھاری ہو گئے ۔ ایک دن چوہے نے کہا آپ تو پانی کے اندر دوڑ لگا دیتے ہیں اور ہم خشکی پر آپ کی جدائی کا غم کھاتے رہتے ہیں ، ندی کے کنارے جا کر تجھے آواز دیتا ہوں تو پانی کے اندر ہماری آواز سنتا ہی نہیں۔ میں اب اتنے وقت کی گفتگو سے سیر نہیں ہوتا، تیرے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بھی نہیں بجھا پاتا۔سنا ہے عبادت تو 5 وقت کی فرض ہے لیکن عاشق تو ہر وقت محبوب کی یاد میں مسرور اور مست رہتا ہے۔ تیرا چہرہ دیکھے بغیر میرا کوئی لمحہ بھی اب چین سے نہیں گزرتا۔ میرے دن کی روشنی اور رات کا چین تیرے ہی دم سے ہے ۔
نیست زر غباََ نشان عاشقاں
سخت مستسقی است جان صادقاں
باری باری ناغہ دے کر ملاقات عاشقوں کے لیے نہیں ہے۔ صادقین کی جانیںتو سخت پیاسی ہوتیں ہیں۔
تیرا یہ احسان ہو گا تو مجھے مسرور کر دے اور وقت بے وقت ملاقات کا لطف چکھا دیا کر ۔ اے بے پرواہ امیر مجھے اپنے حُسن کی زکواۃ دے ۔ اس غریب پر نظرِ عنایت فرما اور شرفِ دیدار سے فیض یاب کر ۔ کاش! میں پانی کے اندر آ کر تجھ سے ملاقات کر سکتا مگر میں اس سے عاجز اور مجبور ہوں اے دوست! میں خاکی ہوں تو آبی۔۔۔مینڈک اپنے عاشقِ زار کی باتیں سن کر بے حد متاثر ہوا اور فرطِ محبت سے اس کا دل بھر آیا۔ دونوں دلوں کو اکٹھا رکھنے کی اب کیا تدبیر کریں؟ آخر چوہے نے یہ رائے پیش کی کہ ایک مضبوط دھاگہ لے کر جس کا ایک سِرا تمہارے پائوں میں بندھا ہوا ہو اور دوسرا میرے پائوں میں بندھا رہے۔ جب تیری یاد مجھے تڑپانے لگے گی تو میں ڈوری کو ہلا دیا کروں گا۔ تم میرا اشارہ سمجھ کر پانی سے باہر آ جایا کرنا ۔ مینڈک کو دل میں یہ ترکیب پسند نہ آئی ۔ اس کے باوجود اس نے چوہے کی درخواست قبول کر لی۔''عقل پر جب طبعی خواہش غالب آ جاتی ہے تو یہ نہایت خطرناک مستقبل کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے‘‘۔
پھر یہ دونوں ڈوری ہلا کر بار بار ملاقات کی لذت کے عادی ہو گئے اور اس طرح کئی دن ملاقاتوں میں گزر گئے۔ آخر کار انجام وہی ہوا۔ ''جو مجازی عشق و محبت والوں کا ہوتا ہے ‘‘۔
عاشق زار محبت کی پینگ بڑھائے ہوئے تھے اور اپنے محبوب کو پیغامِ محبت دینے والے تھے کہ پکڑے گئے ۔ چیل نے اوپر سے چھاپہ مارا اور چوہے کو اپنے پنجوں میں دبا کر اُڑ گئی۔ جب چوہا فضا میں بلند ہوا تو پیغام رسانی والی تار فوراََ موت کا پیغام لے کر مینڈک تک جا پہنچی ۔ چیل فضا میں بلند ہوئی تو مینڈک صاحب بھی پائوں پر باندھے ہوئے دھاگے کی وجہ سے فضا میں معلق ہو گئے۔ لوگوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو بڑے حیران ہوئے کہ چیل نے۔۔۔ایک تیر سے 2 شکار کیسے کر لیے ۔ ادھر مینڈک نے زبانِ حال سے لوگوں کو بتایا کہ اے لوگو ! یہ تمہارے لئے عبرت کا مقام ہے ۔ یہ سزا اس حماقت کی ہے جو نا اہل سے محبت کی پینگیں بڑھائے۔
پھر چیل نے ویرانے میں جا کر دونوں کو اکٹھے ہی سزائے موت دے کر دشمنانِ محبت کی طرح خوب جشن منایا۔(ماخوذ)
اوپر درج تحریر حکایاتِ رومی میں سے حکایت نمبر 67 کا اُردو ترجمہ ہے جو میرا نہیں۔ مولانا جلال الدین رومی (پیدائش۔1207 ء۔ انتقال۔ 1273عیسوی) جیسے دانائے راز کے کلام پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی گنجائش۔ دوستی میں نادانی یا پھر نادان سے دوستی دونوں صورتوں میں ایک سے زیادہ فریقوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ان دنوں ہمارے حاکمِ اعلیٰ اور بھاغانی (بھارتی + افغانی) لوہا کنگ سجن جندال کی دوستی کے خوب چرچے ہیں۔ سارے سرکاری ٹویٹ ہمیشہ حیات بخش ہوتے ہیں اور روح افزاء بھی ۔ جبکہ آئی ایس پی آر کے ٹویٹ زہرِ قاتل ۔ ایک ایسے ہی سرکاری ٹویٹ میں قوم کو یہ جاں فزاء مژُدہ سنایا گیا کہ سجن جندال اسلامی جمہوریہ کے مردِ آہن کا سجن ، یار ہے۔ اس لیے اس کا جیٹ ،جب دل چاہے، اُتر سکتا ہے ۔ وہ ویزے کے بغیر اپنے یاروں کی راج دھانی سمیت ہر جگہ آ جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جراتٔ مند پولیس ، محبِ وطن حکومتی ایجنسی اسے سرکاری ہیلی کاپٹر پر مری لے جانے کی اہلیت سے مالا مال ہے۔ سڑک پر 7 عدد بم پروف / بُلٹ پروف گاڑیایوں کا کانوائے علامتی طور پر دوڑا کر اسے سلامی دیتا ہے۔ یہ ملک سجن کے لیے پشتو محاورہ کے مطابق''اخپل بادشاہی ہے‘‘۔ جس کا سادہ مطلب ہے ''پیا‘‘ ہوئے کو تو وال، پھر ڈر کاہے کا‘‘۔
یہ محبت کی گئی یا ہو گئی ہے۔ سجنوں کے درمیان اسے راز رہنا چایئے۔محبت میں کل بھوشن یادیو جیسی چھوٹی موٹی غلطی معاف کی جا سکتی ہے۔ سجن جندال کے جاتے ہی مودی کے یار اشرف غنی بھی حرکت میں آئے۔ ہمارے سپیکر صاحب المعروف وزیرِ خارجہ نے اشرف غنی کے 2 عدد سجن اور اپنی حکومت کے اتحادی دائیں بائیں بٹھائے ۔ پھر اسے پاکستان آنے کی دعوت دی ۔ جسے اشرف غنی نے اپنے سجن کے منہ پر دے مارا۔ ہم سارے جو پاکستان کی خودداری اور خودمختاری پر ناز کرتے ہیں وہ ایاز صادق کی عین آئینی اور قانونی دعوت کا چوہا چھوڑنے کے نتیجہ میں مینڈک کی طرح بے توقیری کے دھاگے سے لٹک گئے ۔
سجن کے جاتے ہی ہمارا مشرقی بارڈر اور مغربی بارڈر توپوں کے گولوں سے گُونج اُٹھے۔ مولائے روم نے سچ کہا!
''عقل پر جب طبعی خواہش غالب آ جاتی ہے تو یہ نہایت خطرناک مستقبل کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے‘‘۔