"SSC" (space) message & send to 7575

موہنجو داڑو: فاصلوں کی کمند سے آزاد

تصور کا طلسم بھی کیسا طلسم ہے؟ پلک جھپکنے میں دوریاں سمٹتی اورفاصلے تحلیل ہوجاتے ہیں اور پھرتصور کی آنکھ ہمیں من چاہے منظر دکھاتی ہے۔ آج موہنجوداڑو کے آڑھے ترچھے راستوں پر چلتے ہوئے میری آنکھوں میں کتنے ہی منظرروشن ہوگئے۔ بازار میں کاروبار‘ گاہکوں کا شور ‘ شطرنج کی بازی‘ موسیقی کی محفلیںاور کھیتوں میں لہلاتی فصلیں۔ وہ دسمبر کی ایک صبح تھی اورمیں موہنجوداڑو کے گلی کوچوں میں گھوم رہاتھا۔ سردیوں کے دن مختصرہوتے ہیں ‘پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دن چڑھا اورکب شام ہوگئی‘ لیکن سردیوں کی دھوپ بہت قیمتی ہوتی ہے‘ شایدکوئی بھی چیز جب نایاب ہوتی ہے قیمتی بن جاتی ہے۔ یہ بھی دسمبر کا ایک دن تھا اورمیں250قبل مسیح کی تاریخ کی انگلی پکڑکر چل رہاتھا اورحیرت میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کیساشہرہوگا اورکیسے لوگ‘ کبھی زندگی ان گلیوں میں ہنستی مسکراتی ہوگی اوراب ہرطرف ایک خاموشی ہے اور ہُوکاعالم۔ ہاں کبھی کبھی یہاں وہاں چند سیاح نظر آجاتے ہیں ‘جن میں کچھ غیرملکی بھی ہوتے ہیں‘ جنہیں قدیم تاریخ کا افسوں اپنی جانب کھینچتا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے بھنڈارکر کویہاں کی کشش اپنی طرف کھینچ لائی تھی۔ بھنڈار کر بنیادی طورپرا یک تاریخ دان تھا اور بدھ سٹوپازپر تحقیق کررہاتھا۔ تحقیق کاسفر اسے موہنجوداڑولے آیا‘ جہاں بدھ عہد کاایک سٹوپاتھا‘ لیکن بھنڈار کرکی تیز نگاہوں نے محسوس کیا کہ یہاں سٹوپا کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اس نے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ کوخط لکھاکہ اس علاقے میں بہت کچھ ملنے کاامکان ہے۔ یہ1911ء کی بات ہے۔ اس وقت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا سربراہ جان مارشل تھا‘ جوخودبھی ایک مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ تھا۔ خط ملتے ہی وہ موہنجوداڑو پہنچ گیا اوردوسال تک مسلسل وہیں رہا۔اپنی ٹیم کو وہیں بلالیا‘ یوں ہڑپہ کی دریافت کے دو سال بعد1922ء میںآرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے آر ڈی بینر جی نے موہنجوداڑوپرابتدائی کھدائی (Excavation)کاآغاز کیا۔اس کے بعد کاشی ناتھ ڈکشٹ نے1924-25ء اورجان مارشل نے1925-26ء میں کھدائی کے عمل کی نگرانی کی۔1930ء کے عشرے میںجان مارشل‘ ڈی کے ڈکشی ٹار اور ارنیسٹ مے کے(Mackay)نے بڑے پیمانے پرکھدائی کے عمل کی قیادت کی۔1945ء میں مورٹیمرویلر(Mortimer Wheeler)اوراحمدحسن دانی نے اپنی نگرانی میں مزید کھدائی کروائی۔
بدھ سٹوپا کی سیڑھیوں پرقدم بہ قدم اوپرجاتے ہوئے میرے ساتھ موہنجوداڑو کاعاشق آصف موریو تھا۔ موہنجوداڑو کی ایک ایک تفصیل سے واقف۔ کئی کتابوں کامصنف‘موہنجوداڑو‘ جس کا اوڑھنا بچھوناہے۔کئی بار تومجھے ایسالگا جیسے پچھلے جنم میں کئی ہزار سال پہلے وہ انہیں گلیوں میں پلابڑھاہو۔سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے میری نگاہوں کے سامنے وہ سارے نام آتے گئے‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کابڑا حصہ اس شہربرباد کے راز دریافت کرنے کے لیے وقف کردیاتھا۔ اس کھدائی کے دوران جگہ جگہ انسانی جسموں کے ڈھانچے بھی ملے تھے۔ یوں لگتاتھا کہ کسی قدرتی آفت نے پورے کے پورے شہرکو شہر خموشاںمیں بدل دیاتھا۔
یہ دسمبر کی صبح تھی ہلکی ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی میری طرح خرابوں میں خزانے ڈھونڈے والے اکادکا لوگ گائیڈز کی قیادت میں اس شہر کی کہانی سن رہے تھے۔یہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 250سال پہلے کی بات ہے جب دریائے سندھ کے کنارے اس اونچے ٹیلے پر ایک خوبصورت شہربسانے کا پروگرام بنایاگیا اوراس کے لیے پانچ سوپچاس ایکڑ کارقبہ مختص کیاگیا۔یہ اس زمانے میں ایک وسیع جگہ تھی۔یہاں پر20سے30ہزار لوگ بسنے لگے۔ یہ بنیادی سہولتوں سے آراستہ ایک جدید شہرتھا۔ جہاں ہرگھرمیں کمروں کے علاوہ ایک کچن اورایک واش روم تھا۔مکانوں کی تعمیرمیںپختہ اینٹیں استعمال کی گئی تھیں‘ جوایک سائز کی تھیں۔ نالیوں میں استعمال ہونے والی اینٹوںپرجپسم اورچارکول کی تہہ نے انہیں واٹرپروف بنادیا۔ چوڑی سڑکیں اورکھلی گلیاں‘ سیورج کاانتہائی عمدہ انتظام۔ گلیوں میںچلتے ہوئے میں نے دیکھا‘نالیوں کوپتھروں سے کور (Cover) کیا گیا تھا۔
موہنجوداڑو شہرکا ایک مرکزی دروازہ تھا۔ شہریوںکوپانی کی فراہمی کے لیے سات سوسے زیادہ کنویں تھے۔ یہاں کے لوگوں کابنیادی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ تجارت بارٹرسسٹم کے تحت ہوتی تھی‘ کھدائی کے دوران ایک بیل گاڑی بھی برآمدہوئی‘ جس سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے جانوروں میں بیل بھی شامل تھے اور اس زمانے میں پہیہ ایجادہوچکاتھا ۔یہاں سے دریافت ہونے والی اشیا میں اس وقت کے لوگوں کی معاشرت‘ معیشت‘ زراعت اور مذہبی رجحا نات کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ کھدائی کے دوران کسی قسم کے ہتھیار نہیں ملے‘جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگ امن پسندتھے اورمعاملات کوبات چیت سے طے کرتے تھے۔آصف موریو کے پاس موہنجوداڑو کے ہر گلی کوچے کی معلومات تھیں اوروہ اونچے نیچے راستوں پریوں چل رہاتھا جیسے راستے اپنی طرف بلارہے ہوں‘ لیکن میں اب چلتے چلتے تھک گیاتھا‘ لیکن ابھی مجھے شہر کا وہ حصہ دیکھنا تھا‘ جس پریہاں کے لوگوں کونازتھا ۔یہ موہنجوداڑو کا وسیع وعریض سوئمنگ پول تھا‘ جسےGreat Bathکہتے تھے۔ یہ 900مربع فٹ کا تالاب ہے‘ جسے قریبی کنوئوں کے پانی سے بھراجاتا تھا۔ شہرۂ آفاق رومن باتھ موہنجوداڑوکے Great Bathکے بہت عرصہ بعد بنائے گئے تھے۔ اب سردیوں کی دھوپ میںحرارت بڑھ گئی تھی‘ میںGreat Bathکی سیڑ ھیوں پربیٹھ گیا۔ آصف موریو نے کہا: آپ یہاں بیٹھ کر ریسٹ کریں‘ میں کچھ ٹورسٹ لے کر آگے جارہاہوں۔ کچھ ہی دیر میں واپس آجائوںگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کچھ غیرملکی سیاحوں کے ساتھ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔میں اس وسیع تالاب‘ جسے گریٹ باتھ کہتے ہیں‘ کی سیڑ ھیوں پربیٹھ گیا۔ بیگ سے ہرمن ہیسے کاناول سدارتھا(Sidartha) نکالا اور پڑھنے لگا۔ وہ تھکن تھی یادھوپ کی تھپکی‘ میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ اسی دوران مجھے اپنے قریب ایک آہٹ سنائی دی۔ میںنے سراٹھاکر اسے دیکھا‘وہ کوئی غیرملکی سیاح تھی۔اس کے ہاتھ میں کیمرہ اورکمرپررک سیک(Rucksack)تھا۔ شاید وہ بھی کھنڈروں کے اونچے نیچے راستوں پرچلتے چلتے تھک گئی تھی۔ مجھے سیڑ ھیوں پر بیٹھے دیکھ کر وہ بھی وہیں بیٹھ گئی۔ میںنے دیکھا‘ اس کے چہرے پرتھکن تھی‘ لیکن اس کی اجلی آنکھوں کو سورج کی کرنوں نے اور روشن کردیاتھا۔ ''کتنا خوبصورت منظر ہے‘ میرے وطن میں تواس مہینے میں سب کچھ برف سے ڈھک جاتا ہے‘‘ وہ خود کلامی کے انداز میں اپنے آپ سے بول رہی تھی۔ اچانک جیسے اسے میری موجودگی کااحساس ہوااس سے پہلے کہ میں پوچھتا کہ وہ کون ہے اوراس کاوطن کون سا ہے۔ اس نے میرے ہاتھوں میںپکڑی کتاب دیکھ کر کہا: اوہ! یہ تومیرے ہم وطن لکھاری کاناول ہے۔ میں سمجھ گیا‘ اس کاتعلق جرمنی سے ہے۔ میرے پوچھنے پراس نے بتایا کہ ایک سال پہلے وہ دنیاکی سیاحت پرنکلی تھی اورموہنجوداڑواس کی آخری منزل ہے۔ اس کے بعد وہ واپس اپنے وطن جائے گی۔ اس کی روشن آنکھوں میں دیس دیس کے رنگ جھلک رہے تھے ‘پھراس نے اپنی آنکھیں بندکرلیں‘سیڑھیوں سے ٹیک لگا لی اورخودسے باتیں کرنے لگی:ـ میں یہاں ہوں اور میرے شہرمیں برف پڑرہی ہوگی۔ میرے گھر کی چھت پردہلیز سے باہراورگلی میں برف گررہی ہوگی۔ اس کے شانت چہرے کو دیکھتے ہوئے ‘مجھے مجیدامجد کی نظم کی آخری سطریں یادآگئیں:
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہر میویخ ہے
برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں
میں سوچتا ہوںتصور کاطلسم بھی کیسا طلسم ہے‘ پلک جھپکنے میں دوریاں سمٹتی اور فاصلے تحلیل ہوجاتے ہیں اور پھرتصور کی آنکھ ہمیں من چاہے‘ منظر دکھاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں