"SSC" (space) message & send to 7575

21ویں صدی اور مؤثر کلاس روم کا تصور

پنجاب یونیورسٹی کا ادارۂ تعلیم و تحقیق (آئی ای آر) اساتذہ کا ایک قدیم ادارہ ہے جس کا آغاز انڈیانا یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا گیا۔ پچھلے مہینے اس ادارے کا اپنا کانووکیشن بھی ہوا جس میں آٹھ سو طلبا و طالبات کو اسناد دی گئیں۔ خاص طور پر تحقیق کے میدان میں دوررس اقدامات کیے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں آئی ای آر کی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا‘ جہاں مجھے کلیدی خطبے کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں تقریباً 70 تحقیقی مقالے پیش کیے گئے۔ پوسٹرز سیشن اس کے علاوہ تھے۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی دس جامعات کے پوسٹ گریجویٹ طلبہ اپنے تحقیقی مقالے پڑھنے کیلئے آئے تھے۔ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مجھے 21ویں صدی اور مؤثر کلاس روم کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ یہاں اس گفتگو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
مؤثر کلاس روم کے موضوع پرگفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ تعلیم دراصل تبدیلی کا نام ہے افراد کی زندگیوں میں تبدیلی اور معاشرے میں تبدیلی۔ تعلیم کا گہرا تعلق ڈویلپمنٹ سے بھی ہے لیکن اس ڈویلپمنٹ کا دائرہ صرف بلندوبالا عمارات اور سڑکوں کی تعمیر تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ آزادیٔ انتخاب (Freedom of Choice)، جس کا ذکر امرتیا سین اپنی کتاب Development as Freedom میں کرتا ہے‘ ڈویلپمنٹ کا محور ہونی چاہیے۔
21ویں صدی میں تبدیلی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اس تیز رفتار تبدیلی کے اثرات معاشرے کے ہر شعبے پر پڑ رہے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی پُرانے تصّورات مِٹ رہے ہیں اور نئے تصّورات تشکیل پارہے ہیں۔ نصاب، درسی کتب، کلاس روم، طریقۂ تدریس، امتحانی نظام‘ سب کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں زندہ رہنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے کون سی مہارتیں چاہئیں‘ ان کی ایک جھلک ہراری (Harari) کی کتاب 21 Lessons for the 21st Century میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں بھی 21ویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں کا ذکر ہے۔ ان میں Communication، Creativity، Critical Thinking اور Artificial Intelligence جیسی مہارتیں شامل ہیں۔ یہ مہارتیں یوں تو ہر دور میں اہم رہی ہیں لیکن اکیسویں صدی میں ان کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے۔ 
آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہم اکیسویں صدی کے تعلیمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سب سے پہلے تو اس وقت بھی پاکستان خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں آخری درجے پر ہے حتیٰ کہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک بھی شرحِ خواندگی کے لحاظ سے ہم سے آگے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول کی دہلیز عبور نہیں کر سکے اور بنیادی تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کے چیلنج سے جڑا ہوا ایک اور چیلنج ڈراپ آئوٹ ریٹ ہے، جس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 35 فیصد بچے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے ڈراپ آئوٹ ہونے کے حوالے سے پاکستان کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ پاکستان کا تیسرا اہم چیلنج تعلیمی معیار کا ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک تعلیمی اداروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا‘ جو ایک مثبت تبدیلی ہے‘ لیکن بنیادی سے اعلیٰ تعلیم تک معیار کے حوالے سے کئی سوالیہ نشانات ہیں۔ اے ایس ای آر کی رپورٹ کے مطابق سکولوں میں بچوں کی تعلیمی استعداد ان کے درجوں سے کہیں کم ہے۔
اب ہم مؤثر کلاس روم کے تصّور کا جائزہ لیتے ہیں۔ کلاس روم کی اثر پذیری کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو کا تعلق ان ظاہری وسائل سے ہے جو کلاس روم میں تدریس اور سیکھانے کے عمل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، مثلاًسکول کی عمارت چاردیواری، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، واش رومز، گرمیوں اور سردیوں میں موسم کی شدت سے بچنے کے لیے Heating اور Cooling کے انتظامات، کلاس رومز کا فرنیچر، کلاس رومز کی کشادگی، کلاس رومز میں مناسب روشنی کا انتظام وغیرہ۔ صرف اثرپذیری کے اس ظاہری پہلو پر گفتگو کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں سرکاری سکولوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس میں چاردیواری نہیں‘ نہ ہی پینے کا صاف پانی اور ہیٹنگ‘ کولنگ کے مناسب انتظامات ہیں۔ اسی طرح فرنیچر بوسیدہ اور شکستہ ہے۔ کلاس روم میں ہوا اور روشنی کا مناسب انتظام نہیں اور ایک کلاس روم جہاں صرف 30 طلبا کی گنجائش ہے‘ 50 سے زیادہ طلبا بیٹھے ہوتے ہیں۔ وسائل کی یہ کمی تدریس اور سیکھنے کے عمل پر منفی اثرات مرّتب کرتی ہے۔
کلاس روم کی اثرپذیری کا دوسرا پہلو ظاہری نہیں بلکہ اِس کا تعلق تدریس اور سیکھنے کے معیار سے ہے۔ کلاس روم کی اثر پذیری کا یہ پہلو ظاہری وسائل کے پہلو سے زیادہ اہم ہے۔ پاکستان کے بیشتر سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کا جائزہ لیں تو تعلیمی اداروں کی اکثریت میں تدریس کا وہی فرسودہ نظام رائج ہے‘ جس میں تعلیم کا اول و آخر مقصد علم، مہارتوں اور رویوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی ہے۔ تدریس کے اس نظام کی تہہ میں تین اہم مفروضے ہیں: پہلا یہ کہ علم ایک جامد چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ طلبا ایک خالی سلیٹ کی طرح ہوتے ہیں اور تیسرا یہ کہ استاد تمام علوم کا واحد ذریعہ ہے۔ ان تینوں مفروضوں کو نئی تحقیق نے رد کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ علم کوئی جامد چیز نہیں۔ اس کی تشکیل روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ اسی طرح طلبا خالی سلیٹ کی طرح نہیں ہوتے۔ جدید تحقیق کے مطابق چھوٹی عمر کے بچوں کے ذہن بھی خالی سلیٹ نہیں ہوتے بلکہ مشاہدات اور امتیازات کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح دورِ حاضر میں استاد یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ تمام علوم سے آشنا ہیں اور طلبا کے لیے حصولِ علم کا واحد ذریعہ ہیں۔ تینوں مفروضوں کے رد ہو جانے کے بعد ہمارے سکولوں میں رائج اس روایتی تدریسی نظام کا خاتمہ بھی ہو جانا چاہیے جس میں علم کو ایک جامد شے سمجھ کر اگلی نسل تک منتقل کیا جاتا ہے۔ اب تعلیم Transmission نہیں بلکہ Transformation کا نام ہے۔ تبدیلی‘ جو طلبا کی انفرادی زندگیوں کے ساتھ اجتماعی طور پر معاشرے میں بھی نظر آئے۔
پاکستانی تعلیمی اداروں میں مؤثر کلاس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ظاہری وسائل کے ساتھ تدریس اور سیکھنے کے عمل میں بہتری لائی جائے۔ ایک مؤثر کلاس روم میں استاد کا تصّور محض لیکچر دینے سے زیادہ ایک سہولت کار (Facilitator) کا ہے جو کلاس کے اندر ایک Enabling Environment فراہم کرے‘ جہاں طلبا سوالات پوچھ سکیں اور اپنی رائے کا اظہار کر سکیں‘ جہاں وہ استاد کی رائے سے اختلاف بھی کر سکیں۔ یہی وہ ماحول ہے جہاں طلبا کو اعتماد ملتا ہے اور ان کی تخلیقی قوّتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اکیسویں صدی باہمی تعاون کی صدی ہے جس کی تربیّت ایک مؤثر کلاس روم میں دی جاتی ہے‘ جہاں استاد گروپ ورک اور پیپر ورک پر زور دیتے ہیں۔ ایک مؤثر کلاس روم کا استاد طلبا کو محض کتابوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اُنہیں زندگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے پروجیکٹس پر کام کرنے کی تربیّت دیتا ہے اور جس کلاس میں طلبا کا کردار فعال ہوتا ہے اور وہ محض دی گئی معلومات کو ازبر کرنے کے بجائے سوچ اور تفکر سے کام لیتے ہیں۔ ایک مؤثر کلاس روم کے طلبا کمیونیکیشن کی مہارت سے لیس ہوتے ہیں‘ جس کیلئے استاد اُنہیں تواتر سے Presentations کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اِسی طرح ایک مؤثر کلاس روم میں استاد روایتی طریقۂ تدریس تک محدود رہنے کے بجائے ٹیکنالوجی سے مدد لیتے ہیں۔ اِن سب طریقہ ہائے تدریس کا محور Critical Thinking کی مہارت کی نمو ہے۔ اکیسویں صدی میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو Creativityاور Critical Thinkingکی مہارتوں میں طاق ہوں گے۔ لیکن طلباء میں Critical Thinking بیدار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ خود اپنی ذات اور تدریس میں یہ وصف پیدا کریں۔ اکیسویں صدی کے تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے جامعات میں تحقیقی کانفرنسز کا انعقاد ایک مثبت اقدام ہے۔ اس پر انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں