"SSC" (space) message & send to 7575

اقبال، تعلیم اور مدرسہ

اقبال تعلیم کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عہدِ حاضر میں ذہنوں کو مغلوب کرنے کا سب سے موثر ہتھیار تعلیم ہے۔ اقبال کے بقول:
سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے اور ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
تصور، جستجو، تحقیق، آزادیٔ فکر، عمل، حرکت اور تبدیلی اقبال کے تصور تعلیم کے بنیادی اجزا ہیں۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب کا تجزیہ ان کی نظم ''آوازِ غیب‘‘ میں ملتا ہے۔ اس نظم کے شروع کے دو اشعار میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے حوالے سے سوال سامنے آئے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے 
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
اس نظم کا آخری شعر ان سوالوں کا جواب فراہم کرتا ہے جن سے نظم کا آغاز ہوتا ہے:
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
بادشاہت، ملائیت اور پیری فقیری میں مشترک چیز تقلید ہے۔ علامہ اقبال اس اندھی تقلید کو مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ تعلیم کا مقصد ذہن کی کشادگی ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے ذہنوں کو مقید کر دیا تھا۔ مغربی تعلیم کی یلغار‘ جس میں اقدار اور مذہب کے لیے جگہ نہ تھی‘ اقبال کی تنقید کا خاص موضوع تھی۔
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الااللہ
اقبال ایک طرف مغربی تعلیم کی لا دینیت کے خلاف تھے دوسری طرف وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تقلید پسندی پر نالاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں اجتہاد کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کی نظم 'پنجابی مسلمان‘ اس وقت کے پنجابی مسلمانوں کے عمومی رویوں کی عکاسی کرتی ہے:
تحقیق کی باری ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو آتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
بیسیویں صدی کے ماہرینِ تعلیم میں پالو فریرے Paulo Freire ایک اہم نام ہے‘ جس کی کتاب Pedagogy of the Oppressed تعلیمی تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم تحریر ہے۔ پالو فریرے نے اس کتاب میں تعلیم کے حوالے سے ایک دلچسپ تصور پیش کیا جو Banking Concept of Knowledge کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ تعلیم کا ایک فرسودہ طریق کار ہے جس میں طالب علم کو کچھ معلومات ذہن نشین کرائی جاتی ہے جنہیں وہ امتحان میں اپنی یادداشت کے بل بوتے پر لکھ آتا ہے اور اچھے نمبر بھی حاصل کر لیتا ہے لیکن اصل زندگی میں ان معلومات کی تفہیم اور اطلاق نہیں کر پاتا‘ یوں مدرسہ معاشرے کی Stereotypes کوچیلنج کرنے کے بجائے مزید تقویت دیتا ہے اور تعلیم کا بنیادی مقصد ذہنی تبدیلی حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح تعلیم صرف رسومات کا نام رہ جاتی ہے۔
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسے والوں کی تگ و دو
اقبال سکول کی تعلیم کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو صرف کتاب اور کلاس روم کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور جس کا زندگی اور فطرت (Nature) سے تعلق نہیں تھا۔ 
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوت و کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش
اقبال تعلیم کے حرکی تصور پر یقین رکھتے ہیں۔ تعلیم کا ایک ایسا نظام جس میں علم اور عمل باہم ساتھ ساتھ چل رہے ہوں۔ محض علم جس میں عمل کی چنگاری نہ ہو اقبال کے تصور تعلیم کا مقصود نہیں۔ 
ناداں ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسبابِ ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو
تعلیم کے حوالے سے ایک اہم کتاب Ivan Illich کی تصنیف Deshooling Society ہے جس میں وہ اس تعلیم کے بارے میں اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہے‘ جو معاشرے کے سارے افراد کو ایک سانچے میں تیار کرتی ہے اور یوں انفرادی سوچ اور تخلیقیت کے چشموں کو خشک کر دیتی ہے۔ اسی طرح Vandana Shiva اپنی تحریروں میں Mono Culture پر تنقید کرتی ہیں‘ جس میں ایک ہی سانچے کا استعمال ہوتا ہے۔ تعلیم کے اس تصور میں کارکردگی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ دوسرے لفظوں میں تعلیم کا یہ تصور روبوٹس کو جنم دیتا ہے‘ جن کے دلوں میں کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ اقبال اس نوح کی تعلیم کے بارے میں کہتے ہیں:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ایک طرف اقبال مغربی تعلیم کے الحادی تصور کے خلاف تھے اور دوسری طرف ہندوستان میں بسنے والے اپنے ہم وطنوں کی حالت پر مضطرب تھے جو اندھی تقلید اور ذہنی غلامی کا شکار تھے جن کی زندگیوں پر تحقیق اور اجتہاد کے دروازے بند تھے۔
ہند میں حکمت و دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق
اقبال مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں‘ جب سارے عالم میں ان کی شہرت تھی اور پھر وہ اپنے عہد کی امتِ مسلمہ کا اس سے تقابل کرتے ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
اقبال جس آزادیٔ افکار کے تمنائی ہیں وہ اس وقت کے ہندوستانی نظامِ تعلیم میں نہیں ملتی تھی۔ اس کے برعکس وہ نظامِ تعلیم ذہنی محکومی کو پروان چڑھا رہا تھا۔ اقبال کی ایک نظم ہندی مکتب اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہ ایک طرف آزادی کی اہمیت کا احاطہ کرتی ہے اور دوسری طرف ہندی مکتب میں رائج اس نظام تعلیم پر تنقید کرتی ہے‘ جس کی بدولت طالب علموں کے ذہنوں کے دریچے نہیں کھل پاتے اور وہ تقلید کی روایت میں کولھو کے بیل کر طرح بے مقصد سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں ان کی خودی اور حریتِ فکر کی نشوونما کا کوئی سامان نہیں۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا 
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے 
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال 
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات
اقبال تعلیم میں آزادیٔ افکار کے داعی ہیں لیکن وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ آزادی کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یہ حدود اقدار کی حدود ہیں‘ جو شائستگی کو یقینی بناتی ہیں۔
آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے ہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اقبال کے تصور تعلیم کا بنیادی جزو تحقیق ہے۔ وہ ایک ایسی تعلیم کے خواہاں ہیں جہاں آزادیٔ فکر اور عمل ساتھ ساتھ چلتیں ایک ایسی تعلیم جو صرف کلاس روم یا کتاب تک محدود نہ ہو بلکہ فطرت (Nature) کے ساتھ ہم آہنگ ہو، ایسی تعلیم جس میں عشق و خرد ساتھ ساتھ چل رہے ہوں، جو طالب علموں میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرے اور زندگی کی شبِ تاریک سحر کرنے کا ہنر بھی سکھائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں