پاکستان کے مختلف شہروں میں طلبا اس تعلیمی نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو گھٹن کی پیداوار ہے‘ جس میں تقلید (Confirmity) تعلیمی عمل کا محور ہے‘ جس میں تخلیق یا نئی سوچ کے بجائے یادداشت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے‘ جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابتدائی عرصہ میں ہی دبا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اکثر تعلیمی اداروں میں یہی نظام رائج ہے جہاں طالب علم کا کردار محض ایک روبوٹ کا ہے جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں اور جس کی ساری حرکات ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوتی ہیں۔ یہ تعلیمی نظام طلبا کی فکر کے افق وسیع کرنے کے بجائے ان کی سوچ کو محدود کرتا ہے۔ طلبا کو صرف کتاب اور کلاس روم کی چہار دیواری تک محدود کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا کا واحد مقصد نوکری کا حصول ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے مسائل سے مکمل طور پر لا تعلق ہوتے ہیں۔
تعلیم کا مرکزی جوہر حریتِ فکر ہے۔ اس کا ادراک آج سے تقریباً سو سال پہلے رابندر ناتھ ٹیگور کو ہوا تھا۔ ٹیگور ایک معروف شاعر اور ڈرامہ نگار تھے‘ جنہیں ادب میں ان کی کارکردگی پر نوبل پرائز دیا گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کا زمانہ مقامی ہندوستانی باشندوں کے لیے مایوسی کا زمانہ تھا۔ ٹیگور کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ دیہات میں غریب کسانوں کی حالتِ زار سے آگاہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے معاشی، ثقافتی اور مذہبی استحصال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ فرنگی پروپیگنڈے نے ہندوستانی رعایا کے ایک بڑے حصے کو اپنا اسیر بنایا ہوا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی اس مشترکہ مزاحمت کا اظہار تھا جس میں ہندوستان میں بسنے والی ساری قوموں نے بلا امتیازِ مذہب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو للکارا تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ مقامی لوگوں کو کامیابی نہ مل سکی لیکن کمپنی کے اقدار کی چولیں ہل گئیں۔ جنگ کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کچھ کو طویل عرصے کے لیے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اقتدار براہِ راست تاج برطانیہ کے پاس آ گیا‘ جس نے ایک خاص منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے ذہنوں میں فرنگی زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی کی برتری بٹھانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں تاج برطانیہ نے مغربی طرزِ تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا‘ جس میں بنگال کے ایک گھرانے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے آنکھ کھولی‘ اور جس نے آنے والے دنوں میں ہندوستانی نوجوانوں نے ایک کثیر تعداد کے ذہنوں کو متاثر کیا۔
ٹیگور کے والد ایک مذہبی شخصیت تھے۔ کہتے ہیں ایک روز ٹیگور اپنے والد کے ہمراہ بنگال کے علاقے بول پور میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ٹیگور کے والد ایک پر فضا جگہ پر رک گئے۔ چاروں سمت ایک عجیب دل آویز سکوت تھا۔ سر سبز درختوں کے گھیرے میں یہ جگہ جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتی تھی۔ ٹیگور کے والد نے اسی وقت ارادہ کر لیا کہ وہ اس جگہ کو خریدیں گے اور وہاں ایک ایسا ٹھکانہ بنائیں گے‘ جہاں گہرے سکوت میں مراقبہ کر سکیں۔ یہ جگہ شانتی نکیتن تھی جو بعد میں عالم گیر شہرت اختیار کر گئی۔
ٹیگور کے حساس طبیعت اپنے ہم وطنوں کی حالتِ زار پر کڑھتی تھی۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ جسمانی غلامی سے بدتر ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے باسیوں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی زبان، تہذیب، ثقافت کم تر ہے اور وہ غیر مذہب ہیں۔ یہ پیغام اس تواتر سے دیا گیا تھا کہ عام لوگ فرنگی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب سے مرعوب اور اپنی ثقافت‘ اقدار اور زبان و ادب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وقت ایک طرف مقامی تعلیم کے مراکز تھے‘ جہاں تحقیق کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں تھی اور دوسری طرف مغربی تعلیم کے مراکز کھل رہے تھے جہاں اقدار کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور فرنگی تہذیب و ثقافت کے پیغام کو تقویت دی جا رہی تھی۔ ایسے میں ٹیگور نے ایک ایسے تعلیمی مرکز کے قیام کا ارادہ کیا جو مروجہ تعلیمی اداروں سے مختلف ہو۔ یوں 1901 میں وہ سکول وجود میں آیا‘ جسے شانتی نکیتن سکول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
ٹیگور کے اس سکول کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طلبا کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی تھی۔ یہ سکول صرف کتاب اور سکول کی چہار دیواری تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ فطرت کی گود میں واقع ایک اوپن ایئر سکول تھا جو طلبا کو اپنے گرد و پیش کی اشیائے فطرت سے مکالمے کا موقع دیتا تھا۔ یہاں بنگالی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا تھا۔ مقامی ثقافت کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس سکول کا مقصد محض طلبا کو خواندہ بنانا نہیں تھا بلکہ یہاں تعلیم کا جامع تصور کارفرما تھا جس میں طلبا کی علمی، جسمانی، ثقافتی اور روحانی نشوونما کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بنیادی مضامین کے علاوہ مصوری، ڈرامہ، ڈانس اور کتاب خوانی کی سرگرمیاں پر زور دیا جاتا تھا۔ سکول میں کوئی مستقل نصاب نہیں تھا۔
طلبا کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں۔ سکول میں طلبا کو اشیائے فطرت (Objects of Nature) کے قریب رہنے کا موقع ملتا۔ درخت، دھوپ، بارش، پانی، پرندے‘ ندیاں طلبا کی زندگی کا حصہ تھے۔ یوں شانتی نکیتن میں تعلیم کا ایک جامع (Holistic) تصور رائج تھا جس کے تحت طلبا کو زندگی کے چیلنجز کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔
ٹیگور کو دیہات میں بسنے والے غریب کسانوں کی زبوں حالی کا حساس تھا۔ اس کے لیے سری نکیتن لٹریسی سینٹر قائم کیا گیا جس کے ذریعے کسانوں کو بنیادی خواندگی سکھائی جاتی۔ بعد میں ٹیگور نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کی جس میں تعلیم کا وہ تصور کارفرما تھا جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں اور ثقافتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا کہ لوگ ان پر فخر کریں۔ یوں ٹیگور نے شانتی نکیتن کے تعلیمی اداروں کو Decolonization کے عمل کے لیے استعمال کیا۔ شانتی نکیتن محض ایک سکول نہ رہا بلکہ ایک تحریک بن گئی‘ جس کا بنیادی نکتہ حریت فکر تھا اور پھر 1919 میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے سانحے نے مزاحمت کا عمل اور تیز کر دیا۔ ٹیگور نے بطورِ احتجاج اپنا اعزاز واپس کر دیا۔ بول پور کے خاموش پُر سکوت علاقے شانتی نکیتن نے تعلیم کے ذریعے طلبا کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کا درس دیا اور پھر انہیں طلبا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
شانتی نکیتن کے کامیاب تعلیمی تجربے کے پس منظر میں ایک سب سے اہم بات ٹیگور کا تخلیقی ویژن تھا جس کے تحت تعلیم اور معاشرے میں گہرا تعلق پایا جاتا تھا اور جس میں طلبا کی تعلیمی، جسمانی، روحانی، ثقافتی اور ماحولیاتی نشوونما شامل تھی۔ جس میں آزادیٔ فکر تعلیمی عمل کا بنیادی جزو تھا۔ جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی بلکہ ان کی نشوونما کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ جس میں طلبا کو محض کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے زندگی کو بہتر بسر کرنے کی مہارتیں سکھائی جاتیں۔ جس میں اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر فخر کرنا سکھایا جاتا۔ جس میں طلبا کو اعتماد کی قوت دی جاتی جو ان کے کردار و عمل میں نظر آتی۔ اب اپنے سکولوں کی اکثریت میں رائج تعلیمی نظام پر نگاہ ڈالیں جہاں طلبا کو ٹیکسٹ بک تک محدود کر دیا گیا ہے۔ طلبا، والدین اور اساتذہ کا سکولوں سے ایک ہی مطالبہ ہے‘ اچھا گریڈ۔ اچھے گریڈ کا حصول یوں تعلیم کا جامع تصور (Holistic View) اس یک رخے نظامِ تعلیم کی بھینٹ چڑھ گیا ہے جس میں تخلیق اور آزادیٔ فکر کی کوئی گنجائش نہیں‘ جس میں پالیسی سازی کے عمل میں طلبا کی کوئی آواز نہیں۔ اکیسویں صدی ایک سخت مقابلے کی صدی ہے جس میں تخلیقی صلاحیت (Creativity) کا سب سے اہم کردار ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبا کو ایک ایسا ماحول دیا جائے جس میں فکر اور اظہار کی آزادی ہو کہ یہی آزادی کسی بھی موثر نظامِ تعلیم کا بنیادی جوہر ہے۔